شادی — ایک روحانی و فطری بندھن

(عمر ہارون)

شادی — ایک روحانی و فطری بندھن

(ہومیوپیتھک نظر سے)

انسان چاہے مرد ہو یا عورت، اپنی زندگی کے بے شمار ارمان پورے کرتا ہے۔ کھاتا ہے، پیتا ہے، پڑھتا ہے، لکھتا ہے، گھومتا پھرتا ہے، لیکن آخرِکار ایک ایسے بندھن میں بندھ جاتا ہے جسے سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ جس نے اس بندھن کو سمجھ لیا، وہ دراصل اپنی منزل سے آگے بڑھ گیا۔ یہ بندھن ہے شادی۔

چار حروف پر مشتمل یہ لفظ، زندگی کی کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ اگر غور کریں تو “شریک” اور “حیات” دونوں میں بھی چار چار حروف ہیں۔ یہی دو لفظ — شریکِ حیات — شادی کے حقیقی مفہوم کو مکمل کرتے ہیں۔ یہی دو وجود، مرد اور عورت، جب ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے لگتے ہیں تو زندگی کی تکمیل ممکن ہوتی ہے۔

خوش نصیب ہیں وہ مرد جنہیں ایک اچھی بیوی ملتی ہے۔ مگر افسوس، اکثر مرد اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے۔ دنیا کی ہر چیز کے لیے شکر بجا لاتے ہیں مگر اس ہستی کا نہیں جو کبھی اجنبی تھی، مگر اپنی پوری زندگی اُس کے نام کر گئی۔ وہ عورت جو اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر ایک اجنبی گھر کو اپنا بناتی ہے، بچوں کو جنم دیتی ہے، اور ایک مرد کی زندگی میں روشنی بھرتی ہے۔

بیوی — چار حروف پر مشتمل یہ لفظ — خود محبت، قربانی اور برداشت کا پیکر ہے۔ مگر ہم اکثر اس رشتے کو ملکیت سمجھ لیتے ہیں۔ جس طرح ہماری زندگی چار دن کی ہے، ویسے ہی یہ تعلق بھی نازک ہے، اسے سمجھنے اور سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ شادی صرف بچے پیدا کرنے یا دنیاوی تقاضے پورے کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک دوسرے کے وجود کو سمجھنے، برداشت کرنے، اور احترام دینے کا نام ہے۔

بدقسمتی سے آج کے دور میں میڈیا، فلمیں اور سوشل پلیٹ فارمز ہمارے ذہنوں کو بگاڑ رہے ہیں۔ ایک عورت کا دوسری عورت سے موازنہ، فضول پرینکس، اور اخلاق سے گِری ہوئی باتیں ہمارے ذہنی توازن کو متاثر کر رہی ہیں۔ یہ سب وہ زہریلے خیالات ہیں جو ہمارے خاندانی نظام اور ازدواجی سکون کو کھا رہے ہیں۔

ہمارے والدین نے بھی ہمیں رشتوں کو سمجھنے کی تربیت نہیں دی۔ ہمیشہ عورت کو صبر سکھایا گیا، مگر مرد کو کبھی ضبط یا سمجھ نہیں سکھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اکثر اپنی انا کے قیدی بن جاتے ہیں۔ اگر انہیں بھی ضبط و احترام کا دائرہ سکھایا جائے تو زندگی متوازن ہو سکتی ہے۔

ہومیوپیتھک نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ عدم توازن — جذبات، برداشت، احساسِ ملکیت، خودغرضی اور بے حسی — ہی جسمانی و ذہنی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ جب ہم دل اور ذہن کے توازن کو بگاڑ دیتے ہیں تو ہمارا جسم بھی اسی طرح کے اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ہومیوپیتھک Remedies (جذباتی اور ازدواجی توازن کے لیے):

1. Natrum Muriaticum — ان لوگوں کے لیے جو دل میں دکھ رکھتے ہیں مگر ظاہر نہیں کرتے۔

2. Staphysagria — ان کے لیے جو ظلم یا توہین برداشت کر کے خاموش رہ جاتے ہیں۔

3. Ignatia Amara — محبت، غم یا ٹوٹے ہوئے رشتوں کے بعد کے صدمے کے لیے۔

4. Pulsatilla Nigricans — نرم مزاج، حساس عورتوں کے لیے جو توجہ اور محبت چاہتی ہیں۔

5. Lycopodium Clavatum — ان مردوں کے لیے جن میں ظاہری رعب ہے مگر اندر کمزوری اور عدمِ اعتماد۔

Bach Flower Remedies:

Holly — حسد اور possessiveness کے لیے۔

Willow — شکایت اور تلخی کے احساسات کے لیے۔

Walnut — نئے حالات اور تعلقات کو قبول کرنے میں مدد کے لیے۔

زندگی میں خوشی کا راز سمجھنے میں ہے۔ رشتہ جب سمجھ کے ساتھ نبھایا جائے تو وہ عبادت بن جاتا ہے۔ اور اگر خودغرضی اور انا کے ساتھ جیا جائے تو وہی بندھن زنجیر بن جاتا ہے۔

——————
نوٹ: ہومیوپیتھی دواؤں کی پوٹینسی ہر کیس کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن Bach flowers کی پوٹینسی ایک ہی ہوتی ہے اور یہ طریقہ علاج 1935ء سے زیراستعمال ہے تاہم بہت سے ہومیوپیتھ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے آپ اپنے علاقہ کے کسی ہومیوپیتھ سے رابطہ کریں یا ہمیں میسیج کرکے مضمون نگار کا فون نمبر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

شادی — ایک روحانی و فطری بندھن” ایک تبصرہ

  1. اپ نے بالکل ٹھیک کہا لفظ شادی چار حروف پر مشتمل ہے لفظ بیوی بھی چار حروف پر مشتمل ہے اور لفظ شوہر بھی چار حروف پہ مشتمل ہے اور لفظ قسمت بھی چار حروف پر ہی مشتمل ہے اور اس شادی کو نبھانا بعض اوقات بہت مشکل ہو جاتا ہے اس کے لیے ایک اور لفظ کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ چار الفاظ پر یہ مشتمل ہے جس کو کہتے ہیں سمجھ اگر ہم سمجھ سے کام نہیں لیتے ہیں تو کبھی بھی اس کو نہیں نبھا سکتے اگر عورت زیادہ سمجھدار ہوتی ہے تو مرد کبھی برداشت نہیں کر پاتا اگر عورت اس سے زیادہ کماتی ہے تو یہ بھی مرد برداشت نہیں کر پاتا لیکن اور عورت جو ہوتی ہے وہ مرد کی ہر بات برداشت کر لیتی ہے وہ مرد جو ایک عورت کی اونچی اواز برداشت نہیں کر پاتا عورت اس مرد کا تھپڑ بھی برداشت کر جاتی ہے اصل میں بات یہاں پہ ساری حوصلے کی ہے کس میں کتنا حوصلہ ہے برداشت کا ہر وقت عورت کو ہی ذمہ دار ٹھہرا کے اس کو چھوڑ دینا یہ تو فطرت ہے نا مرد کی کیونکہ اج ایک اور چار لفظی حرف طلاق کے بعد کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ مرد کا بھی قصور ہو سکتا ہے ہمیشہ عورت کا ہی قصور بنایا جاتا ہے یہ ایک بڑا لمبا موضوع بحث ہے اور یہ جو اپس میں چپکلش ہوتی ہیں نا یہ جو دوائیاں لکھی ہیں نا ان دوائیوں سے بالکل دور نہیں ہوتی دوائیوں سے ذہنی سکون ملتا تو کوئی بندہ بیمار ہی نہ پڑتا ہو ہاں شاید وقتی طور پہ کچھ نہ کچھ بن جاتا ہے ائی ایم ویری سوری کہ بعض کچھ باتوں پہ میں اپ سے ایگری نہیں ہوتی ہوں اور یہ بھی ایک ایسی ہی بات ہے جب تک میاں اور بیوی دونوں اس بات کو نہیں سمجھیں گی اور کمپرومائز نہیں کریں گے وہ کبھی بھی اچھی زندگی نہیں گزار سکتے ہیں یہ تو کنفرم ہے نا اور

Leave a Reply to Rose shah Cancel reply