سنگاپور میں احمدیت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر 2006ء میں شامل اشاعت مکرم عبدالستار خان صاحب کے مضمون میں سنگاپور میں احمدیت کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
6 مئی 1935ء کو تحریک جدید کے مربیان کا ایک قافلہ قادیان سے روانہ ہوا جن میں مکرم مولوی غلام حسین ایاز صاحب (سنگاپور)، مکرم صوفی عبدالغفور صاحب (چین) اور مکرم صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب (جاپان) شامل تھے۔
مکرم مولوی غلام حسین ایاز صاحب سنگاپور، ملاکا اور نپیانگ کی ریاستوں کے لئے بھجوائے گئے تھے۔ روانگی کے وقت آپ کو صرف اخراجات سفر دیئے گئے۔ آپ ایک لمبے عرصہ تک خود آمد پیدا کرکے گزارہ کرتے رہے اور مشن چلاتے رہے۔ آپ کو وہاں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ 14؍ مارچ 1936ء کو سنگاپور سے ملایا تشریف لے گئے اور کئی شہروں کا تبلیغی دورہ کیا اور انگریزی اور ملائی زبان میں ٹریکٹ تقسیم کئے۔ دس روز بعد آپ ریاست ملاکا کے شہروں میں پیغام پہنچانے چلے گئے۔ 21؍اپریل کو ’نگری سمبلین‘ کے شہر سرمبان سے ہوکر 24؍اپریل کو کوالالمپور تشریف لے گئے۔ سنگاپور میں احمدیت کا بیج بویا جاچکا تھا اور سعید روحیں کھنچی آرہی تھیں۔ کامیابی کے آثار دیکھ کر وسط 1937ء میں ملایا میں مخالفت کا بازار گرم ہوگیا۔ یکم ستمبر 1937ء کو آپ ملایا کی ایک ریاست سلانگور میں تشریف لے گئے جہاں کلانگ میں پانچ اشخاص (جن میں حافظ عبدالرزاق صاحب بھی تھے) مشرف بہ احمدیت ہوئے۔ جنوری 1940ء کو یہاں پندرہ احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت قائم ہوچکی تھی۔
یکم ستمبر 1939ء کو دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی تو جاپان نے دو تین ماہ کے اندر اندر سنگاپور سمیت بحرالکاہل کے بہت سے جزیروں پر قبضہ کرلیا۔ یہ ایام سنگاپور مشن اور مولوی ایاز صاحب کے لئے انتہائی صبرآزما تھے۔ خصوصاً جاپانیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی وجہ سے آپ پر بہت سختیاں کی گئیں۔ آپ اس زمانہ میں بڑی رقت اور گداز سے دعائیں کرتے تھے اور اکثر بذریعہ کشف اور الہام دعا کی قبولیت اور آئندہ کامیابی کے متعلق بشارات آپ کو مل جاتی تھیں۔
محترم مولانا ایاز صاحب کی کوششوں کا پہلا پھل حاجی جعفر صاحب ابن حاجی وانتارا صاحب تھے جو جنوری 1937ء میں حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ آپ بھی شدید مصائب میں ثابت قدم رہے۔ ایک مرتبہ تو اڑھائی سو مسلح افراد نے آپ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اور آپ سے احمدیت سے منحرف ہونے کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر قتل کردینے کی دھمکی دی۔ آپ نے اونچی آواز سے تشہد پڑھ کر اعلان کیا کہ میں کس بات سے توبہ کروں؟ جب اس کے باوجود مجمع مشتعل رہا اور مکان میں گھس کر جانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا تو آپ ایک چھرا ہاتھ میں لے کر اپنے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور مخالفین کو للکار کر کہا کہ اگر کسی میں جرأت ہے کہ بری نیت سے میرے مکان میں گھسنے کی کوشش کرے تو آگے بڑھ کر دیکھ لے کہ اس کا کیا حشر ہوگا۔ مکان کی دوسری سمت سے حاجی صاحب کی بہادر لڑکی تلوار لے کر باہر نکل آئی اور کہا کہ میرے والد جب سے احمدی ہوئے ہیں ، میں نے ان میں کوئی خلاف شرع بات نہیں دیکھی بلکہ ایمان اور عملی ہر لحاظ سے وہ پہلے سے زیادہ پکے دیندار ہیں۔ پس اگر کسی نے میرے باپ پر حملہ کرنے کی جرأت کی تو وہ جان لے کہ اس کی خیر نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس مشتعل مجمع پر ایسا رعب طاری کیا کہ مقامی ملائی پولیس کے بعض افراد کی تائید کے باوجود کسی کو آپ کے گھر میں گھسنے یا حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
محترم مولانا غلام حسین ایاز صاحب کا ذکرخیرکرتے ہوئے مکرم محمد نصیب عارف صاحب (جو جنگ عظیم دوم کے دوران سنگاپور میں قید رہے) نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ مولوی صاحب کو احمدیت کے لئے بہت تکالیف سہنی پڑیں۔ شروع میں ہی مخالفین نے آپ کے گھر پر خشت باری کرنا شروع کردی جس کے نتیجہ میں آپ کو کئی کئی دن مکان کے اندر بند رہنا اور خوراک اور دیگر ضروریات کیلئے تنگ ہونا پڑتا۔ پولیس نے گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بھی آپ کو بلیک لسٹ کیا ہوا تھا۔ لیکن بعد میں خدا کے فضل سے سارے مخالفین ایک ایک کرکے مختلف جرموں کی پاداش میں جاپانیوں کے ہاتھوں سزایاب ہوئے۔
جنگ عظیم کے دوران مولوی صاحب کے لئے خداتعالیٰ نے ایک خاص نشان دکھایا اور آپ کے اعلان کے مطابق آپ کے گھر کے اردگرد کے مکانات کو کافی نقصان پہنچا اور کافی لوگوں کی اموات ہوئیں مگر آپ کا گھر محفوظ رہا۔ پھر ایک خدائی مدد یوں نازل ہوئی کہ ایک جاپانی افسر آپ کے مکان کے سامنے موٹر سائیکل سے گرگیا۔ آپ اس کو اٹھاکر اپنے مکان میں لے گئے۔ تیمار داری اور مرہم پٹی کی اور اس کو کیمپ میں پہنچانے کا بندوبست کیا۔ اس پر وہ افسر آپ کو تحریر دے گیا کہ آپ سنگاپور میں جس طرح چاہیں رہیں۔ چنانچہ جاپانی حکومت کے قبضہ کے دوران کسی مخالف کو سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی۔1943ء اور 1944ء مولوی صاحب کے لئے مالی لحاظ سے بہت کٹھن تھے۔ 1945ء میں آپ کی حالت خداتعالیٰ کے فضل سے پھر بہتر ہونی شروع ہوگئی تو خداتعالیٰ کی غیبی امداد سے انہوں نے ہم احمدی جنگی قیدیوں کی مدد کیلئے دو ہزار ڈالر کی رقم روانہ فرمائی۔ اس وقت واقعی ہمیں روپیہ کی بڑی ضرورت تھی۔ ابھی وہ روپیہ ہم کو پہنچنے نہ پایا تھا کہ صلح ہوگئی اور وہ رقم مولوی صاحب کو واپس لوٹا دی گئی۔
سنگاپور سے واپسی کے وقت جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں تو آپ نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی اجازت کے بغیر مَیں ایک قدم بھی یہاں سے ہلانا اپنے لئے معصیت سمجھتا ہوں۔ آپ نے اتنا بھی نہ کہا کہ میرا فلاں پیغام میرے گھر والوں کو پہنچادینا بلکہ یہی کہا کہ حضور انور کو میرا سلام دینا اور میری تبلیغی مساعی کے لئے دعا کی درخواست کرنا۔
محمد یونس فاروق صاحب 11؍جنوری 1946ء کو حضرت مولوی صاحب کے ذریعہ سے مشرف بہ احمدیت ہوئے اور تقریباً پانچ ماہ سنگاپور میں رہنے کے بعد واپس ہندوستان آئے۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نام ایک خط میں لکھا: مولوی صاحب کی جدوجہد کا میرے دل پر بہت اثر ہوا۔ موصوف نے خدمت دین میں اتنی محنت اٹھائی ہے کہ قبل از وقت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ اور ہمیشہ بیمار رہنے کے باوجود دعوت الی اللہ میں مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ صبح چار بجے سے لے کر رات گیارہ بارہ بج جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں موصوف کو گھڑی بھر کی بھی فرصت نہیں ملتی کہ ذرا آرام کرلیں۔ دن بھر کبھی تو سلسلہ کے لٹریچر کا ملائی زبان میں ترجمہ ہورہا ہے، کبھی مضمون تیار ہورہا ہے۔ دن بھر سوالات اور اعتراضات کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور ان کو سمجھانے میں گھنٹوں مغززنی کرنی پڑتی ہے۔ ملایا کے احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت بھی خود ہی کرتے ہیں۔ پھر گھروں میں جا کر بھی دعوت الی اللہ کی جاتی ہے۔
یہاں احمدیت کے خلاف بہت سخت پروپیگنڈا کیاگیا اور اکثر لوگ ایسے سخت دشمن ہیں کہ جنگ سے پہلے کے زمانہ میں اکثر اوقات وعظ کے لئے اپنی مسجد یا اپنے گھر پر بلا کر مولوی صاحب کو بڑی بے رحمی سے زدوکوب بھی کرتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے چن چن کر جاپانیوں کے ہاتھوں سب کو ٹھکانے لگادیا۔ جاپانی قبضہ کے زمانہ کے مولوی صاحب کے کارنامے معجزات سے کم نہیں۔ ہر وقت جاپان ملٹری پولیس اور CID پیچھے لگی رہتی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت اطمینان دلادیا تھا کہ آپ پکڑے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ یہ نشان دیکھ کر اکثر مخالفین احمدیت کی صداقت کے قائل اور مولوی صاحب کے بہت معتقد ہوگئے اور بعضوں نے بیعت بھی کرلی۔
سخت سے سخت حالات میں بھی مولوی صاحب مایوس نہیں ہوئے۔ اور آپ کی انتھک کوششوں کا نتیجہ دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ یہ بھی احمدیت کا معجزہ ہے۔ آپ نے نہ صرف یہاں جماعت قائم کی بلکہ اس کی تنظیم اور تربیت میں بھی کمال کردیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے محترم مولانا صاحب کی قربانیوں اور ان کے شاندار نتائج کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بار فرمایا:
’’ملایا میں یا تو یہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کتے ان کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مالدار ہوٹلوں کے مالک اور معزز طبقہ کے ستّر اسّی کے قریب دوست احمدی ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ روزبروز ترقی کررہا ہے‘‘۔
محترم مولانا صاحب 6 مئی 1935ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تھے اور پندرہ برس بعد 24 نومبر 1950ء کو ربوہ میں تشریف لائے۔ اس کے بعد آپ 8؍اکتوبر 1956ء کو دوبارہ سنگاپور میں اعلائے کلمۃ الحق کے لئے بھجوائے گئے۔ کچھ عرصہ سنگاپور میں مقیم رہنے کے بعد بورنیو میں متعین کئے گئے۔ آپ ذیابیطس کے مریض تھے۔ یہ بیماری بورنیو آکر یکایک بڑھ گئی اور 18,17؍اکتوبر 1959ء کی درمیانی شب آپ وفات پاگئے۔
محترم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا بیان ہے کہ 1938ء یا 1939ء میں سنگاپور کی جامع مسجد سلطان میں ایک عالم کا ہماری جماعت کے خلاف لیکچر تھا۔ مکرم مولوی غلام حسین صاحب ایاز بھی وہاں تشریف لے گئے اور اس کے اعتراضات کا جواب دیا تو مجمع میں سے بعض لوگوں نے آپ کو سخت مارا اور گھسیٹ کر بالائی منزل سے نیچے پھینک دیا۔ چنانچہ آپ کو کمر اور سر پر سخت چوٹیں آئیں اور آپ بیہوش ہوگئے۔ ایک احمدی دوست محمد علی صاحب نے بھاگ کر پولیس کو اطلاع دی۔ چنانچہ پولیس مولوی صاحب کوکوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہاں سے اٹھا کر ہسپتال لے گئی۔ جہاں پر آپ کو کئی گھنٹوں کے بعد ہوش آیا اور ہفتہ عشرہ ہسپتال میں رہنا پڑا۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ کو مخالفت کی وجہ سے بعض دشمنوں نے چلتی بس سے دھکا دے کر باہر بازار میں پھینک دیا جس سے آپ کے منہ اور سرپر شدید چوٹیں آئیں۔
حضرت مولانا ایاز صاحب نے 1947ء میں 19 ہزار 137 مربع فٹ کا ایک قطعہ زمین مرکز اور مسجد کے لئے خریدا تھا جس میں لکڑی سے بنا ہوا ایک مکان بھی تھا جو 1983ء تک بطور مسجد استعمال ہوتا رہا۔ 1983ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس جگہ ایک وسیع مسجد طٰہٰ کا سنگ بنیاد رکھا جو دو سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔
ایک غیرازجماعت کیپٹن سید ضمیر احمد جعفری نے جون 1946ء میں جماعت احمدیہ کو ایک خط میں لکھاکہ میں حال ہی میں مشرق بعید سے آیا ہوں۔ ملایا جاوا وغیرہ میں آپ کے سلسلہ کی طرف سے مولوی غلام حسین صاحب ایاز تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ اپنے منصب کو وہ انتہائی ایثار و خلوص اور خاصے سلیقہ کے ساتھ انجام دے رہے ہیں بلکہ جن دشواریوں اور نامساعد حالات میں سے وہ گزر رہے تھے، اگر اس پر غور کیا جائے تو ان کے استقلال، حوصلہ اور ہمت پر حیرت ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ اس کام کو ایک فریضۂ ایمانی سمجھ کر رہے ہیں۔ ضمناً میں یہاں ایک ذاتی تاثر کا ذکر کروں جس پر مجھے اب بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ بیرون ملک جانے سے پیشتر احمدیت کے متعلق کوئی خیال آتے ہی میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ان کے مربیان کے لئے تو مزے ہی مزے ہیں۔ دیس دیس کی سیر اور فارغ البالی کی زندگی۔ آدمی کو یہ دو چیزیں مل جائیں تو اَور کیا چاہئے۔ مگر ملایا میں مولوی غلام حسین ایاز کو دیکھ کر میری اس خوش فہمی کو سخت دھکا لگا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ خاص محنت و مشقت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اتنی مشقت اگر وہ اپنے وطن میں کریں تو کہیں بہتر گزر بسر کرسکتے ہیں۔
سنگاپور کے لئے محترم مولوی ایاز صاحب کے علاوہ ابتدا میں جو مربیان بھجوائے گئے اُن میں مکرم مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری 18؍اپریل 1936ء کو سنگاپور روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ مکرم مولوی شاہ محمد صاحب ہزاروی بھی تھے جو چند ماہ تک سنگاپور میں فرائض بجالانے کے بعد 1937ء میں جاوا منتقل ہوگئے۔ تیسرے مربی محترم مولوی امام الدین صاحب ملتانی تھے جو 18 جون 1946ء کو قادیان سے روانہ ہوکر 6 جولائی 1946ء کو سنگاپور پہنچے۔ ٹرانسپورٹ کی مشکلات کی وجہ سے آپ ایک بحری جہاز میں بطور دھوبی ملازم ہوکر سنگاپور پہنچے۔ جنگ کے بعد سنگاپور میں افراتفری کا عالم تھا۔ چنانچہ تھوڑا بہت کام کرکے گزارا کرتے اور ساتھ تبلیغ بھی جاری رکھی۔ 1950ء میں آپ مرکز کے ارشاد پر انڈونیشیا چلے گئے۔
…………
مکرم مولانا محمدصدیق صاحب امرتسری مرحوم مربی سنگا پور کی احمدیوں کے اخلاص اور مسجد کی تعمیرکے حوالہ سے ایک تحریر اس خصوصی اشاعت میں مکرّر شائع ہوئی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ محترم وارتم بن مارتھا نے محترم ایاز صاحب کے ذریعہ قبول احمدیت کا شرف پایا۔ آپ نے سنگاپور جماعت پر آمدہ بڑے صبر آزما ادوار بھی دیکھے اور دوسرے احمدیوں کی طرح ہمیشہ استقامت اور صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ آپ کا مکان اپنے حلقہ میں ایک مرکز تھا جہاں باجماعت نماز اور درس وغیرہ کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ آپ ہر اجتماع کے موقع پر اپنے غیرازجماعت دوستوں کو بھی تبلیغ کے لئے مدعوکر لیتے اگرچہ اس وقت گورنمنٹ ہسپتال میں معمولی کارکن تھے لیکن ہمیشہ فراخدلی سے مہمان نوازی کرتے تھے۔
سنگاپور میں حضرت مولانا ایاز صاحب کے ذریعہ پہلی تعمیر کردہ مسجد پندرہ بیس سال بعد ناکافی ہو گئی تھی اور عمارت بھی اس قدر بوسیدہ ہوگئی تھی کہ اس کے کچھ حصہ کو گرا کر نئی مسجد بنانا ناگزیر ہو گیا تھا تاہم مالی تنگی کی وجہ سے عرصہ تک ایسا نہ کیا جا سکا۔ آخر 1964ء میں خاکسار نے مسجد کی تعمیرنو کے لئے چندہ کی تحریک کی تو تین سو ڈالرز جمع ہوگئے اور مرکز سے صرف سات سو ڈالر گرانٹ مل سکی جبکہ ہمیں تین چار ہزارڈالرز کی رقم درکار تھی۔ پس خاکسار مسلسل چندہ کی تلقین کرتا رہا۔ قریباً ایک سال بعد ایک روز برادرم وارتم بن مارتھا صاحب نے مجھے ڈیڑھ ہزار ڈالر کی رقم یہ کہہ کر دی کہ اسے مَیں نے حج کے لئے جمع کیا تھا، لیکن مسجد کی تعمیر اوّلیت رکھتی ہے۔ اُن کی اس قربانی کو دیکھ کر بہت سے مخیر احباب نے بھی بڑی بڑی رقمیں پیش کردیں اور خدا کے فضل سے تین چار ہزار ڈالرز میں 1965ء میں وہاں نئی خوبصورت مسجد تیار ہو گئی جس کے لئے لاتعداد وقارعمل بھی منائے گئے۔
…ژ…ژ…ژ…

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں