روشنی کے مینار – حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18 دسمبر2020ء)

روشنی کے مینار

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2013ء میں مکرم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالے سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دو جلیل القدر صحابہؓ کا ذکرخیر کیا ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک دفعہ مجھے یاد فرمایا۔ اس وقت آپؓ مسجد مبارک کے سامنے بنے ہوئے ایک کچے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ سخت گرمی کے دن تھے۔ آپؓ نے ایک دوائی کے متعلق مشورہ کیا جو کسی دوست نے آپؓ کے لیے بھجوائی تھی۔ آپؓ فرمانے لگے کہ مجھے مظفر (ایم ایم احمد صاحب) نے قید کر دیا ہے اور ایئرکنڈیشنر لگا دیا ہے اور میرے لیے بار بار اس کمرے سے نکلنا مصیبت بن گیا ہے۔ دوست مجھے ملنے آتے ہیں تو خود اُن سے ملنے باہر دروازے پر جانا پڑتا ہے۔ اس طرح سرد کمرے سے دھوپ اور گرمی میں باہر نکلتا ہوں تو مجھے ہیٹ سٹروک ہو گیا ہے۔ خاکسار سے گستاخی ہو گئی اور عرض کیا کہ آپ بھی گرمیوں میں کسی صحت افزا مقام پر چلے جایا کریں۔ یہ سن کر آپؓ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا کہ آنحضرتﷺ اتنی شدید گرمی میں کسی صحت افزا مقام پر گئے تھے؟ میری کیا حیثیت کہ آقاؐ کے بعد مَیں آرام طلب کروں۔ پھر فرمایا: میرے پیارے آپؐ کے غلام حضرت مسیح موعودؑ کسی صحت افزا مقام پر گئے تھے؟ آپؑ ساری زندگی بیماری اور دشمنان کے مقدمات کی پیروی کے لیے جاتے رہے، اس وقت تو کوئی سہولت نہیں تھی پیدل یا ٹانگوں پر سفر کرتے رہے۔ ان تکلیف کے ایام کا اندازہ کرو۔ میری کیا حیثیت ہے! آپؓ کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔
آپؓ ان دنوں امیر مقامی تھے اور حضرت مصلح موعودؓ مری تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ مجھ سے مزید گستاخی ہوگئی اور شرمندہ بھی ہوا کہ میں نے عرض کر دی کہ حضور تو صحت افزا مقام پر تشریف لے جاتے ہیں۔ آپؓ نے فوراً بات کو کاٹا اور فرمایا: حضور کا مقام ہے، حضور کی صحت خراب رہتی ہے اور حضور کو کس قدر علمی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ جماعت کا فرض ہے کہ حضور کی صحت کا خیال رکھیں اور ہر قسم کی سہولت حضور کو بہم پہنچائیں۔ خاکسار شرمندہ ہو گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح کے لیے آپؓ کے جذبات معلوم کرکے خوشی بھی بہت ہوئی۔
ایک روز آپؓ مسجد مبارک میں نماز عید کے لیے تشریف لائے تو مسجد بھر چکی تھی۔ چنانچہ آپؓ دیوار کا سہارا لے کر لوگوں کی اتاری ہوئی جوتیوں میں بیٹھ گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ اُن دنوں بیمار تھے اور آپؓ نگران بورڈ کے صدر تھے۔ مَیں نے دیکھا تو حاضر ہو کر عرض کی آپؓ پہلی صف میں تشریف لائیں۔ آپؓ نے فرمایا میں یہاں ٹھیک ہوں۔ خاکسار نے عرض کیا لوگوں کی جوتیاں ہیں، نماز کے بعد یہاں رش ہوگا تو آپ کو تکلیف ہوگی۔ آپؓ نے فرمایا میری جگہ ان جوتیوں میں ہی ہے۔ خاکسار شرمندہ ہو گیا۔ مَیں نے عرض کیا کہ آپ بیمار ہیں، لوگ آپ سے ملیں گے تو آپ کو تکلیف ہو گی، اگر اجازت ہو تو میں اعلان کردوں کہ دوست آپؓ سے مصافحہ کرتے وقت خیال رکھیں۔ فرمایا: ہرگز نہیں، جو دوست بھی ملنا چاہیں مل لیں مگر یہ اعلان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مقام صرف حضرت خلیفۃ المسیح کا ہے کہ دوست ملاقات کے دوران حضور کی صحت کا خیال رکھیں۔
حضرت میاں صاحبؓ نگران بورڈ کے صدر کی حیثیت سے مجلس شوریٰ کے اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے۔ خاکسار بھی نمائندہ مجلس شوریٰ تھا۔ ایک موقع پر امیر جماعت کوئٹہ مکرم شیخ محمد حنیف صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے آپؓ کو کچھ اس طرح مخاطب کیا کہ بہت زیادہ تعریفی کلمات کا اظہار کیا۔ تب آپؓ نے فوراً شیخ صاحب کو ہاتھ اٹھا کر بلند آواز میں منع کیا اور فرمایا: شیخ صاحب یہ مقام صرف اور صرف حضرت خلیفۃالمسیح کا ہے میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ تشریف رکھیں۔
خاکسار نے ربوہ میں آل پاکستان کبڈی ٹورنامنٹ کروانا شروع کیا تو پاکستان بھر سے ٹیمیں شمولیت کے لیے ربوہ آنے لگیں۔ پہلے سال خاکسار نے حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کی وجہ سے حضرت میاں صاحبؓ سے کھلاڑیوں کی ملاقات کا انتظام کروایا۔ آپؓ نے آنحضرتﷺ کے کچھ واقعات سناکر نصائح فرمائیں۔اس موقع پر ایک مہمان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم تو اندر کسی آدمی سے ملنے گئے تھے وہاں تو ہم نے آدمی نہیں ایک فرشتے کو دیکھا ہے۔
حضرت میاں صاحبؓ کی کسرِنفسی اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ تین مبلغین بیرونی ممالک سے واپس ربوہ آئے، جبکہ دو مجاہد بیرون ملک جا رہے تھے۔ خاکسار نے ربوہ میں چائے کی ایک معمولی دکان پر اُن مبلغین کو دعوت دی اور اس مجلس میں حضرت میاں صاحبؓ سے بھی شمولیت کی درخواست کی۔ آپؓ پیدل چل کر اس معمولی دکان پر تشریف لائے اور معمولی اور سادہ برتنوں میں جو چائے پیش کی گئی اُسے قبول فرمایا۔ آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ آپؓ کا کیا اعلیٰ مقام تھا اور کیسی سادگی تھی کہ صرف مبلغین کی خاطر تشریف لاکر ان کو اعزاز عطا فرمایا اور نصائح فرمائیں۔
پھر دوسری دفعہ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ درویش کے لیے ایک چائے کی دکان پر آپؓ سے شمولیت کی درخواست کی تو آپؓ تکلیف اٹھا کر اس غریبانہ استقبالیہ میں شامل ہوئے اور اس شعر سے اپنی بات کا آغاز کیا:

اے دوستو پیارو عقبیٰ کو مت بسارو
کچھ زادِ راہ لے لو کچھ کام میں گزارو

آپؓ نے حضرت بھائی جی کی خدمات اور فدائیت کے واقعات سناکر ان پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیماری میں جماعت کے کاموں کی بھاری ذمہ داری بھی آپؓ پر تھی۔ بیرونی جماعتوں کے احمدی آپؓ کی خدمت میں غرباء کے لیے رقوم بھجواتے تھے۔ ادھر جماعت اپنے وسائل سے موسم سرما میں کپڑے لحاف اور مالی امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھی۔ آپؓ ربوہ کے مختلف محلّوں کے صدر صاحبان سے بصیغہ راز رپورٹ منگواتے اور سختی سے تاکید فرماتے کہ کوئی مستحق رہ نہ جائے، بعض سفید پوش بھی قابل امداد ہوتے ہیں ان پر بھی نظر رکھیں اور مجھے اطلاع دیں۔ اگر کسی کا حق اس کو نہیں ملا تو بعد از تحقیق اس ضرورت مند کی مدد فرمائی اور اگر کسی کو کوئی شکایت ہوتی تو اس کی شکایت کا جب تک ازالہ نہ ہو جاتا آپ دریافت فرماتے رہتے۔ غرضیکہ ہر آدمی کا خیال رکھتے۔ آپؓ شدید گرمی میں چھتری کے سایہ میں ہی پیدل گھر سے دفتر تشریف لاتے اور پیدل گھر جاتے۔ کبھی آپؓ نے سواری کا مطالبہ نہیں کیا۔ اگر طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو اپنا کام گھر پر کرتے رہتے تھے۔

اللّٰھُمَّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُالرّٰحِمِیْنَ۔
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں