ستارہ ذوالسنین ۔ دمدار ستارہ

یہ سنّت اللہ ہے کہ کسی بھی مامور کے ظہور کے وقت آسمان پر نشانات کا ظہور بھی ہوتا ہے اور ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت ظہورپذیر ہوتا رہا۔ تاریخ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر بھی ایک دمدار ستارہ ’’ذوالسنین‘‘ آسمانی نشان کے طور پر ظاہر ہوا جس کا ذکر متی کی انجیل میں بھی موجود ہے۔ ان حوالوں سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ستمبر 2010ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے۔
اُس زمانہ میں رومی سلطنت کے زیرسایہ فلسطین پر حکومت کرنے والے بادشاہ ہیرودیس کا لقب استعمال کرتے تھے۔ ان بادشاہوں کا تعلق ادومی قبیلے سے تھا اور یہ لوگ حضرت یعقوب ؑکے بھائی کی اولاد سے تھے۔ انجیل کے مطابق مجوسی آ سمان پر حرکت کرتے ہوئے ستارہ کا نشان دیکھ کر بادشاہ کے پاس آئے تھے جو عام دنوں میں نظر نہیں آتا تھا لیکن اُس وقت دو ماہ تک نظر آتا رہا۔ بعض عیسائی تو اسے منفرد معجزہ قرار دیتے ہیں لیکن اکثر محققین کے مطابق یہ ایک دمدار ستارہ (Comet) تھا جو دو ماہ سے زیادہ عرصہ آسمان پر نظر آتا رہا کیونکہ مجوسی اُس زمانہ میں دوسرے ملک سے سفر کر کے فلسطین پہنچ گئے تھے اور ابھی یہ ستارہ آسمان پر سفر کرتا نظر آرہا تھا۔
دمدار ستارے چند سو میٹر سے لے کر 40 کلومیٹر سے کچھ اوپر سائز کے ہوتے ہیں اور یہ مٹی، چٹان اور برف کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارے نظامِ شمسی میں موجود کئی دمدار ستارے سورج کے گرد بیضوی صورت میں چکر لگاتے ہیں۔ اس چکر کے ایک سرے پر یہ سورج کے بالکل قریب سے گزرتے ہیں اور دوسری انتہا پر یہ سورج سے بہت دُور نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے بعض سورج کے گرد موجود تمام سیاروں سے بھی دُور نکل جاتے ہیں اور پھر دوبارہ سورج کے بالکل قریب سے گزرتے ہیں۔ جن دمدارستاروں کا محور چھوٹا ہوتا ہے وہ یہ محور بیس سال سے کم عرصہ میں مکمل کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو کہ سورج کے گرد اپنا چکر ہزاروں سالوں میں مکمل کرتے ہیں۔ نظام شمسی میں موجود بے شمار دمدار ستاروں میں سے بہت تھوڑی تعداد کو دُوربین کی مدد کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔ بعض دمدار ستارے سورج سے اتنا دُور نکل آتے ہیں کہ وہ ہمارے نظام شمسی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتے ہیں اور بعض سورج کے قریب سے گزرتے ہوئے شکست و ریخت کا شکار ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔جب یہ دمدار ستارے نظام ِ شمسی کے اندر کے حصے سے گذرتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کے اثر سے ان میں سے بخارات اور ذرات اُ ٹھتے ہیں جو کہ دمدار ستارے کے ارد گرد ایک روشن ہالہ بناتے ہیں جسےCOMAکہا جاتا ہے۔یہ ہالہ بہت بڑے حجم کا بھی ہو سکتا ہے۔ اور چونکہ یہ دمدار ستارے مستقل حرکت میں ہوتے ہیں اس لیے ان دمدار ستاروں کے پیچھے اس ہالہ کی وجہ سے ایک دم بن جاتی ہے جو کہ بعض صورتوں میں 150 ملین کلومیٹر لمبی بھی ہو سکتی ہے۔بسا اوقات ایک دمدار ستارے کی دو دمیں بھی نظر آتی ہیں۔ ایک دم اٹھنے والی گیس سے بنتی ہے اور ایک دم دمدار ستارے سے اٹھنے والی مٹی سے بنتی ہے۔ اور چند دمدار ستاروں کی ایک تیسری دم بالکل الٹ طرف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ اور یہ دمدار ستارے اپنی دموں سمیت آسمان پر چلتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔
عربی میں اس ستارے کو ذوالسنین بھی کہا جاتا ہے۔ احادیث کی کتب میں بھی ان ستاروں کا ذکر ملتا ہے۔چنانچہ حضرت کعب ؓ سے روایت ہے کہـ ’’ مہدی کے خروج سے قبل مشرق سے ایک ستارہ نکلے گا جس کی چمکتی ہوئی دم ہو گی‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مامورین کی آمد پر جو آسمانی نشانات ظاہر ہوتے ہیں،ان کے بارہ میں بہت سی روایات معروف تھیں۔ چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے دَور میں آسمان پر ایک نورانی ستون دکھائی دیا جس پر لوگوں میں یہ باتیں شروع ہوئیں کہ یہ امام مہدی کے ظاہر ہونے کے نشانات ظاہر ہو رہے ہیں۔چنانچہ خواجہ شریف الدین حسین صاحب نے اس بارے میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی خدمت میں خط لکھا اور آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا:
’’ ــتم نے ستون کی نسبت جو مشرق کی طرف پیدا ہوا تھا دوبارہ دریافت کیا ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ خبر میں آیا ہے عباسی بادشاہ جو حضرت مہدی کے ظہور مقدمات میں سے ہے خراسان میں پہنچے گا۔ مشرق کی طرف قرن ذوالسنین طلوع کرے گا۔ اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ستون مذکور کے دو سر ہوں گے۔ یہ پہلے پہل اس وقت طلوع ہوا تھا جب حضرت نوحؑ کی قوم ہلاک ہوئی تھی۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں طلوع ہوا تھا جبکہ ان کو آگ میں ڈالا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کے ہلاک ہونے کے وقت بھی طلوع ہوا تھا اور حضرت یحییٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قتل کے وقت بھی طلوع ہوا تھا۔ جب اس کو دیکھیں۔ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں فتنوں کی شر سے پناہ مانگیں۔ … یہ طلوع اس طلوع سے الگ ہے۔ جو حضرت امام مہدی کے آنے کے وقت پیدا ہو گا۔ کیونکہ حضرت مہدی صدی کے بعد آئیں گے اور ابھی سو میں اٹھائیس سال گزرے ہیں۔
نیز حدیث میں حضرت امام مہدی کی علامتوں میں آیا ہے کہ مشرق کی طرف سے ایک ستارہ طلوع کرے گا۔ جس کا دُم نورانی ہو گا۔یہ ستارہ جو طلوع ہوا ہے شاید وہی ہے …‘‘۔
جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مکتوب میں تحریر ہے کہ دنیا کی (خصوصاً مامورین کی) تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف اہم واقعات کے وقت آسمان پر دمدار ستارہ دیکھا گیا تھا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی مبارک زندگی کے دوران بھی دمدار ستارہ ایک سے زائد مرتبہ ظاہر ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’حقیقۃالوحی‘ اور ’چشمہ معرفت‘ سمیت کئی کتب میں اس ستارہ کا ذکر فرمایا ہے جو 1882ء میں نکلا تھا۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ایک اور نشان یہ بھی تھا کہ اس وقت ستارہ ذوالسنین طلوع کرے گا۔یعنی ان برسوں کا ستارہ جو پہلے گزر چکے ہیں۔ یعنی وہ ستارہ جو مسیح ناصری کے ایام (برسوں) میں طلوع ہوا تھا۔اب وہ ستارہ بھی طلوع ہوگیا ہے جس نے یہودیوں کے مسیح کی اطلاع آسمانی طور سے دی تھی‘‘۔ (ملفوظات جلد1 صفحہ31)
اگست 1907ء میں بھی ایک دمدار ستارہ دیکھا گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں ایک دوست نے آپؑ کے پوچھنے پر عرض کی کہ انہوں نے اب تک تو نہیں ستارہ دیکھا۔ اس پر ارشاد فرمایا: ’’ضرور دیکھنا۔ آج ہی دیکھنا۔ وہ ایک نہیں دو ہیں۔ میں نے بھی دیکھے تھے۔ ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا ہے۔ تین بجے سے دکھائی دینا شروع ہوتا ہے۔ مفسروں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب بہت ستارے ٹوٹے تھے تو اس سے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔یہ جو ستارے وغیرہ ہوتے ہیں ان کا اثر زمین پر ضرور ہوتا ہے۔ میرے دعویٰ سے پہلے اس قدر ستارے ٹوٹے تھے کہ ایسی کثرت آگے کبھی نہیں ہوتی تھی۔میں اس وقت دیکھ رہا تھا کہ ستاروں کی آپس میں ایک قسم کی لڑائی ہوتی تھی۔کوئی سو دو سو ایک طرف تھے اور سو دو سو ایک طرف تھے۔ہمارے لیے گویا وہ ایک پیش خیمہ تھے۔… میرے خیال میں تو کسوف و خسوف کا بھی خاص اثرزمین پر ہوتا ہے۔ دمدار ستارے کا پیدا ہونا ایک خارق عادت امر ہے۔ آسمان پر اس کا ظاہر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ زمین پر بھی ضرور کوئی خارق عادت امر ظاہر ہو گا۔ آئندہ زمین پر جو خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہوتے ہیںان کے لیے یہ پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس طرف ہمیں الہام بھی ہو رہے ہیں کہ آئندہ خارق عادت نشان ظاہر ہونے والے ہیں …۔ذوالسنین ستارہ کی نسبت جب نکلا تھا تو انگریزی اخبار والوں نے لکھا تھا کہ یہ وہی ستارہ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے میں نکلا تھا‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ261,260)
حضرت مسیح موعودؑ کی مبارک زندگی کے دوران دمدارستارہ ایک سے زائد مرتبہ ظاہر ہوا تھا۔آپؑ کی پیدائش کے سال 1835ء میں Halley Comet ظاہر ہوا تھا۔ یہ دمدار ستارہ ہر 75 یا 76 سال بعد زمین سے آلات کی مدد کے بغیر دیکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا سال حتمی طور پر معلوم نہیں ہے،اس لیے یہ تعین ممکن نہیں ہوسکا کہ آپ کی پیدائش پر کونسا دمدار ستارہ دیکھا گیا تھا۔ موجودہ حساب کی رُو سے یہ دمدار ستارہ 12 قبل مسیح میں ظاہر ہوا تھا۔ تاہم بعض محققین سمجھتے ہیں کہ Halley Comet ہی حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش پر نظر آیا تھا۔
یوں تو ایک دہائی میں دو تین مرتبہ دمدار ستارہ ممکنہ طور پر دکھائی دے سکتا ہے لیکن 1880ء میں بہت کم وقفہ سے دمدار ستارے دکھائی دینے لگے اور 1882ء کا وہ تاریخی دمدار ستارہ بھی دکھائی دیا۔
پہلے 1874ء میں ایک روشن دمدار ستارہ دکھائی دیا تھا۔ یہی وہ سال تھا جس میں پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود کو ایک جماعت عطا ہونے کی خوشخبری عطا کی گئی تھی۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا ۔وہ نان اس نے مجھے دیا اور کہاکہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے۔ یہ اس زمانہ کی خواب ہے جبکہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیا ہے‘‘۔
1860ء سے لے کر 1879ء تک یعنی 20 سال کے دوران صرف تین ایسے Cometدکھائی دیئے تھے جن کی چمک Magnitude 0 یا اس سے زائد تھی۔لیکن 1880ء سے ان کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور تین سال کے دوران اتنی چمک کے چار دمدار ستارے دکھائی دیئے اور ان میں 1882ء کا تاریخی اور منفرد شان والا دمدار ستارہ بھی شامل تھا۔
1880ء کی 31 جنوری کو ایک دمدار ستارہ دکھائی دیا اور یہ ستارہ 15 فروری 1880ء تک دیکھا گیا۔ 22 مئی 1881ء کو ایک نیا دمدار ستارہ نظر آنا شروع ہواجو کہ جولائی1881ء تک نظر آتا رہا۔ مئی 1882ء میں ایک اور دمدار ستارہ نظر آنا شروع ہوا اور یہ جولائی 1882ء تک نظر آتا رہا۔ یہ بات اہم ہے کہ 1880ء میں ’براہین احمدیہ‘ کی پہلی اور دوسری جلد شائع ہوئی تھی۔ تیسرا حصہ 1882ء میں اور چوتھا 1884ء میں شائع ہوئے تھے۔ 1882ء کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سال پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود کو ماموریت کا الہام ہوا۔ چنانچہ اسی سال ایک دوسرا Comet بھی ظاہر ہوا جسے تاریخ میں اس کی اہمیت کے پیش نظر Great September Comet of 1882 کہا جاتا ہے۔ اسے نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے مختلف مقامات پر دیکھا جاتا رہا۔ پہلے تو یہ طلوع آفتاب سے قبل دکھائی دیتا تھا لیکن جلد ہی اس کی چمک میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ سورج کی موجودگی میں بھی دکھائی دینے لگا۔ اس زمانہ کے تمام متعلقہ جرائد میں اس ستارہ کی تفصیلات شائع ہوتی رہیں۔ انگلینڈ جہاں بادل چھائے ہوئے تھے وہاں غبارہ کی مدد سے بادلوں سے اوپر جاکر ماہرین نے اس ستارہ کا معائنہ کیا۔ فروری 1883ء تک یہ ستارہ آنکھ سے دیکھا جا سکتا تھا اور آخری مرتبہ اسے دوربین کی مدد سے قرطبہ میںیکم جون 1883ء کو دیکھا گیا۔
ستاروں کی چمک ماپنے کا یونٹ magnitude کہلاتا ہے ۔اور منفی کی طرف یہ جتنا بڑھتا جائے ،اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ وجود اتنا ہی زیادہ چمکدار تھا۔ اس دمدار ستارے کا Magnitude اپنے عروج پر17- تھا۔ جبکہ چودھویں کے چاند کا Magnitude اپنے عروج پر 14-ہوتا ہے۔ اس طرح اس کا سائز تو ظاہر ہے کہ چاند سے بہت چھوٹا تھا لیکن اس کی چمک چاند کی انتہائی چمک سے بھی زیادہ تھی۔ اپنے محور کی انتہا کو عبور کرنے کے بعد اس ستارے کا مرکز لمبا ہونا شروع ہوا اور پھر یہ دیکھا گیا کہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں جو کہ دو دندانوں کی صورت نظر آتے تھے اور بالآخر اس کے پانچ ٹکڑے ہو گئے۔جن کی چمک کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتی تھی۔
کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ Comet تو ہر دہائی میں دو تین دفعہ دکھائی دیتے ہیں تو 1882ء کے ستارے کو غیر معمولی کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔ تو اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ستارہ اتنا غیرمعمولی تھا اور اس کی چمک اتنی تھی کہ اسے گزشتہ ہزار سال کے دوران سب سے غیر معمولی Comet قرار دیا جاتا ہے۔ اور اس حوالہ سے ماہرین کے مضامین انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔
David A.Seargentنے اپنی کتاب The greatest comets in history:… میں دمدار ستاروں کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ معلوم تاریخ میں دو ادوار میں نمایاں دمدار ستارے غیر معمولی زیادہ تعداد میں ظاہر ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک دور 1874ء سے لے کر 1887ء تک تھا۔
چنانچہ 1887ء میں 18 جنوری سے 30 جنوری تک ایک دمدار ستارہ دکھائی دیتا رہا۔ اس کے بعد 1901ء میں 12؍ اپریل سے 24 مئی تک ایک دمدار ستارہ دکھائی دیتا رہا۔ یہ وہ سال ہے جس کے دوران پہلے احمدی یعنی حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب نے شہادت کا مقام حاصل کیا۔
1907ء میں بھی Cometدکھائی دیا جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے چند ماہ قبل تک دکھائی دیتا رہا۔ حضرت مسیح موعود کی مبارک مجلس میں اسی ستارے کے نکلنے کا ذکر ہوا تھا اور حضور نے اس کو دیکھنے کی تاکید بھی فرمائی تھی۔ یہ ستارہ 10 جون 1907ء کو ایک رصدگاہ میں پہلی مرتبہ اور مئی 1908ء تک مختلف رصدگاہوں میں دیکھا گیا۔ مئی 1908ء وہ مہینہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود کا وصال ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں