رفتگاں کی بھیڑ ہےیادوں کے گھر کے سامنے

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 8؍جنوری 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالقدوس ندرت صاحبہ اپنے مضمون میں بیان کرتی ہیں کہ میری امی جان محترمہ امۃالرشید غنی صاحبہ بنت حضرت مولوی عطا محمد صاحبؓ اکثر خاندانِ مسیح موعودؑ کے بزرگوں سے ملنے اور دعا کی غرض سے جاتی رہتی تھیں اور آج تک یہ تعلق قائم ہے۔
محترمہ امۃالرشید غنی صاحبہ بیان کرتی ہیں ایک مرتبہ صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ (دختر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ) نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اپنے لیے دعا کرتی ہو؟ پھر فرمایا کہ مَیں تو ذرا بڑی ہوئی تھی تو میری امی نے مجھے کہنا شروع کردیا تھا کہ اپنے لیے بہت دعا کیا کرو۔
آپا متین سے یہ سن کر مَیں نے بھی دعا کرنی شروع کردی اور اللہ تعالیٰ کا بےحد شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل سے نیک، صالح اور خادمِ دین ساتھی (چودھری عبدالغنی صاحب سابق نائب امیر کراچی) عطا فرمایا۔ بہت محبت کرنے والا سسرال ملا، نیک اور سعادت مند بچے عطا کیے، اللہ کے فضل سے زندگی سکون اور اطمینان سے گزری۔
جب میں انٹر کا امتحان دے رہی تھی تو اپنی بہنوں کے ذریعے حضرت چھوٹی آپا جان کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ وہ انٹر کے بعد ٹیچر ٹریننگ لے لے اور فضل عمر ماڈل سکول میں پڑھائے۔ ٹیچر تو مجھے بہت مل جائیں گی مگر میرا دل کرتا ہے کہ اپنی پسند کی ٹیچر لگاؤں۔ میرا ارادہ تو بی اے کرنے کا تھا مگر جب آپ کا پیغام ملا تو میں نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ پھر جب نتیجہ آیا تو اس وقت حضرت مصلح موعودؓ مع فیملی جابہ تشریف لے گئے تھے۔ اخبار میں اگلے کورسز کے لیے داخلہ کے اعلان آرہے تھے۔ ٹیچر ٹریننگ شروع ہونے میں بھی چند دن باقی تھے۔ ایسے میں مجھے مجبوراً جابہ جاکر چھوٹی آپا سے مشورہ لینا تھا۔ چنانچہ میں اپنے بہنوئی مکرم قریشی محمد اکمل صاحب کے ساتھ جابہ گئی۔آپ نے مجھے لاہور جا کر داخلہ لینے کا حکم دیا۔ اس رات ہمیں جابہ رکنا پڑا کیونکہ واپسی کے لیے وقت ہی نہ تھا۔ برآمدے میں دو پلنگ بچھے تھے، چھوٹی آپانے مجھے کہا کہ تم یہاں مہر آپا کے ساتھ سو جانا۔ صبح جب اٹھے تو ہم نے حضرت مہر آپا صاحبہ کے کمرے میں ہی ناشتہ کیا۔ اس وقت باتوں کے دوران مجھے پتہ چلا کہ حضرت چھوٹی آپا جان نے اپنا پلنگ میرے لیے برآمدے میں لگوا دیا تھا اور خود فرش پر بستر کرکے سوگئیں۔ اس وقت مجھے سخت شرمندگی اور تکلیف ہوئی کہ کاش مجھے رات ہی کو پتہ چل جاتا تو کبھی پلنگ پر نہ سوتی اور حضرت آپا جان کو تکلیف نہ ہوتی۔
اُس زمانے میں جب پرانا لجنہ ہال تھا۔ اجتماع پر میری ڈیوٹی صفائی کروانے پر لگی۔ مَیں صبح سویرے آتی اور ساری جگہ یعنی ہال، گیلری، برآمدوں اور گیٹ کے سامنے صحن میں صفائی کرواتی۔ اس کے بعد جب نماز اور کھانے کا وقفہ ہوتا پھر گیلری، برآمدوں اور سٹیج پر صفائی کرواتی۔ اس وقت مٹی بہت ہوتی تھی، تھوڑی ہی دیر میں فرش گندے ہوجاتے۔ دورانِ اجتماع ایک دن مَیں کھانے کے وقفہ میں صفائی کروا رہی تھی۔ ایک دو دفعہ گیلری سے گزری تو حضرت چھوٹی آپا جان نے مجھے دیکھ لیا اور بلواکر پوچھا کہ تم نے کھانا کھایا ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں صفائی کروا کے گھر جاتی ہوں کھانا کھاکر اور نماز ظہر عصر پڑھ کر آجاتی ہوں۔ آپ کے سامنے کھانا ٹرے میں رکھا تھا اور آپ کھا چکی تھیں۔ فرمایا: ’’بیٹھو پہلے کھانا کھاؤ پھر کام کرنا۔ ‘‘ساڑھے تین بجنے والے تھے۔ بھوک سے میرا برا حال تھا۔ مگر آپ کی محبت اور شفقت سے منٹوں میں ساری بھوک اور تھکن دُور ہوگئی۔
ربوہ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے جب ساری عمارتیں کچی اینٹوں کی بنی تھیں اور سوائے حضرت مصلح موعودؓ کی گاڑی کے اَور کوئی گاڑی نہ تھی۔ پیدل ہی سب کام ہوتے تھے حتیٰ کہ دلہنیں بھی پیدل ہی رخصت ہوکر سسرال جاتی تھیں۔ میری بڑی آپا ذکیہ کی شادی تھی۔ ابّاجی نے حضرت مصلح موعودؓ سے درخواست کی کہ تشریف لائیں اور اپنی دعاؤں سے میری بیٹی کو رخصت کریں۔ حضورؓ نے ازراہ شفقت درخواست قبول فرمائی اور نماز عصر کے بعد تشریف لائے۔ ہمارا گھر ریلوے اسٹیشن کے بالکل سامنے تھا۔ حضورؓ دعا کروا کر واپس تشریف لے جانے لگے تو ابّاجی نے عرض کی: حضور! بچی کو سسرال پہنچانے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے گاڑی چاہیے۔پیارے آقا نے کمال شفقت سے فوراً فرمایا: ’’ٹھیک ہے میں گاڑی چھوڑ جاتا ہوں۔‘‘ ابّا جی نے عرض کی کہ حضوراتنی جلدی تو گاڑی کی ضرورت نہیں ہے، حضور گھر جا کر پھر گاڑی بھجوادیں۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’نہیں گاڑی تو یہیں رہے گی۔ مَیں پیدل ہی چلا جاؤں گا۔‘‘ ابّاجی پریشان ہوگئے کہ مَیں نے حضورؓ کو تکلیف دی، گاڑی نہ ہی مانگتا۔ حضرت مصلح موعودؓ قیافہ شناس توتھے ہی۔ ابّاجی کی پریشانی بھانپ گئے اور فرمایا ’’مولوی صاحب! آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں، مَیں تو اس وقت سیر کے لیے جایا کرتا ہوں۔ آج آپ کے گھر سے سیر کرتا ہوا جاؤں گا۔‘‘ حضورؓ روانہ ہوئے تو ابّاجی بھی ساتھ ہی چل پڑے۔ جب ریلوے لائن عبور کرلی جہاں سے سیدھی پگڈنڈی قصر خلافت تک جاتی تھی تو حضورؓ نے پھر فرمایا: ’’مولوی صاحب اب آپ جائیں۔ آپ نے بیٹی کو رخصت کرنا ہے۔‘‘ تب ابّاجی حضورؓ کوسلام کرکے واپس آئے۔
میری بہن آپا عطیہ کوئٹہ میں تھیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے چوتھا بیٹا عطا فرمایا۔ آپا نے ہمیں لکھا کہ حضورؓ سے بچے کے لیے نام پوچھ کر بھیجو، مَیں اور میری بہن امۃالسلام گئے۔اس دن سیّدہ امّ متین صاحبہ کے ہاں باری تھی۔ آپ نے ہمیں اوپر بلوالیا۔ہم نے سلام عرض کیا، حضورؓ اس وقت عصر کی نماز کے لیے تیاری کررہے تھے۔ چھوٹی آپا جان نے حضورؓ کوبتایا کہ اِن کی بہن عطیہ کے ہاں بیٹا ہوا ہے، نام پوچھنے آئی ہیں۔ان کے پہلے بچوں کے نام دانیال، زکریا اور الیاس ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’اس بچے کا نام ذوالکفل رکھ دیں۔‘‘ پھر حضرت چھوٹی آپا جان سے فرمایا: ’’ذرا قرآن مجید لاؤ اور دیکھو کہ ذوالکفل چھوٹے کاف سے ہے یا بڑے کاف سے، مجھے یوں ہی شک سا ہوگیا ہے۔‘‘ چھوٹی آپا جانے لگیں تو فرمایا: ’’چلو رہنے دو۔ ذوالکفل کا دوسرا نام حزقیل ہے۔ حزقیل رکھ لیں۔‘‘ حضرت چھوٹی آپا جان نے فرمایا کہ عطیہ تو پہلے ہی کہتی ہے کہ حضورؓ نے میرے سارے بچوں کے نام نبیوں کے نام پر رکھے ہیں اور حزقیل تو ہے بھی ذرا مشکل۔ تو مسکرا کر فرمانے لگے: ’’ابھی تو بہت نبیوں کے نام باقی ہیں۔‘‘ اور پھر کئی نبیوں کے نام لیے۔ہم سب ہنس پڑے۔ اس کے بعد آپا عطیہ کا ایک اَور بچہ ہوا تو اس کا نام حضورؓ نے یحییٰ رکھا۔
صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ سے ملنے جاتے تو آپ ہمیں حضرت اماں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ  کی باتیں بتاتی رہتی تھیں۔ ایک دن میری بہو نے کہا کہ میرے بچوں کے لیے دعا کیا کریں کہ نمازیں باقاعدہ پڑھنے لگ جائیں۔ فرمانے لگیں: دیکھو ہم گھر کی ساری لڑکیاں شام سے پہلے اکٹھے ہوکر کھیلا کرتی تھیں۔ جب نماز کا وقت ہوتا اور اذان کی آواز آتی تو حضرت امّاں جانؓ فرماتی تھیں کہ لڑکیو! نماز کا وقت ہو گیا ہے مَیں نماز پڑھنے جا رہی ہوں۔ تم بھی نماز پڑھ لو۔تو ہم بھی نماز پڑھنے چلے جاتے۔ دوسری دفعہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔بچوں کو کہنا ماننے کی عادت ہونی چاہیے۔ سب کام ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
ایک دفعہ آپ نے بتایا کہ میرا چھوٹا بھائی پلنگ پر سو رہا تھا۔ مَیں بھی پلنگ پر بیٹھی تھی۔ شاید اس کے جاگنے کا انتظار کر رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے مجھے بھی اونگھ آگئی، حضرت امّاں جانؓ کا اُدھر سے گزر ہوا۔ جب مَیں جاگی تو مجھے بلایا اور فرمانے لگیں: جس پلنگ پر بھائی سو رہے ہوں اس پر بہنیں نہیں لیٹتیں۔ حالانکہ میں ابھی بہت چھوٹی تھی اور میرا بھائی تو مجھ سے بھی چھوٹا تھا۔ مگر مَیں نے امّاں جانؓ کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں