روشنی کی تلاش میں – پانچ خواتین کی قبول حق کی داستان

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ امریکہ نومبر،دسمبر 2006ء میں پانچ ایسی خواتین کی قبول حق کی داستان بیان کی گئی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیت کی آغوش میں آنے کی توفیق عطا فرمائی۔
مکرمہ تماراراڈنی صاحبہ
احمدیت کی طرف میرا سفر سات سال کی عمر سے ہی شروع ہو گیا جب میری والدہ وفات پا گئیں اور میری دس سالہ بہن، نو سالہ بھائی اور مَیں اپنے والد کے ہمراہ رہنے لگے۔ اگرچہ میں عام خیالات رکھنے والی ایک بچی تھی لیکن اپنی والدہ کے فوت ہونے پر میں نے اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارہ میں سوچنا شروع کیا۔
پھر مَیں اپنی نانی کے پاس رہنے لگی۔ 1994ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں ابھی میں نے اپنے کالج کا پہلا سال ہی مکمل کیا تھا کہ میری نانی بھی وفات پاگئیں اور یوں مجھے اپنا دوسرا عزیز ترین گھر چھوڑنا پڑا جہاں سے میں اپنے والد کے گھر چلی گئی۔ اور ایک بار پھر میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بارہ میں سوچنے لگی۔ ایک سال بعد جب میرا بھائی بھی فوت ہوگیا تو مَیں نے سنجیدگی سے ایک ایسے مذہب کی تلاش شروع کی جس میں مجھے خدا جیسی عظیم ہستی مل سکے۔ اگرچہ عیسائیت کو اپنا مذہب جان لینے کے بعدمیں چرچ میں خدا سے اطمینان قلب مانگتی رہتی تھی۔
1996ء میں میری ملاقات اپنے خاوند سے ہوئی جو ایک احمدی مسلمان تھے اور اُن کے قول و فعل میں فرق نہیں تھا۔ البتہ عیسائیت میں یہ تضاد کثرت سے موجود تھا۔ مثلاً چرچ میں تو خدا کی تعریفیں کی جاتیں لیکن باہر کہیں بھی خدا کی حمد یا وحدانیت کا ذکر سنائی نہ دیتا۔ چنانچہ مَیں نے بلاجبر احمدیت قبول کرلی اور تب سے احمدیت پر میرا یقین دن بدن پختہ ہوتا جاتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتی چلی جاتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ نظامِ زندگی ہے۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے میں ہر وقت موت کے خوف کا شکار رہتی تھی لیکن اب بہت مطمئن زندگی گزار رہی ہوں جس میں خدا تعالیٰ کی حمد ہے۔ جب میں جھوٹ نہ بولنے کا فیصلہ کرتی ہوں تو اللہ تعالیٰ پہ اپنا یقین مضبوط کر رہی ہوتی ہوں اور جب میں نماز کی طرف بھاگتی ہوں تو اس یقین کے ساتھ کہ یہی میری روحانی غذا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مجھے اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرتے ہوئے اپنے سوال کا جواب صرف احمدیت میں ہی ملا ہے۔
مکرمہ پاریسہ جافری صاحبہ
میرا تعلق کیلیفورنیا سے ہے البتہ میری پرورش ایران میں ہوئی۔ بچپن ہی سے میری خواہش تھی کہ مہدی علیہ السلام میری زندگی میںہی آئیں۔ چونکہ شیعہ خاندان سے میرا تعلق تھا اس لئے امام مہدی کی منتظر تھی۔ امریکہ منتقل ہونے کے بعد یہ خواہش اور اسلام کے لئے محبت پہلے سے بڑھ گئی۔ میں ہمیشہ سے سمجھتی تھی کہ امام مہدیؑ آئیں گے تو دنیا میں ایک انقلاب آئے گااور سبھی پیارومحبت اور سکون سے جینے لگ جائیں گے۔ لیکن جب 9/11 کاواقعہ ہؤا تو امام مہدی کی آمد کا یقین کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر جب مجھے احمدیت کے بارہ میں علم ہوا تو مہدی کے انتظار والے عقیدہ کو بھی دھچکا لگا۔ تاہم مَیں نے احمدیت کے بارہ میں مزید جاننے کا فیصلہ کیا۔ جب مَیں احمدیہ مسجد گئی تو وہاں سارے پاکستانی ہی تھے۔ گویا یہ مذہب صرف پاکستانیوں تک ہی محدود تھا۔ لیکن ان پاکستانیوں میں کچھ خاص بات تھی۔ ان میں مَیں نے بہت پیار اور خلوص دیکھا۔ یہ اسلام کے بارہ میں بہت محبت اور شفقت کے ساتھ بات کرتے تھے۔ تب میں باقاعدگی سے مسجد جانے لگی اور یوں آہستہ آہستہ مجھے اس جماعت کے ساتھ ایک ربط سا محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ میں نے Ian Adamson کی حضرت مرزا غلام احمدؑ کے بارہ میں کتاب کا مطالعہ شروع کیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ شخص کون ہے جس نے دنیا بھر میں کئی افراد کے دل موہ لئے ہیں۔ اور کیا یہ وہی مہدی ہے جس کا میں بچپن سے انتظار کر رہی تھی؟ جیسے جیسے میں یہ کتاب پڑھ رہی تھی تو مجھے اس ہستی کے ساتھ ایک تعلق محسوس ہوتا جارہا تھا اور جب میں یہ کتاب پڑھ چکی تو میں مکمل طور پر حیران تھی۔ پھر مَیں نے قرآن کریم کا احمدیہ ترجمہ پڑھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سوال و جواب کی مجالس دیکھیں۔ اپنے احمدی اور غیراحمدی اقرباء سے بات چیت کی تو احمدیت کی سچائی واضح ہوگئی اور اگرچہ احمدیت قبول کرنے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی گنجائش نہ تھی لیکن میرا نفس اس بات کو تسلیم کرتے وقت مشکل محسوس کرتا تھا۔ تب میں نے رمضان کی آخری رات کو کثرت سے دعا کی اور استخارہ کیا پھر قرآن پڑھنے لگی۔ جیسے ہی میں نے سورۃالمائدہ کی آیات 84,85 پڑھیں کہ ’’اور جب وہ اُسے سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اتارا گیا تو تُو دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! ہم ایمان لائے پس ہمیں گواہی دینے والوں میںتحریر کرلے۔ اور ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ اور اُس حق پر ایمان نہ لائیں جو ہمارے پاس آیا جبکہ ہم یہ طمع رکھتے ہیں کہ ہمارا ربّ ہمیں نیک لوگوں کے زُمرہ میں داخل کرے گا‘‘۔ یہ پڑھ کر تو مجھے ایسا لگا جیسے اللہ تعالیٰ براہ راست مجھ سے ہمکلام ہے۔ میں ان جذبات کو الفاظ میں نہیں ڈھال سکتی جو اس وقت محسوس کر رہی تھی۔مجھے اسی وقت لگا کہ میں ایک احمدی ہوں۔ چنانچہ فجر کی نماز کے بعد میں نے بیعت کرلی اور میرے دل کو مکمل سکون و اطمینان حاصل ہؤا۔ مجھے نہ صرف احمدیت میں خدا ملا بلکہ یہیں مجھے سچا اسلام حاصل ہوا۔ حق کی تلاش کا میرا سفر، احمدیت قبول کرلینے کے بعد انجام تک نہ پہنچا بلکہ اسلام کی خوبیوں بھرا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ اللہ کرے کہ مَیں اس روشنی کو دوسروں تک بھی پھیلاسکوں۔
مکرمہ نصرت جہاں بشیر صاحبہ
میںاللہ تعالیٰ سے ہر وقت حق کے حصول کیلئے دعا کر رہی تھی اور مجھے میرا جواب ایک خواب کے ذریعہ مل گیا جس نے مجھے ایسا قلبی سکون عطا کیا کہ میری زندگی ہمیشہ کیلئے بدل گئی۔ میرے دل پر سے پردہ اٹھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی ہمت عطا کی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی چیز کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے بھی بہتر چیز عطا کرتاہے۔ چنانچہ احمدیت قبول کرنے کے بعد میراخاندان مجھ سے کئی سال تک خفا رہا تو نیک اور محبت کرنے والی احمدی بہنوں کا ایک نیا خاندان مجھے عطا ہؤا۔ یہی میری قریب ترین سہیلیاں اور میرے لئے نمونہ بھی بنیں اور پردہ کرنا بھی سکھایا۔ مَیں لجنہ کے اجلاسات میں جاتی اور دیگر کاموں میں شامل ہوتی۔ سب سے بڑی نعمت جو مجھے حاصل ہوئی وہ اللہ تعالیٰ کی واحد اور طاقتور ہستی کی سمجھ تھی۔ پھر یہ سوچ بھی عطا ہوئی کہ کیا میں ایک سچی مسلمان بننے کے قابل ہوگئی ہوں۔
مکرمہ عاسلہ فہیم صاحبہ
میں نے تیرہ سال قبل میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے احمدیت کا مطالعہ شروع کیا۔ میں ایک کٹر وہابی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ہماری زندگی میں تمام دیگر امورپر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کوفوقیت دی جاتی تھی۔ میں نے چند جماعتی کتب سے احمدیت کے مطالعہ کی ابتدا کی۔
پاکستان میں احمدیوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔میرے ماموںلاہور کی ایک مقامی مسجد کے امام ہیں لیکن وہ روایتی مولویوں کی طرح نہیں ہیں۔ عربی میں روانی سے بات کر سکتے ہیں۔ میں جب اُن کی وسیع لائبریری سے احمدیت کے بارہ میں کتب لینے گئی تو انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی۔ میں نے جواب دیا کہ کچھ واقف کاروں کے ساتھ تبلیغی بحث کرنی ہے۔ انہوں نے افسردگی کے ساتھ جواب دیا کہ بہت مشکل ہے ، احمدی اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔ اس کے علاوہ انہوں نے میری والدہ کو بتایا کہ احمدی شراب نہیں پیتے، پنج وقتہ نمازیں پڑھتے ہیں، ان کی عورتیں پردہ کرتی ہیں لیکن ‘‘ ختم نبوت ‘‘ کی وجہ سے یہ جہنم میں جائیں گے۔ اور یہ بھی کہ وہابیوں اور احمدیوں میں صرف یہی ختم نبوت کا ایک فرق ہے۔
چنانچہ احمدیت کی طرف سے تنگ ذہن ہو کر مَیں نے احمدیت کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلے مجھے یقین تھا کہ احمدی کبھی سچے ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن وقت کے ساتھ میری سوچ بدلنے لگی جب میرے اپنے ہی مذہب میں میرے اندر اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں ملا۔ پاکستان میں مجھے احمدیت کی حقیقت جاننے کے سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے ایک عالم سے دوسر ے عالم کی طرف بھیج دیا جاتا۔ ایک مخالف نے تو یہاں تک کہا کہ ’’وہابی ہونے سے اگلا قدم احمدی ہوجانا ہے‘‘۔ میں نے ایک دفعہ اپنے والد محترم سے حضرت مرزا غلام احمد ؑ کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مرزا صاحب ایک بڑے عالم تھے بلکہ ان کے عقائد وہابی عقائد سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے لیکن پھر نہ جانے انہیں کیا ہؤا اور انہوں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کردیا۔
جب میرا اپنا مذہب مجھے میرے سوالوں کا جواب نہ دے سکا تو میں نے احمدیت کا مطالعہ شروع کر دیا اور ساتھ بہت دعا بھی کی۔ جب مجھے احساس ہؤا کہ شاید میرا پیدائشی مذہب سچا نہ ہو تو مجھے سخت ڈر لگا او ر میں نے شدّت کے ساتھ دعا شروع کردی۔بس میری یہی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مجھ سے خوش ہوں ۔
جب میرے ذہن سے پردہ ہٹنا شروع ہؤا اور مجھے احمدیت کے تاریک پہلو روشن نظر آنے لگے، تب میں نے بے شمار کتب کا مطالعہ کیا اور اپنے سوالات پوچھنے کیلئے ایک مربی صاحب کے پاس گئی۔انہوں نے احادیث اور آیات کے حوالوں سے میرے تمام سوالات کا تسلّی بخش جواب دیا اور مجھے دعا کے بعد فیصلہ کر نے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ مزید دعاؤں اور چند خوابوں کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ احمدیت کے خلاف گندا اور جھوٹا پراپیگنڈا صرف نفرت اور جہالت کا نتیجہ تھا۔ الحمدللہ کہ اپریل 1996ء میں مَیں نے احمدیت قبول کر لی۔ اس پر میرے والدین نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا کہ جیسے مَیں نے ان کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہو۔ اُسی سال میں امریکہ آگئی اور یوں امریکہ میں پہلی بار لجنہ کی ممبر بنی۔ پانچ سال قبل جب میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوئی تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور اپنے خاوند کی مدد سے مَیں اس مشکل مرحلے سے نکل آئی۔
مکرمہ انیسہ مکرائے صاحبہ
احمدیت میں مجھے سچائی، قوت ادراک اور سب سے بڑھ کر سکون حاصل ہؤا۔ میں ایک عیسائی تھی اور میری والدہ جمیکن تھیں اور والدبچپن ہی سے اسلام میں دلچسپی رکھتے تھے۔ چار بہنوں میں سب سے بڑی مَیں تھی اور چھوٹی بہنوں کے لئے ایک رول ماڈل بننا چاہتی تھی۔ میرے والدین چرچ نہیں جاتے تھے لیکن میں بارہ سال کی عمر سے اپنے بہن بھائیوں کو ضرور چرچ لے جاتی تھی۔ تاہم بچپن ہی سے میرے اندر عیسائیت کے بارہ میں سوال اُٹھتے۔ جیسے بائبل میں تو یہ بتایا جاتا کہ ایک خداپہ یقین کرو لیکن تثلیث کی تعلیم میںاس بات سے تضاد ہوتاتھا۔ اورپھر خدا سے کسی قسم کی بات کرنے کے لئے آپ کو ایک تیسرے فریق کے راستہ سے گزرنا پڑتا یعنی حضرت عیسیٰ۔
تب میں اپنے والد کے ساتھ ہی اسلام کے بارہ میں سیکھنے لگ گئی۔ بالغ ہونے پر میں نے اپنی بہنوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کیا جو زیادہ دیر نہ چلا۔ تاہم میں جس ’’ڈے کیئر سینٹر‘‘ میں پڑھاتی تھی، وہاں ایک عورت اپنا بائبل سٹڈی گروپ جاری کرنا چاہتی تھی۔ میں اپنی بہنوں کے ہمراہ اس کے پاس باقاعدگی سے جانے لگی لیکن وہاں بہت سی محبت اور بے شمار تحائف ملنے کے باوجود بھی میں اس عورت سے زیادہ متأثر نہ ہو سکی۔ ایک لحاظ سے مجھے خوشی تھی کہ میں نے یہ جان لیا کہ عیسائیت میں سچ نہیں ہے لیکن دوسرے پہلو میں افسردہ تھی کہ اس مذہب میں مجھے سکون نہیں مل سکا تھا۔ پھر کبھی سوچتی تھی کہ میں عیسائی ہو جاؤں تو شاید میری زندگی آسان ہو جائے۔ لیکن میرا دل بلکہ خدا مجھے ایسا کرنے نہ دیتے تھے۔اس کے برعکس میں ایک اور ہی راستہ پہ چل نکلی یعنی یہاوا وٹنس کامطالعہ کرنے لگ گئی۔ یہ خواتین ہر جمعہ کو میرے گھر عیسائیت کے بارہ میں بحث کرنے آجاتیں۔ ان کے خیالات و عقائد روایتی عیسائیوں سے مختلف تو تھے البتہ مجھے زیادہ متأثر نہ کرسکے۔ اس ناکامی کے بعد مجھے چڑ سی ہو گئی اور میں نے مذہب کا مطالعہ بالکل چھوڑ دیا۔
پھر مَیں دنیاوی رواداریوں کی طرف مائل ہوئی لیکن میری روح میں خلا اور بے چینی تھی۔ میں دعا تو کرتی تھی لیکن مجھے کسی عظیم ہستی کے ساتھ کوئی روحانی ربط یا تعلق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ لاشعوری طور پر اسلام ابھی بھی میرے ذہن میں تھا لیکن دوسرے غیر مسلم لوگوں کی طرح میں بھی سمجھتی تھی کہ اسلام میںعورتوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے اور انہیں دبایا جاتا ہے۔
پھر کالج میں مَیں نے سنّی مسلمانوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا اور ان کے پروگراموں میں جانے لگی۔ بالآخر میں نے اسلام قبول کرلیا کیونکہ اسلام کے پیغا م میں سادگی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت مجھے ہر پہلو سے سچی لگی۔ اور میں تثلیث کی غیریقینی اور پیچیدگی سے آزاد ہوگئی۔
میری ایک سہیلی عالیہ لطیف جو چودہ سال کی عمر سے میرے ساتھ تھی، میری مذہب کی جستجو کو سمجھتی تھی۔ وہ مجھے جماعتی تقریبات پہ مدعو کرتی اور کتابیں پڑھنے کے لئے دیتی لیکن کبھی بھی اپنی بات پہ اصرار نہ کرتی، نہ تنقید کرتی اور نہ ہی کبھی منع کرتی۔ میں کئی جلسوں اور تقاریب میں شرکت کر چکی تھی لیکن بیعت کرنے کیلئے تیار نہ تھی۔ اپنے غیر احمدی واقف کاروں سے احمدیت کے متعلق منفی خیالات سننے کی وجہ سے محتاط تھی۔ اسلام قبول کرنے پر میرا خاندان مجھ سے خفا تھا اور ڈرتی تھی کہ احمدیت قبول کر لی تو غیراحمدی واقف کاربھی مجھے چھوڑ جائیں گے۔ چنانچہ ایک بار پھر میں دوراہے پہ آ کھڑی ہوئی البتہ حقیقت کے قریب تر بھی ہوتی جا رہی تھی۔ ختم نبوت کا مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
اس دوران میرا ذہن چند واقعات کے بعد احمدیت کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ جیسے مَیں اپنی سہیلی کے ساتھ جلسہ سالانہ پہ گئی تو خریدی ہوئی کتابوں کا اپنا بیگ کھانے کی جگہ پر بھول گئی۔ جب یاد آیا تو میزیں بھی سمیٹ دی گئی تھی۔ پھر کسی لڑکی کے کہنے پر گمشدہ سامان کے سٹال پہ گئی تو وہ دفتر بھی بند ہوچکا تھا لیکن میری کتابوں کا بیگ وہاں زمین پہ موجود تھا۔
اسی جلسہ پر مجھے ایک بہت ہی اچھی اور نیک بہن امتہ الرشید ملیں جنہوں نے مجھے کتاب ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ دی۔ اسے پڑھ کر مجھے یوں لگا کہ حضورؑ گویا براہ راست مجھی سے مخاطب ہیں۔ اور میرے سب سوالوں کے جواب بھی مل گئے۔ چنانچہ میں نے گزشتہ ستمبر میں، 26 سال کی عمر میں، احمدیت قبول کرلی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں