سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر کی زینت ایک مضمون (مرتبہ: مکرم ساجد محمود بٹر صاحب) میں حضورؒ کی قبولیت دعا کے حوالہ سے کئی اعجازی نشانات بیان کئے گئے ہیں۔
ڈھاکہ میں ایک احمدی دوست اپنے کسی دوست کو تبلیغ کرتے تھے اور لٹریچر اور کیسٹس دیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اُن کو جماعت سے دلچسپی پیدا ہوگئی ۔ اس دوران اُن کی آنکھوں کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ بصارت ضائع ہوجائے گی اور اسے بچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس پر اُن کے دوستوں نے اُنہیں طعن و تشنیع شروع کردی کہ یہ احمدیوں کی کتابیں پڑھنے کی سزا ہے۔ انہوں نے اس پریشانی کا ذکر اپنے احمدی دوست سے کیا جنہوں نے حضورؒ کو دعا کے لئے لکھا۔ چند ہی دن میں اللہ کے فضل سے سارا نور واپس آگیا اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ بیماری کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔
مکرم منصور احمد صاحب آف حیدرآباد (پاکستان) کے گلے میں تکلیف ہوئی جو کئی مہینوں پر محیط ہوگئی۔ کسی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو انہوں نے حضورؒ کی خدمت میں لکھا۔ حضورؒ نے دعا کے ساتھ ایک ہومیوپیتھک دوا لکھی جو وہ پہلے بھی استعمال کرچکے تھے اور ایک شیشی میں گھر میں بھی پڑی تھی۔ حضورؒ کا خط آنے پر دوبارہ وہ استعمال کرنا شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے صحت عطا فرمادی۔
ایران کی ڈاکٹر فاطمۃالزہرا نے اپنے اکلوتے بیٹے کے بارہ میں لکھا کہ اس کی ٹانگ میں اتنی کمزوری آگئی ہے کہ لنگڑا کر چلتا ہے اور ڈاکٹر کوئی تشخیص نہیں کرپارہے۔ جس دن انہوں نے دعا کا خط لکھا، اُسی دن سے وہ لاعلاج مریض روبصحت ہونے لگا اور بالکل صحت مند ہوگیا۔
ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب انڈین فارن سروس میں رہے، کئی کتب لکھیں۔ مثانہ میں کینسر ہوا تو امریکہ میں آپریشن کروایا جو ناکام رہا اور ڈاکٹروں نے چار سے چھ ہفتے کی زندگی بتائی۔ آپ نے حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا تو جواب آیا: ’’نہایت عاجزانہ فقیرانہ دعا کی توفیق ملی اور ایک وقت اس دعا کے دوران ایسا آیا کہ میرے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مَیں رحمت باری سے امید لگائے بیٹھا ہوں کہ یہ قبولیت کا نشان تھا‘‘۔ چنانچہ اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے چار سال تک فعال علمی اور تحقیقی زندگی گزاری جسے ڈاکٹر بھی معجزہ قرار دیتے تھے۔
لائبیریا کے مسٹر ماساکوئے صاحب کا دل بڑھ گیا اور پھیپھڑوں میں پانی پڑگیا۔ ڈاکٹر نے جو علاج بتایا، اُس پر فی خوراک چھ سو ڈالر خرچ آتا تھا۔ وہ پریشانی میں امیر جماعت کو ملے جنہوں نے حضورؒ کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھا اور ہومیوپیتھی کا نسخہ بناکر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مکمل شفا عطا فرمائی۔
مکرمہ امۃالحفیظ صاحبہ (ربوہ) 1986ء میں شدید بیمار ہوگئیں۔ بہت سا علاج کروایا لیکن طبیعت بگڑتی ہی گئی۔ آخر حضورؒ کی خدمت میں بیماری کی تفصیل لکھ کر بھیجی گئی۔ وہ خدا کو گواہ بناکر بیان کرتی ہیں کہ خط لکھتے ہی بیماری میں کمی کا احساس ہونا شروع ہوا۔ دو ہفتہ بعد حضورؒ کا جواب ملا’’مَیں نے دعا بھی کی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو آرام آ جائے گا‘‘۔ یہ خط پڑھتے ہی مکمل شفایابی کا احساس ہونے لگا اور اس کے بعد آج تک ویسی تکلیف نہیں ہوئی۔
اپریل 1980ء میں حضورؒ بحیثیت صدر مجلس انصاراللہ ایک مجلس سوال و جواب کے لئے تشریف لے گئے جہاں ایک بااثر غیرازجماعت ملک نذیر حسین صاحب لنگڑیال نے دعا کی قبولیت کے بارہ میں استفسار کیا۔ حضورؒ نے دعا کے فلسفہ پر روشنی ڈالی۔ حضورؒ کو بتایا گیا کہ ملک صاحب کا بیٹا جوان ہوچکا ہے، ہائی سکول میں پڑھتا ہے مگر سخت لکنت کی وجہ سے کسی سے بات بھی نہیں کرسکتا۔ کسی علاج سے فائدہ نہیں ہوا۔ حضورؒ نے دعا کی حامی بھری اور ایک دوا بھی لکھ کر دی۔ اگرچہ ملک صاحب نے وہ دوا بازار سے منگوالی لیکن کھلانے سے پہلے ہی اُن کا بیٹا فر فر بول رہا تھا اور ساری لکنت غائب ہوچکی تھی۔
مکرم قریشی داؤد احمد ساجد صاحب مبلغ سلسلہ کی شادی کو سولہ سال ہوچکے تھے۔ کئی قسم کے علاج کروائے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 1999ء میں انگلستان تقرر ہوا تو حضورؒ سے ملاقات کے دوران دعا کی درخواست کی اور اپنے طور پر ایک ہومیوپیتھی دوا کا استعمال جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کے اٹھارہ سال بعد بیٹی عطا فرمائی۔
مکرم سیف اللہ چیمہ صاحب (نائیجیریا) اپنی بیوی کے ہمراہ حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ ایک عرصہ شادی کو گزرچکا ہے لیکن کوئی اولاد نہیں۔ حضورؒ نے بے اختیار فرمایا: ’’بشریٰ بیٹی آئندہ جب آؤ تو بیٹا لے کر آنا‘‘۔ پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے نوازا۔
غانا کے ایک چیف نانااوجیفو صاحب نے عیسائیت سے توبہ کرکے حضورؒ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ جس کا محرک یہ بات تھی کہ اُن کی بیوی کا حمل ہر بار ضائع ہوجاتا تھا۔ عیسائی پادریوں اور دوسروں سے دَم کروائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انہوں نے امیر صاحب غانا کے ذریعہ حضورؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔ حضورؒ نے جواباً لکھوایا: ’’آ پ کو بچہ نصیب ہوگا اور بہت ہی خوبصورت اور عمر پانے والا بچہ ہوگا‘‘۔ جب اُن کی بیوی کو حمل ٹھہرا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ بچہ مر جائے گا لیکن حمل ضائع نہ کروایا گیا تو بیوی کی جان کو بھی شدید خطرہ ہے۔ چیف نے حضورؒ کے خط کا حوالہ دے کر کہا کہ بچہ اور بیوی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ وہ ہر ہفتے دعا کی یادکرواتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ہی خوبصورت اور صحت مند بچہ عطا فرمایا اور اُن کی بیوی بھی بالکل ٹھیک رہیں۔
مکرم ملک نادر حسین کھوکھر صاحب کو غنڈوں نے پچاس لاکھ روپے تاوان کے بدلہ اغوا کرلیا۔ حضورؒ کی خدمت میں بار بار دعا کی یاددہانی کروائی گئی۔ آخر حضورؒ کی دعائیں مستجاب ہوئیں اور خلاف توقع نہ صرف ساتویں روز اُن کو رہائی مل گئی بلکہ وہ لوگ ایک سو معززین کا وفد لے کر معذرت کے لئے آئے اور پچاس لاکھ روپے وصول شدہ تاوان بھی واپس کرگئے۔
مکرم چیئرمین ایم۔ٹی۔اے لکھتے ہیں کہ امریکہ و کینیڈا کے لئے ڈیجیٹل سروس شروع کرتے وقت ایک کمپنی سے ریسیور تیار کرنے کا معاہدہ ہوا۔ قیمت اگرچہ زیادہ تھی لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر اچانک اُن کا معذرت کا فون آگیا ۔ اس کی اطلاع ڈرتے ڈرتے حضورؒ کو دی گئی توفرمایا: اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اے اللہ! روح القدس سے ہماری مدد فرما۔ اس واقعہ کے تیسرے دن ہی ایک اَور کمپنی نے جس کا ہمیں علم بھی نہیں تھا ازخود ریسیور بنانے کی پیشکش کی اور ان کی قیمت پہلی کمپنی سے ایک تہائی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں