سَیّدُالشُّھُور – شَھرُ رَمَضَان کی اہمیت، فضائل، برکات اور مسائل و احکامات

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن دسمبر 1999ء و اخباراحمدیہ یوکے 1999ء)

سَیّدُالشُّھُور – شَھرُ رَمَضَان کی اہمیت، فضائل، برکات اور صیام رمضان سے متعلّقہ مسائل و احکامات

یہ مضمون ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کے دسمبر ۹۷ اور جنوری ۹۸ء کے شماروں میں شائع ہونے والے مکرم عبدالماجد طاہر صاحب کے تفصیلی مضامین اور بعض دیگر کتب کی مدد سے تیار کیا گیا ہے- اختصار کے پیش نظر آیات، احادیث اور اقتباسات کے مکمل حوالہ جات اس مضمون میں شامل نہیں کئے گئے-

تلخیص و ترتیب: محمود احمد ملک

اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو ایک اہم اور بابرکت مہینہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کے نزول کا آغاز اس مبارک مہینہ میں ہوا۔ فرمایا:

شَھرُ رَمَضانَ الذی اُنزلَ فیہ ِ القُرآنُ ھدًی للناسِ و بیّنٰتٍ من الھُدی والفرُقان

یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جوبنی نوع انسان کیلئے ہدایت ہے اور جو نہایت واضح اور کھلی کھلی راہنمائی کرنے والا اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’فیہ القرآن‘ کے مختلف معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اس کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا … تو اس میں حکمت یہ ہے کہ تمام تر شریعت کے احکامات اور نواہی جس کثرت کے ساتھ اور جس تکمیل کے ساتھ رمضان میں دہرائے جاتے ہیں یعنی ان پر عمل کیا جاتا ہے اور کروایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک پہلو بھی شریعت کا باقی نہیں رہتا جو رمضان میں نہ ادا ہو اس پہلو سے کوئی اور مہینہ ایسانہیں کہلا سکتا کہ گویا قرآن کریم اس کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ جب (رمضان کے بارے میں نازل ہوا) پڑھتے ہیں تو مراد یہ کہ قرآن کریم نے جتنی بھی انسان سے توقعات کی ہیں، جتنے بھی ارشادات فرمائے ہیں ، جتنی باتوں سے روکا ہے یا ناپسند فرمایا ہے ان سب کا اس ایک مہینے سے تعلق موجود ہے۔ ‘‘
یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں آنحضرت ﷺ بعثت سے قبل غار حرا میں عبادت فرمایا کرتے تھے ۔ اس طرح قرآن کریم کے نزول کا آغاز اسی مہینہ میں ہوا اور مذہب اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔
اسلامی مہینوں کی ترتیب کے لحاظ سے رمضان سے قبل شعبان کا مہینہ آتا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ماہ شعبان کی آخری رات یعنی رمضان المبارک کے آغاز سے ایک رات قبل ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت اور شان والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے۔ ہاں ایک برکتوں والا مہینہ جس میں ایک رات ہے جو (ثواب اور فضیلت کے لحاظ سے) ہزار مہینوں سے بھی بہترہے۔ اللہ نے اس کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی رات کی عبادت کو نفل ٹھہرایا ہے‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’آنحضرت ﷺ نے جب یہ فرمایا ’اذا دخل شھر رمضان‘ کہ جب شہر رمضان داخل ہو جاتاہے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ بالعموم ساری دنیا پر برکتیں لے کر آتا ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ وہاں برکتیں لے کر آتا ہے جہاں جہاں وہ داخل ہوتا ہے۔… اور جس انسان کے وجود میں رمضان کا مہینہ داخل ہو جائے گا اس کے جہان میں نیک تبدیلیاں پیدا ہوں گی… یعنی و ہ انسان جو اپنے آپ کو رمضان کے تابع کر دے گا تو گویا رمضان المبارک اپنی ساری برکتوں کے ساتھ اس انسان میں داخل ہوگا۔ ایسے انسان کے جہان میں جو بھی جنّت کے دروازے ہیں وہ سارے کھل جائیں گے اورجہنّم کے جتنے دروازے ہیں بند کر دئے جائیں گے ‘‘۔
آنحضرت ﷺ نے مختلف موقعوں پر رمضان المبارک کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور اس کی عظمت اور اہمیت دلوں میں بٹھائی ہے۔ اس میں سے آپ کے بعض ارشادات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ فرمایا:
٭ ’’ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنّت ہے۔ یہ ہمدردی وغم خواری کا مہینہ ہے‘‘۔ پھر فرمایا :’’ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے‘‘۔
٭ ’’ یہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتداء نزول رحمت ہے اورجس کا وسط مغفرت کا وقت ہے اورجس کا آخر کامل اجر پانے یعنی آگ سے آزادی کا زمانہ ہے‘‘۔
٭ ’’یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس میں جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں‘‘۔
٭ ’’اس مہینہ میں حالت ایمان میں ثواب اور اخلاص کی خاطر عبادت کرنے والا شخص اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماںنے اسے جنا‘‘
٭ ’’یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں جنّت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دئے جاتے ہیں‘‘۔
٭ ’’یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ اے بھلائی کے چاہنے والے آ اور آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے رُک جا! اور اللہ کے لئے بہت سے لوگ آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور رمضان کی ہررات کو ایسا ہوتا ہے‘‘۔
٭ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر چیز کیلئے ایک دروازہ ہوتا ہے اور عبادت کا دروازہ روزے ہیں۔
یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں حضرت جبرائیل ہر سال آنحضرت ﷺ کے ساتھ قرآن کریم کادور مکمل کیا کرتے تھے اور آپ کی وفات سے قبل کے آخری رمضان میں حضرت جبرائیل نے آپ ؐ کے ساتھ مل کر یہ دَور دو مرتبہ مکمل کیا۔
٭ آنحضور ؐ نے فرمایا ’یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں جوشخص اپنے مزدور یا خادم سے اس کے کام کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اور کم خدمت لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی بخش دے گا اور اسے آگ سے آزاد فرمائے گا‘‘۔
٭ پھر فرمایا : ’’یہ مہینہ باقی سب مہینوں سے افضل ہے‘‘۔
٭ اسی طرح آپؐ نے فرمایا:’’ مہینوں کا سردار رمضان کامہینہ ہے‘‘
٭ پھر آپؐ نے ایک اور موقعہ پر فرمایا:
’’ میری امّت کورمضان کی ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کونہیں دی گئیں:
(۱)… جب شہر رمضا ن کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف بنظر شفقت دیکھتا ہے اور جس پر خدا کی نظر پڑ جائے اسے پھر کبھی عذاب نہیں دیتا۔
(۲)… پھر شام کے وقت روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کے حضور کستوری کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے۔
(۳) …فرشتے ان کے لئے دن رات استغفار کرتے ہیں۔
(۴)… اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو حکم دیتا ہے کہ میرے بندے کے لئے تیار ہو جا اور خوب بن سنور جا- ممکن ہے جو دنیا سے تھک گیا ہووہ میرے گھر اور میرے پاس آنا چاہے۔
(۵)… جب رمضان کی آخری رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو بخش دیتاہے۔
یہ ایک ایسا مہینہ ہے جسکے سلامتی سے گزرنے کے ساتھ سارے سال کی سلامتی وابستہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان المبارک سلامتی سے گزر جائے تو سمجھو کہ سارا سال سلامت ہے۔ پس رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے تا کہ جسمانی ،روحانی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان ہمارے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہے اور یہ بابرکت مہینہ سارے سال کے شرور و معاصی کے ازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ماہ رمضان کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ شھرُ رمضان الذی اُنزلَ فیہ القرآن سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امّارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلّیٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے‘‘۔
پس جو شخص رمضان کے روزے کے علاوہ اس کی دوسری عبادات اور برکات سے محروم ہو رہا ہو اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی یہ دعا کرنی چاہئے۔ فرمایا:
’’ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ- اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ خدا کی خاطر خدا کی عبادتوں کی توفیق مانگنے کے لئے سب سے عظیم مہینہ رمضان کا مہینہ ہے‘‘۔
قبولیت دعا کا مہینہ
یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں دعا ردّ نہیں کی جاتی۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ امام عادل کی دعا ردّ نہیں کی جاتی اور دوسرے روزہ دار کی دعا ردّ نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ افطار کر لے۔ ان دعائوں کے لئے آسمانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میر ی عزت کی قسم ( اے دعا کرنے والے) میں تیری مددکروں گا خواہ کچھ وقت کے بعد ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے ۔ دعائوں کا مہینہ ہے‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’یہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی دعائوں کو سننے کے لئے خصوصی دربار قائم فرماتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا کہ ’’ و ہ ایک مہینہ رمضان کا جو گزرا ہے وہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خدا تعالیٰ ہر سال ایک مہینے کے لئے دربار لگاتا ہے او ر بادشاہوں کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ کبھی کبھی کچھ دن دربار لگانے کے لئے مخصوص کر لیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی عام طور پر رسائی نہ ہو وہ دربار میں حاضر ہو کر اپنی مناجات پیش کرتے ہیں، اپنی حاجات پیش کرتے ہیں۔ اور اس طرح ان کی اس دربار تک رسائی ایسے ہوتی ہے کہ بالعموم خالی ہاتھ نہیں لوٹتے۔ تو اللہ تعالیٰ کی بھی ایک شان ہے کہ اس نے کئی قسم کے اپنے دربار جاری فرمائے ہوئے ہیں‘‘۔
پھرفرمایا: ’’ خدا تعالیٰ کے ہاں یہ صرف ایک مہینہ ہی کا دربار نہیں۔ ایک پنجوقتہ کا روزانہ کا دربار بھی تو لگتا ہے۔ وہ لوگ جو پنجوقتہ دربار میں حاضری دینے والے ہیں ان سے رمضان کبھی برکتیں لے کر نہیں جایا کرتا، برکتیں چھوڑ کے جایا کرتا ہے۔ اسی طرح ہفت روزہ دربار بھی تو لگتا ہے‘‘۔
پس رمضان کا مہینہ دعائوں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’ یہی وہ مہینہ ہے جس میں دعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ’’قریب‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اورکب مل سکے گا‘‘۔
روزہ کیا ہے؟
روزہ کے معنی اور تعریف
ماہ رمضان کی عظمت اور اس کی اہمیت کے ذکر کے بعد اب ہم بتاتے ہیں کہ روزہ کیا ہے اور اس کے معانی کیا ہیں-
روزہ اسلامی عبادات کا دوسرا اہم رکن ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب، اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مدنظر ہوتی ہے۔ صوم (روزہ) کے لغوی معنی رکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلا ح میں طلوع فجر (صبح صادق) سے لے کر غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔
روزہ کی تکمیل کے لئے یہ تین بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کیلئے کھانے پینے اور جنسی خواہش سے رکنے کا حکم ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کیلئے بطور علامت ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا: ’’ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ہرقسم کی بیہودہ باتیں کرنے اور فحش بکنے سے رکنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ پس اے روزہ دار اگر کوئی شخص تجھے گالی دے یا غصہ دلائے تو تو اسے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔
جو شخص روزہ دار ہونے کے باوجود گالی گلوچ کرتا ہے تو اسے صرف بھوکا پیاسا رہنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کئی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان کوسوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’روزہ تو باقی گیارہ مہینوں کی بھی ضمانت دینے کے لئے آتا ہے۔ یہ باقی گیارہ مہینوں کے بھی آداب سکھا نے کے لئے آتا ہے لیکن اس مہینہ میں آداب سکھائے جائیں گے تب ہی باقی گیارہ مہینوں پراثر پڑے گا۔ اگر صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام روزہ ہے تو پھر انسان روزہ کی اکثر نیکیوں سے محروم رہ جائے گا، اکثر فوائد سے محروم رہ جائے گا‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ: ’’روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکر میں بہت مشغول رہنا چاہئے ‘‘۔
رمضان کے روزے ہر بالغ ، عاقل، صحتمند اور مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کیلئے یہ رعایت ہے کہ و ہ دوسرے ایام میں ان روزوں کو پورا کرلیں جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔ مستقل بیمار جنہیں صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور و ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے، اسی طرح ایسی مُرضعہ (دودھ پلانے والی) اور حاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہے ایسے معذور حسب توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں۔
روزہ رکھنے کی عمر
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے کی عمر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں ۔ حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ ۱۵ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے۔ ۱۵ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور ۱۸ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روز ہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے ۔ اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر رعب ڈالتے تھے تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے۔ اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آ جائے جب و ہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو ۱۵ سال کی عمرکا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ۔ پہلے سال جتنے رکھیں ، دوسرے سال اس سے زیادہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔ اس طرح بتدریج ان کو روزوں کا عادی بنایا جائے‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ عموما ًیہ دیکھا جاتا ہے کہ مائیں اپنے بچوں پر اس معاملہ میں رحم کرتی ہیں ، کہتی ہیں ان کی ابھی عمر چھوٹی ہے اسلئے روزہ نہ رکھنے دیا جائے۔ بعض دفعہ بچے زیادہ شوق دکھاتے ہیں لیکن مائیں ان کو زبردستی روکتی ہیں ۔ یہ درست ہے کہ بچوں پرروزے فرض نہیں مگر بچپن سے ہی جب سے بچے نمازیں شروع کرتے ہیں اگر ان کو روزہ کے آداب نہ بتائے جائیں ، ان کو روزہ کے نمونے نہ دکھائے جائیں یعنی ان کو روزہ رکھنے کی تھوڑ ی تھوڑی عادت نہ ڈالی جائے تو جب و ہ بالغ ہوتے ہیں ان کے اندر روزہ کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں تو یاد ہے قادیان کے زمانہ میں جب خدا کے فضل سے روزہ کا معیار بہت بلند تھا اورسوائے مجبوری کے کوئی احمدی روزہ نہیں چھوڑتا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کا اثر تھا اس لئے اس زمانہ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ احمدی روزہ میں کمزور ہے۔ اس وقت طریق یہی تھا کہ بچپن ہی سے مائیں گھروں میں تربیت دیتی تھیں۔ اور دس سال کی عمر سے بچے روز ہ رکھنا شروع کر دیتے تھے‘‘ ۔ ’’ روزہ کے معاملے میں بلوغت سے متعلق فقہاء میں کچھ اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ بچوں کی نشوونما کے پیش نظر بعض فقہاء نسبتاً سہولت دے رہے ہیں۔ا سلئے اس معاملہ میں بھی غیر معمولی سختی نہیں کی جاتی تھی۔ بلکہ حوصلہ افزائی کے طور پر کوشش کی جاتی تھی کہ جو بچے بالغ ہو چکے ہیں یعنی ۱۳، ۱۴ سال کی عمر میںداخل ہو چکے ہیں کوشش کی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں ۔ ایسے بچے جب پختہ عمر کو پہنچتے تھے یعنی ۱۸، ۱۹ سال کی عمرمیں قدم رکھتے تھے تو پھر تو وہ لازماً رمضان کے پورے کے پورے روزے رکھاکرتے تھے ‘‘۔
بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھیں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اسے اور دنوں میں یہ تعداد پوری کرنی ہوگی۔ اور ان لوگوں پر جو اس یعنی روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے۔
نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم میں سختی کے ساتھ نہیں۔ اور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔ اور بہت سی باتیں ہیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے۔ پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دو تو چھوڑ دو ۔ جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو۔ پس فرمایا ’’ مَن کانَ منکُم مرَیضاً‘‘ جو بیمار ہو ’’اَو علَی سَفَرٍ‘‘ یا سفر پر ہو ’’ فَعدۃٌ من ایاّم اُخر‘‘ تو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا۔ ’’ یُریدُاللہ بکُمُ الیُسر ولا یُریدُ بکُمُ العُسر‘‘ اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ سختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا ۔ اپنی جان کو مصیبت میںڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے۔ اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا …… پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔جو اللہ چاہے، جس حد تک سختی ڈالے،اسی کو قبول کریں۔ اس سے آگے بڑھ کر زبردستی آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے۔‘‘
سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھیوں کا ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جا رہا تھا۔ حضور ؐ نے سبب پوچھا توعرض کی گئی کہ روزہ دار کو سایہ کیا جا رہاہے۔ رسول اللہ ؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ’’لیس من البِرّ الصوم فی السفر‘‘ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس پر پانی پھینکا جا رہا تھا۔ حضور ؐ نے صحابہ ؓ سے ازراہ شفقت پوچھا تمہارے ساتھی کو کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ روزہ دار ہے۔ آنحضور ؐ نے فرمایا یہ نیکی تو نہیں کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے جو اس نے تم کو عطاکی ہے۔ پس اس رخصت کو قبول کرو‘‘۔
آنحضرت ﷺ خود مسافر کا روزہ کھلوادیا کرتے تھے ۔ عمر و ؓ بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ؐ کی خدمت میں ایک سفر سے حاضر ہوا۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ابو امیہ ؓ کھانے کا انتظار کرو‘‘۔ میں نے کہا حضور ؐ میں تو روزے سے ہوں۔ آپؐ نے ازراہ محبت فرمایا’’ادھر میرے قریب آئو میں تمہیں بتائوں کہ مسافر کو اللہ تعالیٰ نے روزہ سے رخصت دی ہے اور آدھی نماز بھی اسے معاف کی ہے‘‘۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ رمضان میں سفر میں روزہ رکھنے والا (خدا کے حکم کی نافرمانی کے لحاظ سے) اس شخص کی طرح ہے جو گھر میں رہ کر (بلاعذر) روزہ نہیں رکھتا ۔
محمد بن کعب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت انس ؓ بن مالک خادم رسول ؐ کے پاس رمضان کے مہینہ میں آیا ۔ آپؓ سفر پر جانے والے تھے ۔ سواری تیار کی گئی۔ آپ نے کھانا منگوا کر تناول فرمایا۔ میں نے پوچھا کیا یہ سنّت رسول ؐ ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ یہ سنّت ہے اور پھر آپؓ سفرپر تشریف لے گئے۔
مشہور تابعی ابو قلابہ بزرگ عالم تھے ۔ ایک سفر میں آپ کے ساتھ کوئی شخص تھا جب کھانے کا وقت آیا تو اس نے کہا میں روزہ سے ہوں۔ ابوقلابہ نے کہا ’’ اللہ نے مسافر کو آدھی نماز معاف کی اور سفر کے روزہ سے رخصت دی ہے اس لئے تم میرے ساتھ کھانا کھا لو اور روزہ کھول دو ۔ چنانچہ وہ شخص آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوا‘‘۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ بیان کیا مجھ سے عبداللہ سنوری ؓ نے اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا۔ اور دن کا زیادہ حصہ گزر چکا تھا۔ بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔ حضرت صاحب نے اسے فرمایا ’آپ روزہ کھول دیں‘۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا۔ حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کوراضی کرنا چاہتے ہیں؟۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمایا کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہئے ۔ اس پر اس نے روزہ کھول دیا‘‘۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کیلئے مسجد تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’ سفر میں تو روزہ ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رخصت پرعمل کرناچاہئے ۔ چنانچہ ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوا دئے‘‘۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ ماہ رمضان میں ایک دوست قادیان تشریف لائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اندر سے شربت منگوایا تو اس دوست نے عرض کیا کہ روزہ رکھاہوا ہے۔ حضور نے روزہ کھلوادیا او ر دو خادموں کو حکم دیا کہ مسجد اقصیٰ کے کنویں پر لے جاکر انہیں نہلائیں اور سر پرپانی کے کم ازکم ایک سو بوکے ڈالیں۔ چنانچہ حضور ؑ کے ارشاد کی تعمیل کی گئی۔ وہ دوست بتاتے تھے کہ جب ان کے سرپر پانی گرایا جا رہا تھا تو انہیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے جسم سے آگ نکل رہی ہے۔ اگلے روز خبر آئی کہ دو مسافر شدید گرمی اور پیاس کے باعث روزہ کی حالت میں جاں بحق ہوگئے لیکن انہوں نے روزہ کھولنا گوارا نہ کیا‘‘۔
ایک اور موقع پر حضوراقدس ؑ نے فرمایا: ’’اگر ریل کا سفر ہو ، کوئی تکلیف کسی قسم کی نہ ہو تو رکھ لے ورنہ خدا تعالیٰ کی رخصت سے فائدہ اٹھائے‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اورمسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزہ رکھے ۔ خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے اور اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی شخص نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مر ض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اوراس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’بعض بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں انسان اپنے سارے کام کرتا پھرتا ہے۔ ایسا شخص بیمار نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح اس شخص کا سفر بھی جو ملازم ہونے کی وجہ سے سفر کرتا ہے، سفر نہیں گنا جاسکتا۔ اس کا سفر تو ملازمت کا حصہ ہے۔ اسی طرح بعض بیماریاں ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کرتا رہتا ہے۔ فوجیوں میں بھی ایسے ہوتے ہیں جو ان بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر و ہ سارے کام کرتے رہتے ہیں۔ چند دن پیچش ہوجاتی ہے مگر اس وجہ سے وہ ہمیشہ کے لئے کام کرنا چھوڑ نہیں دیتے۔ پس اگر دوسرے کاموں کے لئے وقت نکل آتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسا مریض روزے نہ رکھ سکے۔ اس قسم کے بہانے محض اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل روزہ رکھنے کے خلاف ہوتے ہیں۔ بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اوراسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیں۔ اورہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو مگر اس بہانہ سے فائدہ اٹھا کر جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن ان کوپورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ گنہگار ہے جو بلاعذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ جتنے روزے اس نے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے‘‘۔
دائمی مریض اور مسافر
دائمی مریض اور مسافر کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:
’’جن بیماروں اور مسافروں کو امید نہیں کہ کبھی پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے ۔ مثلاً ایک بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اورسال پھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے ۔ اور فدیہ دیں۔ فدیہ صرف شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے، باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے۔ عوام کے واسطے جو صحت پاکر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کاخیال کرنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جائے گی‘‘۔
روزہ رکھ کر سفر شروع کرنا
حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جو سفر سحری کے بعد شروع ہو کرشام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔ سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے۔ مگر روزوں میں سفر کرنے سے نہیں روکتی۔پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں- روزہ میں سفرہے، سفر میں روزہ نہیں‘‘
سفر میں روزے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں:
(۱)… اگر سفر جاری ہو یعنی پیدل یا سواری پر اور چلتا جا رہاہو تو روزہ نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں روزہ چھوڑنا ضروری ہے۔
(۲)… اگر سفر کے دوران کسی جگہ رات کو ٹھہرنا ہے اور سہولت میسر ہے تو روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے جبکہ دن بھر وہاں قیام ہے۔
(۳)… سحری کھانے کے بعد گھرسے سفر شروع ہو اور افطاری سے پہلے پہلے سفر ختم ہو جائے یعنی گھر واپس آ جانے کا ظن غالب ہو توروزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے۔
(۴)… اگر دوران سفر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنا ہے تو وہاں سحری کا انتظام کیا جائے اور روزہ رکھا جائے۔
سفر کی حد کیا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقّتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے ۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پرعمل کرے۔ ’’اِنّماالاَعمال ُ بالنّیات‘‘ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقّت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے ۔ اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتاہے ویسا ہی اسکی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے‘‘۔
حضور علیہ السلام نے حضرت پیر سراج الحق صاحب ؓ کے نام ایک خط میں فرمایا: ’’َمن کان منکم مریضاً اَو علیٰ سفرٍ فَعدۃٌ مِن ایّام اُخَر۔ اگر تم مریض ہو یا کسی سفر قلیل یا کثیر پرہو تو اسی قدر روزے اور دنوں میں رکھ لو۔ سو اللہ تعالیٰ نے سفر کی کوئی حد مقرر نہیں کی اور نہ احادیث نبوی میں حد پائی جاتی ہے۔ بلکہ محاورہ عام میں جس قدر مسافت کا نام سفر رکھتے ہیں وہی سفر ہے ۔ ایک منزل (سے) جو کم حرکت ہو ا س کو سفر نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
مزدور اور روزہ
اگر کوئی مزدور روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کرے تو کیا وہ اس عذر کی بناء پر روزہ ترک کر سکتا ہے؟
روزہ رکھنے سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے اس عذر کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی احادیث میں اس کی تصریح آئی ہے حالانکہ مزدور اس وقت بھی تھے۔ ہاں اگر کمزوری ہے اور روزہ ناقابل برداشت ہے تو یہ بیماری کے حکم میں ہے اور بیمار پر روزہ فرض نہیں ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب یہ سوال پیش کیا گیا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت ہوتی ہے مثلاً تخمریزی کرنا یا فصل کاٹنا وغیرہ۔ اسی طرح وہ مزدور جن کا گزارہ محض مزدوری پر ہے ان سب سے روزہ نہیں رکھا جاتا ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :’’اِنّماالاَعمال ُ بالنّیات یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں ۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدور رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب یُسر ہو رکھ لے‘‘۔
حائضہ، مرضعہ اور حاملہ
حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑ تی تھیں توہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔ نفاس والی عورت کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن جب بعد میں یہ عذر دور ہو جائیں یعنی حائضہ حیض سے پاک ہو جائے اور نفاس کے دن ختم ہوجائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء واجب ہوگی۔
مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے۔ یعنی یہ دونوں اپنے عذر کے ختم ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے پورے کر لیں۔ اگر طاقت ہو تو فدیہ بھی دینا چاہئے جو اس بات کا کفّارہ ہوگا کہ رمضان کی برکتوں والے مہینے میں وہ روزہ کی عبادت بجا لانے سے محروم رہی ہیں۔ اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں تو روزے کافی ہیں۔
اگر کسی عورت کو ایسی حالت پیش آتی رہتی ہے کہ ایک وقت میں مُرضعہ ہے اور دوسرے وقت میں حاملہ تو اس سے روزہ معاف ہے اور صرف فدیہ کافی ہے۔ اسی طرح شیخ فانی اور دائم المریض کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ جس کے لئے آئندہ روزہ رکھنے کا امکان صحت کے لحاظ سے کوئی نہیں تو صرف فدیہ ہی ادا کر دے۔
طالب علم اور روزہ
اسی طرح جو طالب علم امتحان کی تیاری میں مصروف ہے اس کیلئے روزہ رکھنے کے بارہ میں یہ ہدایت ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے روزمرہ کی مصروفیات کو ترک کرنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا۔اسلئے روز مرہ کے کام کی وجہ سے اگر ایک انسان کے لئے روزہ ناقابل برداشت ہے تو وہ مریض کے حکم میں ہے لیکن اس بارہ میں وہ اپنے اقدام کا خود ذمہ دار ہوگا اور اس سے اُسکی نیت اور حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ سلوک کرے گا گویا اپنے حالات کے بارہ میں فیصلہ دینے میں انسان آپ مفتی ہے۔
جو شخص روزہ رکھنے سے بیمار ہو جاتا ہے خواہ وہ پہلے بیمار نہ ہو اسکے لئے روزہ معاف ہے۔ اگر اس کی حالت ہمیشہ ایسی رہتی ہو تو کبھی اس پر روزہ واجب نہ ہوگا ۔ اور اگر کسی موسم میں ایسی حالت ہو تو دوسرے وقت میں رکھ لے۔ ہاں تقویٰ سے کام لے کر خود سوچ لے کہ صرف عذر نہ ہو بلکہ حقیقی بیمار ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو دوسری امّتوں کی طرح اس امّت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں ۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میںمجھے محروم نہ رکھ تو خدا تعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگرانسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیّت پر ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کرے۔ جو شخص روزہ سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اورروزہ رکھتا اوراس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کیلئے روزہ رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا‘‘۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دوسرا حصہ)
جن امور سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
عمداً یعنی جان بوجھ کر کھانے پینے اور جماع یعنی جنسی تعلق قائم کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ ٹیکہ لگوانے اور جان بوجھ کر قے کرنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یعنی بے اختیار قے آ جائے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں لیکن جو روزہ دار جان بوجھ کر قے کرتاہے تو وہ روزہ قضاء کرے۔
جان بوجھ کر روزہ تو ڑ دینا
اللہ تعالیٰ کے محارم اور شعائراللہ کی تعظیم اور حفاظت لازم ہے۔ روزہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بیمار، معذور اور مسافر کو رخصت دی ہے اس کے بعد بھی وہ شخص جو بغیر کسی ایسے عذر کے جس میں شریعت نے روزہ توڑ نے کی اجازت دی ہو جان بوجھ کر روزہ توڑے تو سخت گنہگار اور سزا کا مستحق ہے۔ ایسے شخص پر اس روزہ کی قضاء کے علاوہ بغرض توبہ کفارہ واجب ہوگا۔ یعنی اسے متواتر ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے یا ساٹھ مسکینوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھلانا پڑے گا۔
توبہ کے سلسلہ میں اصل چیز حقیقی ندامت ہے جو دل کی گہرائیوں میں پیدا ہوتی ہے اگر یہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہو جائے لیکن اس کو ساٹھ روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوںکو کھانا کھلانے کی استطاعت نہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کے فضل پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اس صورت میں استغفار ہی اس کیلئے کافی ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ ؐ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے خدا کے رسول میں ہلاک ہو گیا۔ آپؐ نے پوچھا تجھے کیا ہوا ۔ اس نے کہا روزہ کی حالت میں میں نے اپنی بیوی سے جماع کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کیا تم کوایک غلام آزاد کرنے کی طاقت ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا ،کیا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ پھرآپؐ نے پوچھا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر بیٹھے رہو۔ اس دوران ایک شخص گدھے کو ہانکتاہوا آیا جس کے اوپر کھجوریں لدی ہوئی تھیں ۔ وہ کھجوروں کی ٹوکری حضور ؐ کے پاس لایا ۔ آنحضورؐ نے پوچھا وہ سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے عرض کی حضور میں حاضرہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا یہ کھجوریں لو اور صدقہ کر دو ۔ اس شخص نے کہا حضور کیا اس پر صدقہ کروں جو مجھ سے زیادہ غریب اورمحتاج ہو؟ خدا کی قسم ان دونوں پہاڑوں کے درمیان اس شہرمیں ہم سے زیادہ غریب کوئی گھر نہ ہوگا۔ اور ہم سب بھو کے ہیں اور ہمارے گھر کچھ بھی نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا یہ کھجوریں لے جائو اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔
پس جو شخص جان بوجھ کر روزہ توڑ بیٹھے لیکن پھرخلوص نیت سے نادم ہو اور سچی توبہ کرے مگر وہ کفارہ ادا نہ کرسکے تو وہ معذور سمجھا جائے گا اور دعا، ذکرالٰہی اور توبہ استغفار ہی اس کیلئے کفارہ ہو سکتے ہیں۔
کفارہ صرف فرض روزہ بغیر کسی حقیقی عذرکے جان بوجھ کر توڑنے کا ہے۔ جبکہ نفلی، قضائی یا نذری روزوں کو توڑنے کے بدلہ میں ایک روز ہ رکھنا چاہئے۔
جن امور سے روزہ نہیں ٹوٹتا
اگر انسان کوئی چیز جان بوجھ کر کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اگر بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ علی حالہٖ باقی رہے گا۔ اور کسی قسم کا نقص اس کے روزہ میں واقع نہیں ہوگا۔ اس بارہ میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے: اگرکوئی شخص بھول کر روزہ میں کھا پی لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کھلا پلا رہا ہے۔
ایک دوسری روایت میں اس حدیث کے ساتھ ’’ ولا قضاء علیہ ولا کفارۃ‘‘ کے الفاظ اضافہ کے ساتھ آئے ہیں یعنی ایسے شخص پر جس نے بھول کر کچھ کھا پی لیا ہو نہ روزہ کی قضاء ہے اور نہ کوئی کفارہ ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص غلطی سے روزہ توڑ بیٹھے مثلاً روزہ یاد تھا لیکن یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ سورج ڈوب گیا ہے یا یہ کہ افطار کاوقت ہو چکا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ابھی تو سورج غروب نہیں ہوا اور نہ ہی افطار کا وقت ہوا ہے تو ایسی صورت میں اس کا روزہ مکمل نہیں ہوگا اور اس کی قضاء ضروری ہوگی لیکن اس غلطی کی وجہ سے نہ وہ گنہگارہے اور نہ اس پر کوئی کفارہ ہے۔
حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں رمضان میں ایک دن بادل وغیرہ کے باعث ہم نے (افطاری کا وقت سمجھ کر ) روزہ افطار کر لیا لیکن اس کے بعد سورج نکل آیا ۔ راوی ھشام تابعی سے پوچھا گیا کہ کیا پھر ان کو وہ روزہ قضاء کرنے کا حکم دیا گیا تو ہشام نے جواب دیا کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی تھا؟۔
حضرت ابن عباس ؓ روزہ دار کو یہ رعایت بھی دیتے ہیں کہ اگر ہنڈیا کا ذائقہ نمک مرچ وغیرہ چکھ کر تھوک دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اگر کُلّی کرتے وقت بلا اختیار چند قطرے پانی حلق سے نیچے اتر جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح کان میں دو ا ڈالنے، بے اختیار قے آنے، آنکھ میں دوا ڈالنے ، نکسیر پھوٹنے ، دانت سے خون جاری ہونے ، مسواک یا برش کرنے،خوشبو سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح دن کے وقت سوتے میں احتلام ہو جانے کی وجہ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
سرمہ لگانے سے متعلق ہدایت یہ ہے کہ عورت دن کے وقت سرمہ لگا سکتی ہے ۔ مرد کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ بحالت روزہ دن کو سرمہ نہ لگائے البتہ رات کو لگا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دن کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے رات کو لگائے‘‘۔
جنابت کی حالت میں اگر نہانا مشکل ہو تو نہائے یغیر کھانا کھا کر روزہ کی نیت کر سکتا ہے اور روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال غیر پسندیدہ ہے البتہ سادہ برش کرنا اور کلی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح بیرونی اعضاء پر ٹنکچر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی روز ہ دار کسی حادثہ میں مریض کو خون دے تو اس کے خون دینے سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن چونکہ ایسا کرنے سے کمزوری ہو جاتی ہے اس لئے روزہ کھول دینا چاہئے۔ خون دینا چونکہ انسانی جان کی حفاظت کے لئے بعض اوقات ضروری ہے اور روزہ تو بعد میں بھی رکھنے کی اجازت ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ رعایت دی ہے اس لئے روزہ ایسی مجبوری کی صورت میں خون دینے کے لئے روک نہیں بننا چاہئے۔
روزہ کیلئے نیت ضروری ہے
جس شخص کا روز ہ رکھنے کا ارادہ ہو اُسے روزہ رکھنے کی نیت ضرور کرنی چاہئے ۔ آنحضرت ﷺ ؐ نے فرمایا کہ جو فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا کوئی روزہ نہیں۔
اسلام نے اعمال کی بنیاد نیتوں پر رکھی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا

’’ الاعمال بالنیات‘‘

کہ اعمال کاانحصار انسان کی نیت اورارادہ پر ہے اس لئے اسلامی عبادات کے شروع کرنے کے لئے بھی اخلاص ، نیت اور نیک ارادہ شرط ہے۔یہی بات روزہ کے بارہ میں فرمائی ہے کہ اس کیلئے نیت کرنی چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ انسان رات کو روز ہ رکھنے کا ارادہ کرے اورنیت کرکے سوئے۔
روز ہ کی نیت کرنے کیلئے کوئی معین الفاظ زبان سے ادا کرنے ضروری نہیں۔ نیت دراصل دل کے اس ارادے کا نام ہے کہ وہ کس لئے کھانا پینا چھوڑ رہا ہے۔ نیت طلوع فجرسے پہلے کی جانی چاہئے۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً اسے علم نہیں ہوسکا کہ آج سے رمضان شروع ہو رہا ہے یا سویارہا ، صبح بیدار ہونے پرپتہ چلا کہ آج تو روزہ ہے یا کوئی اور اسی قسم کا عذرہو تو وہ دوپہر سے پہلے پہلے اس دن کے روزہ کی نیت کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس نے طلوع فجر کے بعد سے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک بار دوپہر سے پہلے خبر ملی کہ کل رمضان کا چاند مدینہ کی کسی مضافاتی بستی میں دیکھ لیا گیا تھا ۔ اس پرحضور علیہ السلام نے فرمایا :’’جس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا وہ روزہ کی نیت کر لے اورجس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بعد میں اس روزہ کی قضاء کرے‘‘۔
نفلی روزہ میں دن کے وقت دوپہر سے پہلے پہلے (بشرطیکہ نیت کرتے وقت تک کچھ کھایا پیا نہ ہو) روزہ کی نیت کر سکتے ہیں۔ حضورﷺ بعض دفعہ گھر تشریف لاتے اور دریافت فرماتے کہ ناشتہ کیلئے کوئی چیز ہے؟ اگریہ جواب ملتا کہ کچھ نہیں توآپ فرماتے اچھا آج میں روزہ رکھ لیتاہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ میں مکان کے اندربیٹھا ہوا تھا اورمیرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اورمیں نے کچھ کھا کرروزے کی نیت کی مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو چکی تھی اب میں کیاکروں؟ حضور ؑنے فرمایا : ’’ ایسی حالت میں اس کا روزہ ہوگیا۔ دوبارہ رکھنے کی حاجت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اورنیت میں فرق نہیں‘‘۔
آدابِ سحری
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے مسلمانو ! سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔
یہودیوں کے روزہ میں سحری نہیں تھی لیکن مسلمانوں کو سحری کاحکم ہوا۔ اس کا ذکر آنحضرت ﷺ یوں فرماتے ہیں کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں ایک فرق سحری کھانا بھی ہے۔
سحری کاوقت آدھی رات کے بعد سے فجر کے طلوع ہونے تک ہے لیکن آدھی رات کو اٹھ کر سحری کھا لینا مسنون نہیں۔ اصل برکت اتباع سنّت میں ہے اورسنّت یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑاپہلے انسان کھا پی لے ۔ صحابہ کرامؓ بیان کرتے ہیں کہ سحری کھانے کے بعد ہم نماز کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سحری کھانے کے ذریعہ دن کے روزہ ( کی مشقت) اور رات کی عبادت (میں جاگنے) کے مقابل پر قیلولہ کے ساتھ مدد چاہو۔
نیز فرمایا : ’’ سحری کیا کروخواہ ایک گھونٹ پانی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
پس سحری کھانا ضروری ہے اور اسکے بغیر روزہ رکھنے میں برکت نہیں لیکن اگر انسان کی اس وقت آنکھ کھلے جب فجر طلوع ہو چکی ہو اور سحری کھانے کا وقت نہ رہا ہو تو بغیر سحری کھانے کے روزہ رکھ لینا جائز ہے۔ لیکن بطور عادت کے ایسا کرنا پسندیدہ نہیں۔
آنحضرت ﷺ کی سحری
رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سحری کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اے انس میں نے روزہ رکھنا ہے مجھے کھانے کی کوئی چیز لا دو‘‘ ۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی لے آیا۔ اور اس وقت حضرت بلالؓ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ حضور نے فرمایا ’’ انس دیکھو (مسجد میں) کوئی اورآدمی ہے جو میرے ساتھ سحری میں شامل ہو‘‘ حضرت انسؓ نے زید بن ثابتؓ کو بلایا تو انہوں نے کہا’’ میں تو ستّو پی کر روزہ رکھ چکا ہوں‘‘۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ہم نے بھی روزہ ہی رکھنا ہے‘‘۔ چنانچہ زید بن ثابتؓ نے حضور ؐ کے ساتھ سحری کھائی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سحری میں کسی قسم کے تکلفات نہیں فرماتے تھے ۔ جو میسر ہوتاتھا اس سے روزہ رکھ لیتے تھے بلکہ آنحضورؐ نے فرمایا کھجور مومن کیلئے کتنی اچھی سحری ہے۔
آنحضرت ﷺ نے رمضان میں مسلمانوں کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان حضرت بلال ؓ فجرکے طلوع ہونے سے پہلے دیتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اب سحری کا آخری وقت ہے جو شخص نماز تہجد ادا کر رہا ہے یا جو سویا ہوا ہے وہ بھی اٹھ کر سحری کھالے اوردوسری اذان حضرت ابن مکتومؓ اس وقت دیا کرتے تھے جب فجر طلوع ہو جاتی تھی اوراس کا مقصد سحری کے وقت کے ختم ہو جانے کا اعلان ہوتاتھا ۔ لیکن اس میں گنجائش بھی رکھ دی کہ جب تک پوری طرح فجر نہ ہو جائے تو کھا پی سکتے ہیں خواہ اذان ہو رہی ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ برتن رکھ نہ دے یہانتک کہ حسب ضرورت اس سے کھالے‘‘۔
افطاری کے آداب
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب دن چلا جائے اور رات آ جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ افطار کر لو۔ اسی طرح ایک موقع پر فرمایا:’’دین اسلام اس وقت تک مضبوط رہے گا جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے۔ کیونکہ یہودی اور عیسائی روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتے تھے ‘‘۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: ’ ’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے سب سے پیارے بندے وہ ہیں جو (افطاری کے وقت ) سب سے جلدی افطار کرتے ہیں‘‘۔
حضرت ابی اوفیؓآنحضرت ﷺ کے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھا ۔ غروب آفتاب کے بعد حضور ؐ نے ایک شخص کو افطاری لانے کا ارشاد فرمایا۔ اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ افطاری لائو۔ اس شخص نے پھر عرض کی کہ حضور ابھی توروشنی ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا افطاری لائو ۔ وہ شخص افطاری لایا۔ آپ ؐ نے روز ہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتے دیکھو تو افطار کر لیاکرو۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد دو تابعی حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے اور پوچھا اے امّ المومنین! حضور ؐ کے صحابہ میں سے دوصحابی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی نیکی او ر خیر کے حصول میں کوتاہی کرنے والا نہیں۔ لیکن ان میں سے ایک تو افطاری میں جلدی کرتے ہیں اور نماز بھی جلدی پڑھتے ہیں (یعنی اول وقت میں)۔ اور دوسرے افطاری اور نماز دونوں میں تاخیر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا ان میں کون جلدی کرتاہے۔ بتایا گیا کہ عبداللہ بن مسعود- ؓتو حضرت عائشہؓ نے فرمایا آنحضرت ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے ۔
روزہ کی افطاری کا وقت نہایت بابرکت گھڑی ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے افطاری کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزہ کی وجہ سے خدا سے اس کا لقاء ہوگا۔
آنحضرت ﷺ نے افطاری کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ ہر افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو (آگ سے) آزاد اور بری فرماتا ہے اور یہ عمل روزانہ شام کو ہوتا ہے‘‘۔ پس افطاری کے وقت کے نہایت بابرکت لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ قبولیت دعا کے اس وقت میں دعائیں کرنی چاہئیں۔ آنحضرت ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا کیاکرتے تھے : اللھمَ اِنی لکَ صُمتُ و علیٰ رِزقکَ افطَرتُ- اے اللہ میں نے تیری خاطر ہی روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے میں نے افطار کیا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی افطاری
آنحضرت ﷺ روزہ افطار کرنے میں بھی کوئی تکلّف نہیں فرماتے تھے ۔ حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نماز مغرب سے قبل تازہ کھجور کے چند دانوں سے روزہ افطار فرماتے تھے ۔ اگر تازہ کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کھا کر ہی روزہ کھول لیتے اوراگر خشک کھجور بھی نہ ملتی تو پانی کے چند چلّو بھر کر افطاری کر لیتے ۔
آنحضرت ﷺ نے اپنی امّت کو بھی ایسی سادہ افطاری کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی افطاری کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ یہ بہت خیر و برکت رکھتی ہے اوراگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھولے جو طہارت مجسم ہے‘‘۔
حضرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ سے ایک غریب عورت نے سوال کیا ۔ اس دن آپ ؓ روزہ سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک روٹی کے اور کچھ نہ تھا۔ آپ ؓ نے خادمہ سے کہا کہ وہ روٹی اس غریب عورت کو دے دے۔ خادمہ کہنے لگی کہ آپ کے لئے اور کوئی چیز موجود نہیں آپ خود کس سے روزہ افطار کریں گی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس خادمہ سے کہا کہ تم روٹی اس غریب عورت کو دے دو ۔ خادمہ کہتی ہے کہ میں نے وہ روٹی اس غریب عورت کو دے دی۔ جب شام ہوئی تو آپ کے پاس کسی عزیز نے یا کسی اور شخص نے بکری کا کچھ گوشت اوراس کا بازو بطور تحفہ بھیج دیا۔ آپ نے اس خادمہ کو بلا کر فرمایا لو کھائو یہ تمہاری روٹی سے کہیں بہتر ہے۔
روزہ افطار کروانے کا ثواب
آنحضورﷺ نے فرمایا:جو روزہ افطار کرائے اسے روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا لیکن اس سے روزے دار کے ثواب میں کمی نہیں آئیگی۔
سحری اور افطار ی میں اعتدال کو پیش نظر رکھیں
عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سحری اور افطاری کے وقت کھانے کے اہتمام میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کا یہ اہتمام رمضان اور روزوں کے مقاصد سے متصادم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس پہلو سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ … بھوکے رہتے ہو تو سارا دن یہ سوچ کر نہ گزارنا کہ جب روزہ ختم ہوگا تو پھر یہ یہ نعمتیں کھائیں گے۔ اتنا زیادہ کھائوں گا کہ سارے روزے کی کسر مٹادوں گا۔ بلکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ’’ صوموا تصحوا‘‘ روز ے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو اور صحت اچھی تبھی ہو سکتی ہے کہ اگرآپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایاکرتے تھے بڑی سخت بے وقوفی تھی۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے۔ درحقیقت اس سے بہت کم پرہمارا گزارا ہو سکتا ہے جوہم پہلے کھایا کرتے تھے تو اپنی خوراک بچائو اوراس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو۔‘‘
اپنی افطار یوں میں غرباء کو بھی شامل کریں
بعض لوگ افطار پارٹیاں کرتے ہیں تو ان میں بھی اسراف سے کام لیاجاتا ہے اور افطاری کے نام پر ایسی مجالس لگائی جاتی ہیں جو رمضان اور روزوں کی غرض و غایت کے منافی ہوتی ہیں۔ پھربعض لوگ افطار یاں صرف امراء کو ہی بھجواتے ہیں ا ور غرباء کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے اس سلسلہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔ ’’ افطاریاں اپنے سے امیرو ں کو یا اپنے ہم پلّہ امیروں کو بھیجنے کی بجائے ڈھونڈیں کہ نسبتاً کون مسکین لوگ ہیں خدا کے۔ اور یہ مسکینی جو ہے یہ ایک نسبتی چیز ہے ضروری نہیں کہ ایسا غریب ہو کہ اس کو صدقہ ہی دیا جائے ۔ حالات الگ الگ ہیں بعضوں کو کم ملتا ہے ، بعضوں کو زیادہ ملتا ہے۔ تو وہ لوگ جو خدا کی خاطر کسی کو خوش کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ ڈھونڈیں ایسے لوگ جن کا کھانے پینے کا معیار روزمرہ کا اتنا اونچا نہیں جتنا ان کا ہے۔ اور اگر وہ ان کو بھیج دیں تو اس آیت کے مضمون کے مطابق وہ اپنے جیسے دولت مند وں میں دولت کے چکر لگانے کے مترادف نہیں رہے گا۔پس افطاریوں میں بھی بہتر یہی ہو کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، ارد گرد جگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف جو آپ کے دکھائی دیتے ہیں ان کو بھیجیں مگر صدقے کے رنگ میں نہیں۔ کیونکہ افطاری کا جو تعلق ہے وہ صدقے سے نہیں ہے۔ افطاری کا تعلق محبت بڑھانے سے ہے اوررمضان کے مہینے میں اگر آپ کچھ کھانا بنا کے بھیجتے ہیں تو طبعی طور پر محبت بھی بڑھتی ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگرآپ اس عزت اور احترام سے چیز دیں کسی غریب کو یا ایسے شخص کو جو نسبتاً غریب ہے کہ اس میں محبت کا پہلو غالب ہو اور صدقے کا کوئی دور کا عنصر بھی شامل نہ ہو تویہ وہ افطاری ہے جو آپ کیلئے باعث ثواب بنے گی اور آپ کے حالات بھی سدھارے گی۔…‘‘
افطاری کی دعوتوں سے متعلق ایک اہم ہدایت
حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آجکل کی افطار پارٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’افطاری کی دعوتوں کے متعلق میں کچھ عرض کرنا چاہتاہوں کہ … جب آپ افطاری کی دعوتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ بالکل برعکس نتیجہ ظاہر ہوتاہے ۔ بجائے اس کے کہ روزہ کھول کے انسان ذکر الٰہی میں مصروف ہو قرآن کریم کی تلاوت کرے جو تراویح پڑھتے ہیں وہ تراویح کے لئے تیار ہو کر جائیں اس کی بجائے مجلسیںلگ جاتی ہیں جو بعض دفعہ اتنی لمبی چل جاتی ہیں کہ عبادتیں بھی ضائع ہونے لگتی ہیں اور اگراس دن کی عشاء کی نماز پڑھ بھی لیں وقت کے اوپر تو دوسرے دن تہجد کی نماز پر اثر پڑ جائے گا۔ … رمضان کے مہینے میں یہ مشاغل کرنا اس قسم کے یہ میرے نزدیک رمضان کے مقاصد سے متصادم ہے۔ اس سے ٹکرانے والی بات ہے۔ تو جو افطاریاں ہو چکیں پہلے ہفتے میں ہو گئیں آئندہ سے توبہ کریں اورمجالس نہ لگائیں گھروں میں۔ مجالس وہی ہیں جو ذکر الٰہی کی مجلسیں ہیں اور افطاری کی مجلسوں کو میں نے کبھی ذکر الٰہی کی مجلسوں میں تبدیل ہوتے نہیں دیکھا۔ پھر وہ سجاوٹ کی مجلسیں بن جاتی ہیں، اچھے کپڑے پہن کر عورتیں ، بچے جاتے ہیں۔ وہاں خوب گپیں لگائی جاتی ہیں، کھانے کی تعریفیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے دن اپنے تہجد کو ضائع کردیتے ہیں اور پھر بے ضرورت باتیں بہت ہوتی ہیں‘‘۔
سحری و افطاری کو تربیت کیلئے استعمال کریں
حضور ایدہ اللہ نے فرمایا : ’’ دیکھو رمضان میں کیسے اعلیٰ اعلیٰ مواقع آپ کو نصیب ہوتے ہیں اور کس طرح روزمرہ آپ کی اولاد کی تربیت آپ کے لئے آسان ہو جاتی ہے۔ ایک ماحول بنا ہوا ہے ، اٹھ رہے ہیں روزوں کے وقت، افطاری کے وقت اکٹھے ہو رہے ہیں اس وقت عام طو ر پرلوگ گپیں مارکے اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ … میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتاہوں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے سحری اور افطاری کو تربیت کے لئے استعمال کریں اور تربیت کے مضمون کی باتیں کیا کریں‘‘۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تیسرا حصہ)

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں