زندگی بھر کا ساتھی — الفضل
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 27؍اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم صوفی محمد اکرم صاحب بیان کرتے ہیں کہ عموماً لوگوں کو پرانے الفضل سنبھالنے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مگر مجھے حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم کی لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں الفضل کی تمام جلدیں ترتیب سے رکھی تھیں (خواہ وہ بو جہ مجبوری کسی دوسرے نام سے بھی شائع ہوا ہو۔) 4؍اکتوبر1974ء کو جب ان کے مکان کو آگ لگائی گئی اور بہت سارا سامان جل گیا مگر یہ خزانہ محفوظ رہا۔
قادیان سے ہجرت کے بعد ہم سیالکوٹ آگئے تھے۔ گھر کے سامنے ایک شریف النفس غیر از جماعت دوست شیخ عبدالغنی صاحب کا لکڑیوں کا ٹال تھا۔ ہاکر ہمارا الفضل وہاں دے جاتا تھا۔ سارا دن وہاں آنے والے اُسے پڑھتے اور شام کو ہمارے پاس پہنچتا۔ 1957ء میں ہم ربوہ آگئے تو کچھ عرصے بعد والد صوفی محمد عبداللہ مرحوم بیمار ہوگئے تو اکثر مَیں بلند آواز سے ان کو الفضل سناتا۔ اس مشق نے آئندہ زندگی میں بہت کام دیا۔ زبان و بیان کا ملکہ حاصل ہوا اور کسی بھی سٹیج سے تقریر کرنا مشکل نہ رہا۔
لاہور میں تعیناتی کے دوران دفتر میں الفضل اخبار بھی دیگر اخبارات کے ساتھ آتا تھا۔ سب اخبارات دفتر کے ہیڈ محترم ایس اے نقوی صاحب (MBE) کے پاس جاتے جنہیں پڑھ کر وہ ان پر دستخط کرتے۔ پھر یہ اخبار تمام دفتر میں گھومتے پھرتے۔ الفضل میری ٹیبل پر اگلی صبح تک رہتا۔ کبھی کسی کو الفضل کے متعلق غلط بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ کیونکہ میں کہتا تھا ہر کوئی اپنی مرضی کا اخبار منگواتا ہے، اس لیے یا تو باقی اخبارات بھی بند کرو یا پھر جب تک باقی اخبارات دفتر میں آتے ہیں الفضل بھی آئے گا۔ اکثر الفضل ایک تعارف کا موجب ہوتا اور لوگ احمدیت کے متعلق گفتگو کرلیتے۔
وہ زمانہ بھی آیا جب الفضل چھپنے سے قبل سنسر والوں کو دکھایا جاتا تو وہ اس پر لائنیں لگا کر کانٹ چھانٹ کرتے۔ الفضل پھر اسی شکل میں شائع ہوجاتا اور جب ہمارے پاس پہنچتا تو عجیب لطیفہ ہوتا کہ آدھے سے زیادہ اخبار پر لائنیں تو لگی ہوتیں مگر نیچے سے پڑھا بھی جاتا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے 1983ء کے ایک خطاب میں حسد کے حوالے سے فرمایا تھا کہ دشمن کا حسد کسی اَور چیز پر نہ چل سکے تو ہماری ڈاک پر ہی چل جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارا الفضل بھی اسی حسد کا شکار ہوگیا۔ محکمہ ڈاک کے کارکنان نے الفضل کی روحانی نہر کو بند کرنے کے لیے ربوہ سے ہی اس کے بنڈل اِدھر اُدھر کرنا شروع کردیے۔ جب الفضل کے پرچے ملنا بند ہوگئے تو دفتر الفضل سے رابطہ کرنے پر حقیقت معلوم ہوئی۔ بہرحال روحانی آبپاشی کے لیے جو نہر حضرت مصلح موعودؓ نے جاری فرمائی تھی سفلی پھونکوں سے اسے روکنا ممکن نہیں چنانچہ ہم نے چھ اخباروں کا بنڈل بذریعہ کوریئر منگوانا شروع کردیا۔ پھر الحمدللہ کہ انٹرنیٹ نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔
