شہادت حضرت امام حسین ؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍دسمبر 2016ء میں حضرت امام حسینؓ کی دردناک شہادت سے متعلق مکرم محمداعظم اکسیر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
بغداد سے قریباً سو کلومیٹر دُور، دریائے فرات کے کنارے، کربلا ایک چٹیل و بے آباد ویرانہ کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ مگر آج لاکھوں کی آبادی پر مشتمل یہاں ایک مرجع خلائق شہر آباد ہے۔ سرسبزوشاداب، حسین عمارات، کھُلے بازار، پلاسٹک و پیتل کی انڈسٹریاں ، عبائیں ، قالین اور کڑھائی کے کام، سو سے زائد مساجد، درجنوں کا لجز، سکول، مدارس اور یونیورسٹی۔ اسلامی دنیا میں مکہ و مدینہ کے بعد مشہور ترین مقامات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ شہرت کا اصل سبب حضرت امام حسینؓ اور حضرت عباسؓ کے مزارہیں جن کے طلائی گنبد اور بلند میناروں سے شہر کی عظمت دوبالا ہورہی ہے۔ دنیا بھر سے قریباً 20لاکھ افراد ہر سال زیارت کے لئے یہاں آتے ہیں ۔
کربلا کی وجہِ شہرت تاریخ اسلامی پر لگا ایک بدترین سیاہ داغ ہے۔ ایک انتہائی پاکیزہ، گہوارۂ امن و سکون اسلامی انقلاب آنحضرت ﷺ کے مبارک وجود کے ساتھ برپا ہوا پھر وصال مبارک کے بعد آہستہ آہستہ مخالفین اسلام کے بھڑکانے سے چند دبی چنگاریاں پھیلنے لگیں اور اپنے عروج کو پہنچ کر بھڑک اٹھیں تو کربلا کہلائیں ۔
حضرت عبدالمطلب کے گیارہ بیٹے تھے: ابولہب۔ ضرار۔ عباس۔ زبیر۔ عبداللہ۔ حارث۔ جمل۔ ابوطالب۔ مقوم۔ قشم۔ غیداق۔ ان کی آگے کثرت سے نسل پھیلی ۔ حضرت عبداللہ کے فرزند حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے۔ حضرت ابوطالبؓ کی اولاد سے حضرت علیؓ اور حضرت عقیلؓ وغیرہم تھے۔
ابوسفیان کی اولاد سے معاویہ اور زیاد تھے۔معاویہ کے ہاں یزید اور زیاد کے ہاں عبیداللہ (ابن زیادؔ) پیدا ہوئے۔ معاویہ کا عہدِ امارت 41 تا 60ہجری تک قائم رہا۔ وہ اپنے بعد کے لئے فکرمند تھے۔ حاکم کوفہ مغیرہ بن شعبہ نے 50ھ میں اُن کو مشورہ دیا کہ اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کردیں اور اُس کے حق میں تمام صوبوں سے عہد وفاداری کا اہتمام فرمائیں ۔ یہ تجویز معاویہ کو پسند آئی اور انہوں نے چند عملی قدم اٹھائے: اوّل: اپنی فہم و دانش اور تجربہ کے مطابق یزید کی تربیت شروع کردی۔ دوم: تمام صوبوں میں عہد اطاعت کے لئے فضا ہموار کرنے کے پیغامات بھیجے۔ سوم: دمشق میں ایک خاص مشاورتی میٹنگ بلائی جس میں ہر صوبہ کا وفد مدعو تھا۔ اس میٹنگ میں جب معاویہ نے اعتماد میں لینے کے لئے با ت شروع کی تو مدینہ سے آئے ہوئے نمائندہ محمد بن عمرو بن حزم نے کہا کہ: اپنے فیصلہ کے متعلق قیامت کے روز آپ ہی جوابدہ ہوں گے، ہم تو اس فیصلہ کے بہرحال پابند ہوں گے۔ ایک معتمد بزرگ ضحاک بن قیس نے بڑے جوش و خروش سے تجویز کی حمایت کی۔ مصر سے آئے نمائندے احنف بن قیس خاموش تھے۔ پوچھنے پر کہنے لگے کہ: جھوٹ بولوں تو خدا سے ڈرتا ہوں ، سچ بولوں تو آپ سے ڈرتا ہوں ۔
اس میٹنگ کے بعد اگرچہ مجموعی طور پر فضا ہموارہوگئی لیکن صوبہ حجاز (یعنی مکہ و مدینہ) کی طرف سے امیر معاویہ مطمئن نہ تھے اس لئے اگلے سال 51ھ میں حج پر جانے سے پہلے مدینہ تشریف لے گئے جہاں کے پانچ بڑوں سے آپ پہلے ہی رابطہ کر چکے تھے۔ لیکن معاویہ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے وہ سب مکّہ چلے گئے۔ اس پر امیر معاویہ نے مکّہ پہنچ کر اُن بڑوں کو مدعو کیا او راعتماد میں لینا چاہا تو عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ جس پر باقی سارے متفق ہوجائیں گے مَیں بھی تسلیم کرلوں گا۔ تاہم عبداللہؓ بن عباس۔ عبداللہؓ بن زبیر۔ عبدالرحمن بن ابی بکرؓ اور حضرت امام حسین ؓ سمیت سب نے عبداللہؓ بن زبیر کو اپنا نمائندہ بنالیا۔ اس پر انہوں نے معاویہ سے فرمایا کہ تین باتوں میں سے جو چاہیں اختیار کرلیں : i: آنحضرت ﷺ کے نمونہ پر اس معاملہ کو آزاد چھوڑ دیں ۔ ii: حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نمونہ پر کسی غیررشتہ دار موزوں مومن کو نامزد کردیں ۔ iii: حضرت عمرؓ کے نمونہ پرغیرجانبدار اراکین کی ایک کمیٹی بنا دیں ۔
ان مذاکرات کے بعد معاویہ نے سیاسی چال کے طور پر یہ بات پھیلا دی کہ گویا سب مان گئے ہیں ۔ البتہ یزید ؔ کو کچھ خاص نصائح بطور وصیت کیں کہ:
i:عبد اللہ ؓبن عمر کی طرف سے مطمئن رہنا۔ وہ عبادت گزار انسان ہیں ، عبادت میں مگن رہتے ہیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ۔ ii:عبداللہ ؓبن زبیر لومڑ کی طرح ہے یہ ہتھے چڑھ جائے تو اسے قتل کرا دینا۔ iii:حسین ؓ ابن علیؓ پر غالب آؤ تو اُنہیں قتل نہ کرنا اور قرابت داری کا خیال کرنا۔
معاویہؔ کی وفات پر یزیدؔ نے حسب وصیت و نامزدگی اقتدار سنبھالا تو عہد اطاعت و وفاداری کا فرمان جاری کردیا۔ اہل شام نے فوراً بیعت کرلی۔ عامل مدینہ ولید بن عتبہ کو پیغام ملا کہ مدینہ کے اکابرین سے بیعت لیں ۔ انہوں نے اپنے مشیر مروان بن الحکم کے مشورہ سے حضرت امام حسینؓ کو بلایا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میرا اس طرح الگ تھلگ آکر بیعت کرنامناسب نہیں ، بیعت کروں گا تو سرِعام کھُل کر کروں گا اس لئے کل تک مہلت چاہئے۔ مہلت دیدی گئی۔ مروان نے کہا یہ سخت غلطی ہے اب مہلت دی ہے تو کبھی قابو نہیں پاسکوگے۔ جب عبداللہؓ بن زبیر کو بلایا گیا تو انہوں نے رات تک کی مہلت لی لیکن اس سے پہلے ہی مدینہ سے روانہ ہوگئے۔ صبح و لید اور مروان نے تعاقب کیا مگر ناکامی ہوئی۔ امام حسینؓ بھی اگلے روز اپنے اہل خانہ کے کُل 21؍افراد لے کر مکّہ روانہ ہوگئے۔ حضرت عبداللہؓ بن زبیر نے اپنا قیام بیت اللہ میں کرلیا اور امام حسین ؓ شعب ابی طالب چلے گئے ۔ دونوں مکّہ میں اکٹھے پہنچے۔ چند دن بعد عبداللہؓ بن عمر اور عبداللہؓ بن عباس بھی مکّہ آگئے ۔ جب اہل کوفہ کو حالات کا علم ہوا تو وہ امام حسینؓ کو ہزاروں خطوط لکھ کر پُرزور استدعا کرنے لگے کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں ہم سب آپ کے وفادار و جاں نثار موجود و منتظر ہیں۔
کوفہ معروف طور پر حضرت علیؓ کا عقیدت مند اور حامی تھا۔ یہاں کے عامل نعمان بن بشیر بڑے متحمل مزاج تھے۔ کوفہ میں بھی بڑی بلند قامت شخصیات مقیم تھیں ۔ یزیدؔکی تخت نشینی کے ساتھ جب خبر پہنچی کہ امام حسین ؓ مدینہ سے مکّہ تشریف لے گئے ہیں تو معروف بااثر لیڈر سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر بڑے لوگ جمع ہوئے اور یہ قرارداد پاس کرکے حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں مکّہ بھجوائی گئی کہ ہم اہلِ کوفہ آپ کے والد ماجد کے وفادار و جانثار آپ کو پوری حمایت کا یقین دلاتے ہیں ، یہاں تشریف لائیے لاکھوں جاں نثار بیعت کریں گے۔ ہم فقط آپ کو عالم اسلام کا واحد خلیفہ دیکھنا چاہتے ہیں وغیرہ۔ یہ مکتوب لے کر قیس اور عبدالرحمن مکہ روانہ ہوگئے۔
جب بات عام ہوگئی تو اہل کوفہ نے دھڑا دھڑ خطوط لکھنے شروع کئے۔ ایسے خطوط مجموعی طور پر بارہ ہزار سے بھی زائد ہوگئے جن کا مضمون یہی تھا کہ کوفہ کی زمین سرسبز ہے۔ پھل پک چکے ہیں ، لشکر تیار ہے، جلد تشریف لائیے۔
دوسری طرف نعمان بن بشیر پر یزید کا دباؤ بڑھ رہا تھا کہ قدم اٹھاؤ۔حضرت امام حسین ؓ نے اپنے چچا زاد مسلم بن عقیل کو کوفہ پہنچنے کا ارشاد فرمایا۔ وہ مدینہ گئے اور دو گائیڈ لے کر روانہ ہوئے۔ مگر گائیڈ رستہ میں ہی فوت ہوگئے تو انہوں نے ہچکچاہٹ کا خط لکھا مگر امام کی طرف سے تاکید آنے پر سفر جاری رکھا اور کوفہ میں معروف بااثر لیڈر مختار بن ابو عبیدہ ثقفی کے ہاں اترے۔ مُسلم کا بڑا پُرتپاک استقبال ہوا اور پہلے ہی دن ہزارہا افراد نے بیعت کرلی جس پر انہوں نے امام حسینؓ کی خدمت میں یہ خط لکھتے ہوئے کوفہ آنے کی درخواست کی کہ ایک لاکھ تلوار آپ کی نصرت کے لئے تیار ہے۔
مسلم بن عقیل کے کوفہ میں استقبال پر جاسوسوں نے یزید کو رپورٹس بھیجیں کہ فوری نہ سنبھالا گیا تو صوبہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یزیدؔ نے اپنے والد معاویہ کے معتمد مشیر سرجون ؔ سے مشورہ چاہا۔ اُس نے کہا کہ کوفہ کو سنبھالنے کے لئے موزوں ترین آدمی عبیداللہ بن زیاد ہے جس کے والد زیاد بن ابی سفیان کوفہ وبصرہ کے عامل رہے ہیں اور ابن زیاد خود آج کل بصرہ کا عامل ہے۔ یزیدؔ ذاتی طور پر زیادؔ اور اُن کے بیٹے عبیداللہ کو پسند نہیں کرتا تھا مگر مجبوراً ابن زیاد کے نام فرمان جاری کیا کہ بصرہ میں کسی کو نائب مقرر کر کے خود کوفہ پہنچو اور صورتحال کو سنبھالو۔ اس غیریقینی صورتحال میں مکّہ میں موجود تمام عمائدین حضرت امام حسینؓ کو کوفہ جانے سے روک رہے تھے جن میں حضرت عبداللہؓ بن عباس اور عبداللہ ؓبن زبیر بھی شامل تھے۔
عبید اللہ بن زیاد نے اپنے بھائی عثمان کو بصرہ میں نائب بنایا کہ اطلاع ملی کہ ایک قاصد امام حسین ؓ کے خطوط بااثر شخصیات کے نام لایا ہے کہ بصرہ سے کوفہ پہنچ کر امام حسینؓ کی بیعت اور حمایت کرو۔ ابن زیاد کے خسر منذرؔ بن جارود کی مخبری پر یہ قاصد پکڑا گیا اور ابن زیاد نے مجمع میں تقریر کی کہ یہ قاصد پکڑ ا گیا ہے اور اس نے وہ نام بتا دئیے ہیں جن کے نام خطوط آئے ہیں ۔ فی الحال مَیں ان سب کو معاف کرتا ہوں اور تنبیہ کرتا ہوں کہ یزیدؔ کی اطاعت سے مت نکلیں ورنہ وہ حال ہوگا جو ابھی اس قاصد کا تمہارے سامنے ہوگا۔ پھر اُس قاصد کو بے دردی سے قتل کروادیا۔ اور خود کوفہ کے لئے روانہ ہوگیا۔
کوفہ میں فضا پوری طرح امام حسینؓ کے لئے چشم براہ تھی۔ عاملِ کوفہ نعمان بن بشیر گویا گورنر ہاؤس میں محصور تھے۔ ابن زیاد نے اپنا لشکر کوفہ سے باہر روک دیا اور خود حجازی لباس پہن کر شہر میں داخل ہوا۔ لوگ اُسے امام حسین خیال کر کے پُرجوش استقبال کرنے لگے۔ وہ سیدھا گورنر ہاؤس پہنچا جہاں بیرونی گیٹ بند کرکے نعمان بن بشیر اپنے مصاحبین کے ساتھ چھت پر موجود تھے۔ وہ اوپر سے ہی مخاطب ہوئے کہ ’’اے ابن رسول اللہ! آپ بہت مقبول، بزرگ اور خدا رسیدہ انسان ہیں ۔ خدارا ایک قائم ہوجانے والی حکومت کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں اور واپس چلے جائیں ‘‘۔ ابن زیاد معاملہ سمجھ گیا اور حجازی عمامہ اتار کر بولا کہ مَیں ابن زیاد ہوں ۔ اور پھر کوفہ کا چارج سنبھال لیا۔
ابن زیاد نے جلد ہی بڑی حکمت سے معلوم کرلیا کہ مسلم بن عقیل کا پتہ چلا لیا کہ کہاں ہیں ۔ وہ ابن زیاد کی آمد پر ہانی بن عروہ کے گھر میں منتقل ہوگئے تھے۔ ابن زیاد نے اپنے ایک معتمد معقل تمیمی کو تین ہزار درہم کی تھیلی دے کر بھیجا کہ ہانی سے کہو کہ مَیں بصرہ سے آیا ہوں اور یہ ہدیہ ہتھیاروں کی خرید کے لئے لایا ہوں اور ایک اطلاع حضرت مسلم تک پہنچانا چاہتا ہوں کیونکہ اُنہی کے پاس پہنچنے کی ہمیں امام حسینؓ کی طرف سے تاکید ہوئی ہے۔ ہانی اس کی چال میں آگئے اور حضرت مسلم سے ملا دیا۔ ازاں بعد ابن زیاد کے حکم پر ہانی کو گرفتار کرلیا گیا۔ باہر شور مچ گیا کہ ہانی قتل کردئیے گئے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت مسلم کی اپیل پر ابن زیاد سے لڑنے کے لئے چار ہزار کا لشکر جمع ہوکر گورنر ہاؤس کی جانب بڑھا تو ابن زیاد نے چند افراد کے ذریعے لشکر میں پھوٹ ڈلوادی۔ لشکر تتر بتر ہوگیا اور جو چند باقی رہے وہ بھی مغرب کے وقت اِدھر اُدھر ہوگئے۔ مسلمؔ تنہا ایک گلی میں چلے اور کندہ قبیلہ کی بوڑھی خاتون طوعہؔ نے دیکھا تو پانی پلاکر گھر میں پناہ دی۔ اس بڑھیا کا بیٹا بلال گھر آیا تو دیکھ کر پریشان ہوگیا کیونکہ باہر تو منادی ہورہی تھی اور مسلم کو پکڑنے کے لئے گھر گھر تلاشی ہورہی تھی۔ بلال کی مخبری پر حضرت مسلم کو گرفتار کرکے ابن زیادؔ کے سامنے پیش کردیا گیا۔ ابن زیاد کے ساتھ کافی گفتگو کے بعد اُن پر واضح ہوگیا کہ قتل کردئیے جائیں گے اس لئے وصیت کی جس کا اہم حصہ یہی تھا کہ امام حسین ؓ مکّہ ہی میں رُک جائیں اور کوفہ نہ آئیں کیونکہ اہل کوفہ نے بے وفائی کی ہے۔
جس دن مسلم ؔ اور ہانی شہید کئے گئے اُسی دن (یعنی 3ذی الحجہ) کو مکّہ سے امام حسینؓ کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔ مکّہ سے کربلا تک قریباً 900کلومیٹر کا سفر ایک مہینہ میں مکمل کیا اور 14مقامات پر پڑاؤ یا قیلولہ کیا۔
راستہ میں تنعیمؔ کے مقام پر آپؓ کو یمن کے عامل کی طرف سے تحائف لے جانے والا قافلہ ملا۔ امام حسینؓ کی رائے تھی کہ تحائف پر امام زمان کا حق ہے اور وہ یزیدؔ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ قافلہ پر تصرّف ہوا اور اس قافلہ کے اونٹ وغیرہ قافلۂ حسینی کا حصہ بنے۔ اسی جگہ امام حسینؓ کے چچازاد عبداللہ بن جعفر کا خط لے کر ان کے بیٹے عونؔ اور محمدؔ پہنچے۔ خط میں لکھا تھا کہ سفر کی جلدی نہ کریں ، مَیں بھی آرہا ہوں ۔
عبداللہ بن جعفر کے کہنے پر حاکمِ مدینہ عمرو بن سعید نے خط لکھ دیا تھا کہ امام حسینؓ مدینہ تشریف لے آئیں ۔ عمرو کے بھائی یحییٰ یہ خط لے کر عبداللہ کے ہمراہ پہنچے اور بہت روکا کہ کوفہ کی بجائے مدینہ کو چلیں مگر حضرت امام حسینؓ نے اپنا ارادہ ترک نہیں فرمایا۔ تب عبداللہ بن جعفر بادیدۂ اشکبار واپس مدینہ جاتے ہوئے اپنے بیٹوں کو حضرت امام حسین ؓ کا پورا ساتھ دینے کی تاکید کرگئے۔
ثعلبیہؔ کے مقام پر کوفہ کے بشیر بن غالب ملے اور بتایا کہ لوگوں کے دل امام کے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنی امیہ کی طرف ہیں ۔ اس سے پہلے معروف شاعر فرزدق بھی یہی بات کہہ چکے تھے اور مشورہ دیا تھا کہ آگے نہ جائیں ۔
چشمۂ غدیب کے مقام پر حضرت امام حسینؓ نے قیلولہ فرمایا اور خواب میں آئندہ دنوں میں جو مقدّر تھا، وہ دیکھا۔
ہیمیہؔ پہنچے تو کسی نے مدینہ سے چلے آنے کا سبب پوچھا تو آپؓ نے فرمایا: مال و عزت کے بعد اب بنوامیہ مجھے قتل کرنے کے درپے ہوئے تو مَیں نے مدینہ چھوڑ دیا۔
اس دوران حاکمِ مدینہ ولید کو امام حسینؓ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ابن زیاد کو لکھا کہ ان سے متصادم نہ ہونا۔ مگر اس پر ولید کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔
بطن رمہ کے مقام سے حضرت امام حسینؓ نے عبداللہ بن یقطر کو اہل کوفہ کے نام خط دے کر بھیجا کہ مَیں کوفہ آرہا ہوں وغیرہ۔ عبداللہ بن یقطر پکڑے گئے تو انہوں نے خط تلف کردیا۔ تاہم ابن زیاد نے اُن کا سر قلم کرادیا۔یہی حال ایک اور قاصد قیس بن مسہر کا ہوا۔ اس پر ابن زیاد نے قادسیہ سے حصین بن نمیر کی کمان میں ایک بڑا لشکر بھیج دیا جو قادسیہ سے قطقطانیہ تک پھیلا ہوا تھا۔
حاجز میں ایک چشمۂ آب پر پہنچے۔ وہاں عبداللہ بن مطیع ملا اور امام حسینؓ کو خدا کی قسم دی کہ کوفہ ہرگز ہرگز نہ جائیں مگر امام کے قدم نہیں رکے۔ اسی مقام پر ابن زیاد کی طرف سے بصرہ و شام کے راستے بند کرانے کا علم ہوا۔
ایک قافلہ زہیر بن قین بجلی کی قیادت میں متوازی سفر کررہا تھا۔حضرت امام حسینؓ نے اس کو بلایا تو لبیک کہہ کے ہمراہ ہوا اور بیوی کو وداع کردیا۔
خزیمہؔ میں رات گزاری۔ یہاں کوفہ سے آنے والے عبداللہ بن سلیمان اور منذر بن شمعل نے بتایا کہ مسلمؓ اور ہانی شہید کردیئے گئے ہیں ۔ انہوں نے تاکید کی کہ آپؓ آگے نہ جائیں بہت خطرناک صورتحال ہے۔ اسی جگہ قاصد عبداللہ بن یقطر کی شہادت کی اطلاع بھی ملی تو آپؓ آبدیدہ ہوگئے اور بادیدۂ ترہاتھ اٹھاکر درد ناک دعا کی۔
بطنِ عقبہ میں بنی عکرمہ کے ایک بزرگ ملے اور آپؓ کو قسم دے کر واپس چلے جانے کی درخواست کی۔
اشرافؔ میں رات گزاری اور صبح حکم دیا کہ پانی بھر کے ہمراہ لے لو۔ پھر چل پڑے۔ دوپہر کے وقت سامنے دُور لشکر پر نظر پڑی اور خطرہ بھانپ کر رُخ ایک پہاڑ کی طرف کرلیا کہ تصادم کی صورت میں پہاڑ پشت پر ہو۔ کچھ دیر بعد حُر بن یزید رباحی ایک ہزار سواروں کے ساتھ عین شدّتِ گرما میں قافلۂ حسینی کے قریب صف آراء ہوا۔ امام حسینؓ نے اُن میں آثار تشنگی دیکھ کر ان کے لوگوں اور جانوروں کو پانی پلانے کا حکم دیا۔
حُر بن یزید کا قافلہ دراصل اُس بڑے لشکر کا حصہ تھا جو ابن زیاد نے حصین بن نمیر کی قیادت میں بھیجا تھا۔ حُر نے اپنے دستے سمیت نماز ظہر اور پھر نماز عصر امام حسین ؓ کی اقتداء میں ادا کیں ۔ امام حسینؓ نے بتایا کہ مَیں اہل کوفہ کے بااصرار بلاوے پر آیاہوں اور عصر کے بعد خطاب میں فرمایا: ’’اے لوگو! اگر تمہاری رائے پِھر گئی ہے تو مَیں بھی واپس جاتا ہوں ۔‘‘ مگر حُر نے کہا کہ مجھے حکم ہے کہ آپ کو واپس نہ جانے دوں ۔ آپ کی تعظیم کرتا ہوں مگر کوفہ چلیں یا کسی اَور راستہ سے مدینہ چلے جائیں ۔ چنانچہ امام حسینؓ متوازی چلتے ہوئے قصر بنی مقاتل پہنچے۔
قطقطانیہ میں ایک خیمہ نظر پڑا جس میں سے نکل کر عبداللہ بن حُر آیا تو امام حسینؓ نے اپنی حمایت کرنے کا کہا۔ اُس نے گھوڑا پیش کیا جو امام نے قبول نہیں کیا کیونکہ جو خود حمایت میں نہیں آتا اس کی طرف سے کوئی ہدیہ بھی کیوں قبول کیا جائے۔ قطقطانیہ میں کئی کشفی نظارے بھی دیکھے کہ شہید کردئیے جائیں گے اور شہادت کے بعد امّت اور بنوہاشم پر ہمیشہ کے لئے کٹھن وقت شروع ہوجائے گا۔
کربلا میں (2محرّم الحرام 61ھ) صبح تیار ہو کر دوسری طرف جانا چاہا مگر حُر مانع ہوا۔ یہیں ابن زیادؔ کا قاصد آیا اور حُر کو ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ جہاں یہ خط اُسے ملے وہیں امام حسین کو روک دو اور ان کو ایسے بیابان میں اتارو جہاں پانی اور آبادی نہ ہو۔ حُر نے یہ خط بآواز بلند سنا دیا ۔ اس پر زہیرؔ نے حضرت امام حسینؓ کو جنگ کا مشورہ دیا مگر امام حسینؓ نے فرمایا کہ جنگ میں پہل نہیں کرسکتا۔
حُر نے ابن زیاد کو صورتحال کی رپورٹ بھیجی تو ابن زیاد نے امام حسینؓ کے نام یہ خط بھیجا کہ:’’یزید بن معاویہ نے مجھے خط لکھا ہے کہ آپ کو مہلت نہ دوں ۔ یا آپ سے بیعت لوں یا انکار کی صورت میں یزید کے پاس بھیج دوں ‘‘۔ قاصد نے اس خط کا جواب چاہا تو آپؓ نے فرمایا کہ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے، بس اتنا یاد رکھو کہ اُس پر عذاب اترا ہے۔ اس کے بعدحضرت امام حسین ؓ نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا اور خدا کی خاطر شہادت کی عظمت بتاکر صورتحال واضح کردی۔ اس پر زہیرؔ پھر ہلالؔ بن نافع بجلی پھر بریرؔبن خضیر نے لبیک کہا اور پوری جاں نثاری کا یقین دلایا۔ امام نے تمام اصحاب اور بچوں پر نظر ڈال کر دعا دی۔
ابن زیاد کو امام حسینؓ کا جواب ملا تو وہ آگ بگولا ہوگیا اور 3؍محرّم کو عمر بن سعد کو پیغامِ جنگ بھیج دیا جو چار ہزار نفری کے ساتھ پہلے ہی کربلا کے نزدیک پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ کربلا پہنچا اور امام حسین ؓ سے رابطہ کرنے کے لئے عروہ بن قیس احمسی سے کہا مگر اُس نے معذرت کرلی کیونکہ وہ خود خطوط لکھ کر امام حسینؓ کو کوفہ بلانے والوں میں شامل تھا۔ اسی طرح کئی اَور نے بھی انکار کیا۔ آخر نہایت بیباک اور بے حیا شخص کثیر بن عبداللہ نے خود کو اس کام کے لئے پیش کیااور کہا کہ حکم ہو تو سر کاٹ کے لے آؤں ۔ ابن سعد نے کہا: نہیں صرف یہ پوچھ کے آؤ کہ یہاں آپ کیوں آئے ہیں ؟ کثیرؔ نے امام حسینؓ کو ملنا چاہا تو آپؓ کے رفقاء نے کہا کہ ہتھیار کھول کے آؤ ۔ مگر وہ اس پر راضی نہ ہوا ۔تب قرہ بن قیس کو بھیجا گیا تو امام حسینؓ نے اُس سے فرمایا : تم لوگوں نے بے شمار خطوط لکھ کر بلایا۔ اگر میرا آنا اب منظور نہیں ہے تو مجھے واپس جانے دو۔
ابن سعد نے یہ رپورٹ ابن زیاد کو بھیج دی کہ امام حسین ؓ واپس جانے کو تیار ہیں ۔ ابن زیاد رپورٹ پڑھ کر مطمئن ہوا۔ لیکن (حضرت علیؓ کے برادرنسبتی) شمر ذی الجوشن نے ابن زیادؔ کو اکسایا کہ واپس مت جانے دو۔یہی تو موقع ہے اسے قابو کرلینے کا۔ چنانچہ 4محرم کوابن زیاد نے عمر بن سعد کو خط لکھوایا کہ امام حسینؓ اور ان کے تمام اصحاب بیعت کریں ۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا مناسب ہے۔ دوسری طرف ابن زیاد نے مسجد میں خطابِ عام کیا اور انعام و اکرام کا لالچ دے کر لوگوں کو قتلِ حسین پر اُکسایا جس پر مختلف لشکر تیار ہوتے رہے جن میں شمر ذی الجوشن، حصین بن نمیر اور شیث بن ربعی کے لشکروں کے چارچار ہزار، یزید بن رکاب کے دو ہزار اور محمد بن اشعث بن قیس کے لشکر میں ایک ہزار افراد شامل تھے۔
5 محرم کو ابن زیادہ تیار ہونے والے لشکروں کو کربلا بھیجتا رہا۔ 6محرم کو مختلف لشکر کربلا پہنچ گئے تو حبیب بن مظاہر نے حضرت امام حسینؓ کی اجازت سے قریب ہی آباد قبیلہ بنی اسد کو مائل بہ نصرت کرنے کی کوشش کی تو 90 افراد تیار ہوئے۔ لیکن جاسوس کی مخبری پر عمر بن سعد نے ارزقؔ شامی کی کمان میں 400 نفری بھیج کر اُنہیں مغلوب کرلیا۔ تاہم حبیب بن مظاہر بچ کر واپس پہنچ گئے اور سب حال حضرت امام حسینؓ کو کہہ سنایا۔
اُسی روز عمرو بن حجاج کی کمان میں 500آدمی دریائے فرات پر تعینات کردئیے گئے تاکہ امام حسینؓ کو پانی سے روکیں ۔ اس پر امام حسینؓ نے ایک بیلچہ لیا اور خیمہ کی پشت پر نو قدم سمت قبلہ چل کر وہ بیلچہ زمین پر مارا تو وہاں سے چشمہ آبِ شیریں ظاہر ہوا۔
7؍محرم کو خیمہ کے پیچھے چشمۂ آب کی خبر معاندین تک پہنچی تو اُن کی طرف سے سختی بڑھا دی گئی۔ امام حسینؓ نے ایک وفد دریا سے پانی لینے کے لئے بھیجا جس کی لشکر سے چپقلش تو ہوئی مگر لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ چنانچہ رات کو حضرت امام حسینؓ نے عمر بن سعد کو علیحدگی میں طلب کیا اور حجّت تمام کرنے کو اس شقی سے کہا کہ تُو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے حالانکہ تُو جانتا ہے کہ میں کون اور کس کا پسر ہوں ۔ آیا خدا سے نہیں ڈرتا اور قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتاوغیرہ۔
8محرم کو ابن زیاد کو کوفہ میں رپورٹ ملی کہ ابن سعد اور امام حسین کی علیحدگی میں ملاقاتیں ہورہی ہیں ۔ اس پر ابنِ زیاد نے جویرہ بن بدر کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ حسین ابن علی سے مذاکرات کرنے اور رعایتیں دینے کے لئے تمہیں نہیں بھیجا گیا اپنا فرض ادا کرنے کی طرف دھیان کرو ورنہ فوج کی کمان چھوڑ دو۔بعد میں ابن زیاد نے سوچا کہ اگر عمر بن سعد نے کمان چھوڑ دی تو فوج کی کمان کون سنبھالے گا۔ چنانچہ شمر ذی الجوشن کو روانہ کردیا جو 9محرم کو عصر کے قریب سعد کے پاس پہنچا اور ابن زیاد کا پیغام پہنچایا کہ فوراً جنگ شروع کرو ورنہ کمان شمر کے سپرد کردو۔ چنانچہ ابن سعد نے تیاری شروع کردی۔ اس پر حضرت امام حسین ؓ نے کہا کہ رات گزرنے دو، کل صبح فیصلہ ہو جائے گا اب تو رات ہونے والی ہے۔ تب شمر لشکر گاہ امام کے قریب آیا اور پکارا کہ میری ہمشیرہ کے بیٹے کہاں ہیں ؟ وہ آئے تو کہنے لگا تمہارے لئے امان لایا ہوں ، آجاؤ تم الگ ہوجاؤ۔ انہوں نے حقارت سے شمر کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور پُرجوش جواب دیا کہ ہم ہرقدم پر امام حسینؓ سے وفا کریں گے۔
رات کو حضرت امام حسین ؓ نے اپنے خیمے متّصل کرکے اُن کے پیچھے خندق کھود کر اس میں لکڑیاں جلانے کے لئے بھر دینے کا حکم دیا۔ پھر علی اکبر کو مع تیس سوار اور بیس پیادے دے کے بھیجا کہ وہ چند مشک پانی بھر لائے۔ وہ بمشکل پانی لاسکے۔ پانی آیا تو اپنے اہلِ بیت و اصحاب سے فرمایا کہ پانی پیو کہ یہ آخری توشہ تمہارا ہے اور وضو و غسل کرو اور اپنے کپڑوں میں خوشبو لگاؤ کہ وہ تمہاے کفن ہوں گے۔
رات بھر تیاری و ترتیب دینے اور دعائیں کرنے میں گزری۔ نیند سے مغلوب ہوئے تو خواب میں دیکھا کہ کتے ان پر حملہ آور ہیں ۔ مجموعی طور پر 45 سوار اور یکصد پیادے کُل آپؓ کی قوّت تھی اور دوسری طرف 22ہزار کا لشکر۔
حضرت امام حسین ؓ نے دونوں کناروں سے مڑی ایک لمبی خندق پیچھے رکھ کر پہلے خیمے ترتیب دئیے پھر اُن کے آگے درمیان میں عَلم حضرت عباس کو سونپا۔ میمنہ پر زہیر بن قین اور میسرہ پر حبیب بن مظاہر اور عَلم یعنی جھنڈے کے پیچھے مرکزی خیمہ نصب فرمایا۔ مخالف لشکر میں عَلَم ایک غلام دریدؔ کو دیا گیا۔ عمرو بن حجاج میمنہ اور شمر ذی الجوشن میسرہ پر تعینات کیا گیا۔ عمرو بن قیس سواروں کا کمانڈر اور شیث بن ربعی پیادوں کا سالار مقرر ہوا۔
10محرم الحرام 61ھ کی صبح بریر بن خضیر اجازت لے کر ابن سعد سے بات کرنے گئے اور ابن سعد کو غیرت دلائی کہ وہ خدا سے ڈریں اور خاندانِ نبوت کی پاسداری کریں ۔ جواب ملا کہ ہم فقط ابن زیاد کے پاس لے جانا چاہتے ہیں ، آگے وہ جو چاہے۔ بریرؔ نے کہا کہ کیا اس پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ امام حسین ؓ اپنے وطن واپس چلے جائیں صد افسوس اہل کوفہ تم پر کہ عہد سے پِھر گئے اور مؤکد بعذاب قسموں کو بھول گئے۔
بریرؔ کی ناکام واپسی پر حضرت امام حسینؓ نے عمامۂ رسول ؐ سر پہ رکھا اور اونٹ پر سوار ہو کے مخالف لشکر کے سامنے گئے اور فصیح و بلیغ خطاب فرمایا۔ یہ غالباً سفرِ کربلا کے آغاز سے لے کر اب تک کا طویل ترین اور آخری خطاب تھا جو ساری صورت حال کی عکاسی کررہا تھا۔ اس میں حضرت امام حسین ؓ نے اپنے اور اپنے آباء کے تعارف سے آغاز کے بعد مدینہ سے مکّہ آمد اور وہاں اہل کوفہ کی انتہائی پُرجوش جذباتی تحریروں پر مشتمل خطوط کا ذکر کیا اور پھر نیکی اور بدی کا فرق واضح کر کے بھرپور انداز میں اتمام حجّت کردی۔ نام لے کر اہل کوفہ کے بڑوں کو پکارا کہ کیا تم نے مجھے خطوط نہیں لکھے؟۔ آخر پہ حضرت امام حسین ؓ نے تمام سپاہ کے مجموعی کمانڈر عمر بن سعد کو کہا کہ تُو مجھے اس لئے قتل کرتا ہے کہ پسرِ زیاد تجھے دے گا۔ قسم بخدا ہرگز تجھے میسر نہ ہوگا۔ اور بعد میرے زندگی تجھ پر گوارا نہ ہوگی … میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت جلد تیرا سرنجس نیزہ پر کوفہ میں نصب کیا ہے اور لڑکے اس پر پتھر مار کے نشانہ بنا رہے ہیں ۔‘‘
یہ سن کر عمر اپنے اصحابِ شقاوت مآب کی جانب متوجہ ہوا اور کہا کہ کیوں ان کو مہلت دے رکھی ہے۔
حضرت امام حسینؓ اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے تو حُر آپؓ کی طرف بڑھے اور دست بستہ معافی کے خواستگار ہوئے۔ کہا کہ یہ مَیں تھا جس نے آپ کو واپس نہ جانے دیا۔ اللہ مجھے معاف کرے آپ بھی معاف کر دیں اور مجھے قبول فرمائیں کہ آپ کی طرف سے لڑکر اپنی جان کا نذرانہ پیش کروں ۔ آپؓ نے انہیں معاف کرکے قبول فرمایا۔
ادھر عمر بن سعد نے ایک علامتی تیر چلا کر آغاز جنگ کا اعلان کردیا تو حُر چالیس مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار کر، ایوب بن مسروحؔ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ پھر مبارزت شروع ہوئی۔ فدائی جانے سے پہلے امام حسین ؓ کے سامنے آکر سلام کرتے اور اجازت و دعا کے ساتھ میدان میں اتر کر سرخرو ہوتے۔ امام حسینؓ ہر اجازت کے ساتھ آیت پڑھتے: مِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ … (الاحزاب:24)
15 وفاشعار مبارزت کے نتیجہ میں سرخرو ہوچکے تھے اور سینکڑوں معاندین موت کے گھاٹ اتارے جاچکے تھے تو عمرو بن حجاج نے عمر بن سعد کو مشورہ دیا کہ مبارزت کی بجائے یکبارگی حملہ کیا جائے۔ چنانچہ شمرؔ اپنے جتھہ کے ساتھ میسرہ پر حملہ آور ہوا۔ مقابلہ میں صرف 32سواروں کی قوت تھی۔ شدّت کا معرکہ ظہر تک جاری رہا۔
بوقتِ ظہر ابو تمامہ ہائدی ؓ حضرت امام حسینؓ کے پاس آئے کہ ہماری جانیں آ پ پر فدا۔ وقت ہوچکا ہے۔ وداع کی نماز آپ کے ساتھ ادا کرسکیں تو اچھا ہوگا۔ فرمایا: اُن سے بات کرو۔ مقابل پر حصین بن نمیر تھا۔ سُن کر کہنے لگا کہ تمہاری نمازیں مقبول نہیں ہیں ۔ چنانچہ لڑائی کے دوران نماز خوف ادا کردی گئی۔ پھر یکے بعد دیگر ے مزید 38 جانثار اپنے امام پر قربان ہوگئے۔ تب اہل بیت حسینؓ نے ایک دوسرے کو الوداعی سلام کہا اور پھر ایک ایک کر کے آگے بڑھے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہادت قبول کی۔
ذرا اُس کوہِ وقار عبقری انسان کا وجود سوچئے کہ گزرے دن کے تمام رنج اٹھا ئے، بہتے ہوئے خون اور ایک کے بعد دوسرے عزیز کی لاش گنتے وہ خود کس حال میں ہوں گے کہ اچانک ایک بد بخت ابو الحنوق نے تیر مارا جو آپؓ کی پیشانی پر لگا۔ کھینچا تو خون چہرۂ مبارک کو تر کر گیا۔ ساتھ ایک سہ پہلو زہر آلود تیر سینۂ مبارک پر آن لگا۔ اسے کھینچا تو خون کا دھارا جسد مبارک کو تر کر گیا۔ پیادہ تھے۔ مالک بن یسر نے سر مبارک میں ایک ضرب لگائی تو عمامہ خون سے بھرگیا۔ الجر بن کعب نے تلوار کا وار کیا۔ شمر لعین کے اکسانے پر حصین بن نمیرنے تیر دھنِ مبارک پر مارا۔ ابوایوب غنویٰ نے دوسرا تیر چلایا۔ ضرعہ ؔ بن شریک نے بائیں بازو پر وار کیا پھر کندھے پر۔ سنان بن انس نخعی نے نیزہ مار کے منہ کے بل گرا دیا۔ خولیٰ بن یزید اصبحی نے کہا کہ سرکاٹ لو، پھر ہاتھ کانپ گیا۔ سنانؔ آیا اور تیزی سے سر جسد مبارک سے الگ کردیا۔

اِنَّا لِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

شہادت سے قبل آپؓ نے اکیلے ہی لڑتے ہوئے گروہِ کثیر کو واصل جہنم کیا۔اور پکار کر کہا کہ ’’قسم بخدا میں دوست خد ا کے پاس جاتا ہوں ۔ خدا دونوں جہان میں تم سے میرا انتقام لے گا۔ حصین بن مالک نے کہا کس طرح؟ فرمایا: خداوند عالم ایسا حکم کرے گا کہ تم اپنی تلواریں ایک دوسرے پر کھینچو گے اور اپنا خون بہاؤ گے۔ دنیا سے منقطع نہ ہوگے اور تمہاری امید ہائے دلی بھی حاصل نہ ہوں گی۔ جب سرائے آخرت میں جاؤ گے وہاں عذاب ابدی تمہارے لئے مہیا ہے‘‘۔ ایک روایت کے مطابق حضرت امام حسینؓ کا جسدِ مبارک مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو زخموں سے چور تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “شہادت حضرت امام حسین ؓ

  1. بہت اعلی مضمون- اس میں اگر یہ وضاحت بھی ہو جاتی کہ کربلا کی لڑائی یزید اور حسین علیہ السلام کی لڑائی نہیں تھی بلکہ بنو امیہ اور قریش ہی کا پرانا عداوت کا سلسلہ تھا تو بات اور بھی اچھی سمجھ آ جاتی-

    1. جی۔ آپ کی بات درست ہے لیکن ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کے لئے ہم صرف اصل مضمون کے مواد کو ہی استعمال کرسکتے ہیں، اپنی طرف سے اضافہ نہیں کرسکتے۔ ویب سائٹ سے استفادہ کرنے کا بہت شکریہ

اپنا تبصرہ بھیجیں