سٹیم سیل سے طب کی دنیا میں‌انقلاب – جدید تحقیق کی روشنی میں

سٹیم سیل سے طب کی دنیا میں‌انقلاب – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

جن دریافتوں نے طب کے میدان میں گزشتہ دہائی میں تہلکہ مچائے رکھا ہے ان میں‌سے ایک سٹیم سیل کی دریافت بھی ہے- یہ دراصل انسانی جسم کا بنیادی خلیہ ہے جو اسی جسم کی جینیاتی اور دیگر بہت سی بیماریوں کے علاج اور توڑپھوڑ کے بداثرات کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے- اس کے انقلابی استعمال کو اس وقت محسوس کیا گیا جب قریبا دس سال قبل برطانیہ کے دو ہسپتالوں چیسٹ ہسپتال اور ہارٹ ہسپتال میں پہلی بار دل کا دورہ پڑنے والے دو مریضوں کا علاج اُن کے اپنے ہی سٹیم سیل سے کیا گیا اور اس طرح نقصان زدہ ٹشوز کو مرمت کرنے کے لئے برطانیہ میں یہ پہلی سرجری تھی۔ ڈاکٹروں نے اُن کی بون میرو سے کولہوں کے قریب سے سٹیم سیل حاصل کئے اور پھر پانچ گھنٹے کے آپریشن کے دوران انجیوپلاسٹی کے ذریعے انجکشن کر کے اُن کے دل میں لگائے گئے۔ یہ سٹیم سیل مریضوں کے دل کی اُن شریانوں میں انجیکٹ کئے گئے جنہیں دل کا دورہ پڑنے سے نقصان پہنچا تھا۔ آپریشن میں پہلے انجیوپلاسٹی سے ایک غبارے کے ساتھ اُن مریضوں کے دل کی وہ شریانیں کھولی گئیں جو دل کا دورہ پڑنے سے بند ہوگئی تھیں۔ یہ عمل کامیاب رہا اور بالکل محفوظ ہے۔

1975ء میں نوبل انعام حاصل کرنے والے امریکی ماہر حیاتیات اور امریکن ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقی کے صدر پروفیسر ڈیوڈ بالٹیمور نے بوسٹن میں اپنی تنظیم کے سالانہ اجلاس میں کہا تھا کہ بیس سالہ تحقیق کے باوجود بھی سائنسدان ابھی تک ایڈز کے علاج کے لئے کسی ویکسین کی تیاری میں کامیاب نہیں ہوسکے اس کی وجہ یہ ہے کہ HIV ایڈز نے خود کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام سے بچنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے اور ایڈز کو شکست دینے کے لئے مدافعتی نظام یعنی فطرت سے لڑنا سائنسدانوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے- ایڈز کے وائرس سے نمٹنے کے لئے سائنسدانوں نے اینٹی باڈیز کی مدد سے بھی کوشش کردیکھی ہے اور جسم کی قوت مدافعت بڑھاکر بھی وائرس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے لیکن کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔ تاہم کچھ عرصے سے سائنسدان جین اور سٹیم سیل تھراپی جیسے نئے طریقے ایڈز کے علاج کے لئے آزما رہے ہیں جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ اس وقت جو واحد امید ایڈز پر قابو پانے کی رہ گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسانی جسم کے بنیادی خلیوں یعنی سٹیم سیلز کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے اور آجکل یہی کوشش جاری ہے۔
بعد میں امریکن سوسائٹی آف جین تھیراپی نے اپنی ایک تحقیق کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ جین تھیراپی کے ذریعے HIV اور ایڈز کا علاج ممکن ہے اور حفاظتی جین شامل کئے گئے سٹیم سیل اس بیماری کا مکمل علاج ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک 74مریضوں پر کئے گئے تجربات کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں اور کوئی بھی خطرناک سائیڈ ایفکٹس سامنے نہیں آئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ایڈز کے علاج کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم پیشرفت ہے، اور مستقبل میں جین تھیراپی کے ذریعے مختلف بیماریوں کے علاج کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔
٭ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق برطانوی ڈاکٹروں نے ایک انقلابی علاج دریافت کرلیا ہے جس کے تحت مریض کے جسم کے سٹیم سیل سے دل کے ٹشوز پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ اس تحقیق سے توقع ہے کہ دل کے ہزاروں مریض استفادہ کرسکیں گے۔ سٹیم سیل سے تیار کئے جانے والے ٹشوز سے بنائے جانے والے والوز مریض کے دل میں لگادیئے جائیں گے اور ایسے مریض میں دل کے والوز کو قبول کرنے کے امکانات سوفیصد ہوں گے کیونکہ ٹشوز اُسی کے جسم سے پیدا کئے گئے ہوں گے۔ نئی ٹیکنیک میں سٹیم سیل سے تیار کئے جانے والے والوز، بیمار دل کے اندر چھ سے آٹھ ہفتے کے اندر ٹرانسپلانٹ کئے جاسکیں گے۔
٭ دس سال قبل امریکہ میں انسانی سٹیم سیل پر تحقیق کی اجازت دیئے جانے کے بعد پہلے مرحلے میں سائنس دان ریڑ ھ کی ہڈی پر چوٹ کے باعث معذور ہوجانے والے افراد کے لئے انسانی اعصاب کو پیدا کرنے کی کوشش کی جو میڈیکل سائنس کے شعبے میں ایک نمایاں پیش رفت ہے۔ کیلیفورنیا کے جیرون کارپوریشن میں کئی برس سے ریڑھ کی ہڈی کے علاج پر تجربات ہورہے ہیں۔ اس تحقیق کے سربراہ تھامس اوکرما نے کہا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ انسانوں کے علاج کے لئے سٹیم سیل سے کام لیا جائے گا۔ ان تجرِبات کے لئے انسانی خون یا چربی کے سٹیم سیل کی بجائے ماہرین نے ایسا انسانی خُلیہ حاصل کیا جو جسم سے باہر بھی نشوونما کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے اضافی تصور کیا جاتا ہے ۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نظریاتی طور پر یہ خلیہ انسانی جسم کے کسی بھی حصے کے خلیات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے جسم کے کسی حصے کو تبدیل کرنے یا کسی بیماری یا زخم کے باعث نقصان زدہ حصوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیرون میں اس طریقے سے ماضی میں چوہوں کی ریڑھ کی ہڈی کا کامیابی سے علاج کیا جا چکا ہے۔ اور اب ایسے افراد کا علاج کیے جانے کی توقع ہے جن کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ ان افراد کی ریڑھ کی ہڈی میں اعصاب کے خصوصی خلیے اگائے جائیں گے جو دماغ اور جسم کے باقی حصوں کے درمیان قدرتی برقی پیغامات کی ترسیل کا کام کریں گے۔
٭ برطانوی اخبار ’’سنڈے ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی سائنسدانوں نے اندھے پن کا سبب بننے والی سب سے زیادہ عام وجہ کے علاج کے لئے دنیا کی پہلی سٹیم سیل تھراپی کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں صرف ایک گھنٹے دورانئے کا یہ علاج معمول کا حصہ بن جائے گا۔ اِس طریقۂ علاج میں ڈی جنریٹ ہونے والے خلیات کی تہہ کو جنین سٹیم سیل سے تیار کی جانے والی نئی تہہ میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس نئی دریافت کی سرپرستی انسٹی ٹیوٹ آف اوپتھامولوجی یونیورسٹی آف کالج لندن اور مورفیلڈز آئی ہسپتال کے سائنسدانوں اور سرجنز نے کی ہے۔ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی فارماسیوٹیکل ریسرچ کمپنی فائزر، مریضوں کے لئے اِس طریقۂ علاج سے استفادہ کرنے کے لئے مالی امداد مہیا کرے گی۔ برطانیہ میں قریباً پچاس ہزار افراد ماسکولرڈی جنریشن (یعنی اے ایم ڈی) سے متأثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں آنکھ کے خلیات ضائع ہوجاتے ہیں جبکہ نئے طریقۂ علاج کے تحت ختم ہونے والے خُلیات کو نئے تیار ہونے والے سٹیم سیلز سے تبدیل کردیا جائے گا۔
٭ سٹیم سیل ٹیکنالوجی کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ انسانی جسم کی مختلف ہڈیوں کو لیبارٹری میں تیار کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ انسانی ہڈیاں جسم کے دیگر اعضاء کی طرح انسانی خلیے کے اندر موجود DNA اور RNA کی مدد سے تیار کی جارہی ہیں۔ امپیریل کالج لندن کے پروفیسر مولیے سٹیون نے اس ضمن میں کہا ہے کہ ہماری تحقیق اب صرف ایک قدم کے فاصلے پر رہ گئی ہے اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں ہزاروں ایسے افراد کو فائدہ ہوگا جن کو ہڈیوں کے کاٹنے کی وجہ سے مسائل کا سامنے کرنا پڑتا ہے۔ نیز اِن مصنوعی ہڈیوں کو بیماری کی حامل ہڈیوں سے بھی تبدیل کیا جاسکے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں