سیدنا حضرت مصلح موعودؓ

٭ روزنامہ ’’الفضل‘‘ 27؍مئی 1997ء کا شمارہ خلافت نمبر ہے جس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے منتخب واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں۔ حضورؓ کے ایک خادم مکرم لطیف ننھا صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پالم پور میں حضورؓ کو مجبوراً لمبا عرصہ قیام کرنا پڑا۔ سٹاف زیادہ نہ تھا اور کام بہت زیادہ۔ مجھے بخار ہوگیا اور دو روز تک سخت بخار رہا۔ حضورؓ اپنے اس خادم کا حال دریافت فرماتے رہے اور دو بار اپنے دستِ مبارک سے دودھ بھی لے کرآئے۔
٭ آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک بارپالم پور میں ہی حضورؓ پکنک پر جا رہے تھے۔ کاروں میں جگہ کم تھی چنانچہ حضورؓ نے مجھے اور ایک دوسرے صاحب سے فرمایا ’’آپ بس پر آجائیں ہم انتظار کریں گے‘‘۔ پہلے تو ہمارا جانے کا اراد ہ نہ ہوا کیونکہ بس آنے کی امید نہیں تھی۔ پھر سوچا کہ حکم ہے اس لئے ہم پیدل ہی وہاں پہنچ گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی حضورؓ نے فرمایا کہ ہم نے انتظار کرکے ابھی کھانا شروع کیا ہے۔ ہم نے عرض کیا بس نہیں آئی، پیدل آئے ہیں۔ یہ سن کر آپؓ نے اسی وقت پیالوں میں کھانا ڈال کر اپنے ہاتھ سے ہمیں دیا۔
٭ ایک بار حضورؓ ڈلہوزی سے واپس قادیان تشریف لائے تو حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب نے عرض کی کہ کئی ماہ سے بارش نہیں ہوئی ، دعا کریں۔
حضورؓ نے فرمایا ہم آگئے ہیں اب انشاء اللہ بارش ہوگی۔
پھر حضورؓ لوگوں سے ملاقات فرمانے لگے اور اسی اثناء میں بادل امڈنا شروع ہوگئے۔ میں اور نذیر احمد صاحب ڈرائیورنے سامان موٹر سے نکال کر قصرِخلافت تک پہنچایا اور کار کو گیراج میں بند کرکے گھر جانے لگے تو بارش شروع ہوچکی تھی اور پھر اس نشان کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا ہوا دیکھ کر تیز بارش میں بھیگتے ہوئے ہم بڑی مشکل سے اپنے گھروں تک پہنچے۔
٭ مکرم مرزا فتح دین صاحب لکھتے ہیں کہ ایک سفر میں نذیر احمد صاحب ڈرائیور کھانا پیش کر رہے تھے ۔ حضورؓ نے سب شرکاء کو ایک پراٹھا اور باقی روٹیاں دیں۔ جب سب کھانا کھا چکے تو حضورؓ نے اپنے سامنے سے پراٹھا اٹھا کر نذیر صاحب کو دیتے ہوئے فرمایا ’’میں نے دو پراٹھے اٹھاکر اپنے آگے رکھ لئے تھے تاکہ خدمت کرنے والے کو بھی پراٹھا مل جائے‘‘۔
٭ صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں 1950ء میں کوئٹہ سے واپسی پر حضورؓ کا قافلہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ مکرم سید قربان حسین شاہ صاحب جب حضورؓ کے ارشاد پر پیچھے رہ جانے والے افراد کو لینے کے لئے روانہ ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا کہ جب باقی قافلہ خیریت سے پہنچ جائے تو خواہ رات کا کوئی حصہ ہو مجھے اطلاع دی جائے۔ صبح کی اذان کے وقت حضورؓ نے دریافت فرمایا تو علم ہوا کہ قافلہ رات ایک بجے پہنچ گیا تھا۔ اس پر شاہ صاحب کو بلاکر حضورؓ نے پوچھا کہ انہوں نے اطلاع کیوں نہیں دی۔ انہوں نے عرض کی کہ’’میاں مبارک احمد صاحب (جو قافلہ میں شامل تھے) اندر چلے گئے تھے تو میں نے سمجھا اطلاع ہوگئی ہے!‘‘۔
حضورؓ نے فرمایا ’’میں مبارک احمد کیلئے اتنا بے چین نہیں تھا۔ میں تو سارے قافلے کے لئے فکرمند تھا اور میں نے ساری رات پریشانی میں ٹہل کر گزاری ہے‘‘۔
٭ مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ بٹالہ میں کسی تقریب کے لئے بہت سے احمدی جمع تھے لیکن کسی وجہ سے کھانے کا انتظام نہ ہوسکا۔ حضورؓ کو اطلاع ہوئی تو حضورؓ نے فوری طور پر قادیان سے کھانا بھجوانے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا ’’احباب جماعت وہاں بھوکے اور تکلیف میں رہے تو میں رات کس طرح سو سکوں گا!‘‘۔
٭ مکرم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ دفتر کے ایک کارکن کو حضورؓ نے کسی غلطی پر تین روز کے لئے معطل کرکے نماز کے خیمہ میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنے کا ارشاد فرمایا۔ کچھ دیر بعد بارش شروع ہوئی تو خیمہ نشیب میں ہونے کی وجہ سے اس میں پانی بھرنے لگا اور سردی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ حضورؓ کے علم میں یہ بات آئی تو آپؓ کو بہت افسوس ہوا اور آپؓ نے فوراً انہیں وہاں سے بلانے، کپڑے تبدیل کرانے اور اچھے بستر اور کوئلوں کی آگ کا انتظام کرنے کا ارشاد فرمایا۔ کچھ دیر بعد حضورؓ نے خود گرم چائے اور مطالعہ کے لئے ایک رسالہ بھی بھجوادیا اور پھر تینوں روز حضورؓ کی ہدایت پر ان کے لئے کھانے کا اہتمام ہوتا رہا۔
٭ صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1957ء میں حضورؓ مری تشریف لے گئے اور کسی انتظامی نقص کی وجہ سے پرائیویٹ سیکرٹری کو معطل کرکے فوراً واپس جانے کا حکم دیا۔ کچھ دیر بعد اچانک بادل آگئے اور پھوار پڑنے لگی تو حضورؓ نے مجھے آواز دے کر بلایا اور ایک کوٹ دے کر فرمایا ’’تم کو علم ہے میں نے … کو معطل کردیا ہے اور ربوہ جانے کا حکم دیا ہے۔ اب موسم ٹھنڈا ہوگیا ہے، وہ بے چارے کہیں سردی میں نمونیہ سے بیمار نہ ہو جائیں۔ تم جاکر ان کو تلاش کرو اور یہ کوٹ بھی لے جاکر ان کو پہنادو اور ان سے کہو میں نے معاف کیا‘‘۔
مَیں بسوں کے اڈّہ پر پہنچا تو وہ صاحب بس کے منتظر تھے۔ مَیں نے اُن کو کوٹ دیا اور حضورؓ کا پیغام بھی۔ وہ حضورؓ کے شفقت کے جذبہ سے متاثر ہوکر بے اختیار دھاڑیں مار کر رونے لگے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں