شہب ثاقبہ گرنے کا عظیم نشان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اپریل 2010ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت میں شہب ثاقبہ کے گرنے کی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
جب کسی مامور من اللہ کو مبعوث کیا جاتا ہے تو اس کی تائید میں آسمانی نشانات کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ شہاب ِ ثاقب کے کثرت سے گرنے کی مذہب کے حوالہ سے بھی ایک تاریخ ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ گرا اور اس سے بڑی روشنی ہوگئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا ان ستاروں کے جھڑنے کے بارے میں کیا خیال تھا؟ صحابہ نے عرض کی کہ جاہلیت میں ہم اس موقع پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا آسمان پر فیصلہ فرماتا ہے تو یہ ستارے جھڑتے ہیں۔
یہ بھی روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ایک رات اس کثرت سے ستارے ٹوٹے کہ شعلے اُ ٹھتے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کثرت اتنی غیر معمولی تھی کہ اہل طائف گھبرا گئے اور خیال کرنے لگے کہ آسمان والے ہلاک ہو گئے اور طائف کے لوگوں نے اپنے غلام آزاد کرنے شروع کئے اور اپنے جانوروں کو اللہ کی راہ میں چھوڑنا شروع کیا۔ آخر ان کے ایک شخص نے کہا کہ اے طائف والو! کیوں اپنے اموال برباد کر رہے ہو تم نجوم کو دیکھو اگر وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ ابن ابی کبشہ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ( مشرکین شرارت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نام سے پکارا کرتے تھے۔)
مسند احمد میں درج ہے کہ امام زہریؒ سے دریافت کیا گیا کہ کیاجاہلیت میں بھی ستارے جھڑتے تھے۔اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہاں لیکن کم ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے زمانے میں ان میں بہت زیادتی ہو گئی تھی۔
’زرقانی‘ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر کثرت سے شہاب ثاقب گرے تھے۔
’تاریخ خمیس‘ میں درج ہے کہ جب رسول کریمؐ کی ولادت ہوئی تو شہاب ِ ثاقب کثرت سے گرے اور ابلیس کو آسمان تک کی رسائی سے روک دیا گیا۔
یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی تاریخ کے اہم انقلاب کا امر ظاہر ہوا تھا۔اور اس وجہ سے آسمان پر اللہ تعالیٰ نے یہ غیر معمولی نشان ظاہر فرمایا۔
پھر مرقس کی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی آمد ثانی کی علامات یوں بیان فرماتے ہیں کہ اُن دنوں میں مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گااور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے اور جو قوتیں آسمان میں ہلائی جائیں گی اور اس و قت لوگ ابن ِ آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتا دیکھیں گے۔اس وقت وہ فرشتوں کو بھیج کر اپنے برگزیدوں کو زمین کی انتہا سے آ سمان کی انتہا تک چاروں طرف سے جمع کرے گا۔
ہمارے نظام شمسی میں جب دمدار ستارے (Comets) اور asteroidsسفر کرتے ہیں تو اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے ذرات چھوڑتے جاتے ہیں جو کہ meteroids کہلاتے ہیں اور ان کے زمین کی فضا سے ٹکرانے پر شعلہ پیدا ہوتا ہے جسے meteorکہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ذرّات سائز میں محض ریت کے ذرات سے لے کر ایک دو گرام کے وزن تک ہوتے ہیں لیکن آگ کا شعلہ جو پیدا ہوتا ہے اس کی چوڑائی ایک میٹر اور لمبائی پچاس ساٹھ کلو میٹر سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ سال کے بعض دنوں میں شہاب ِ ثاقب غیر معمولی طور پر زیادہ گرتے ہیں اور اس عمل کو meteorite showerکہا جاتا ہے۔اور کبھی کبھار یہ شہاب ِ ثاقب اتنی زیادہ بڑی تعداد میں گرتے ہیں کہ یہ گمان ہوتا ہے کہ آسمان گر رہا ہے اور ایک گھنٹے میں کئی ہزار شہاب ِ ثاقب گرتے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔جہاں تک اتنے نمایاں Stormsکا تعلق ہے تو یہ بالعموم نومبر میں ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود کے مبارک دَور میں بھی ایک مرتبہ غیر معمولی شدت کا Meteor Stormہوا تھا۔ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مجھ کو یاد ہے ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ 238 میں مندرج ہے ۔
خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی اور جو تُو نے چلایا یہ تُو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔اس نے تجھے علم قرآن کا دیا تا تُو ان کو ڈراوے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اور تا مجرموں کی راہ کھل جائے۔یعنی سعید لوگ الگ الگ ہو جائیں اور شرارت پیشہ اور سرکش آدمی الگ ہو جائیں اور لوگوں کو کہہ دے کہ میں مامور ہو کر آیا ہوں اور میں اوّل المومنین ہوں۔ ان الہامات کے بعد کئی طور کے نشان ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ کہ 28 نومبر 1885ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو 28 نومبر 1885 ء کے دن سے پہلے آئی ہے اس قدر شہب کا تماشہ آسمان پر تھا۔ جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزارہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کر سکوں۔مجھ کو یاد ہے اس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ وما رمیت… سو اس رمی کو کو رمی شہاب سے بہت مناسبت تھی ۔یہ شہاب ثاقبہ کا تماشہ جو 28 نومبر 1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہؤا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا ء کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا ۔لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا ۔لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشے کو دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذت اُ ٹھانے والا میں ہی تھا۔میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشہ کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا ۔کیونکہ میرے دل میں الہاماً ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔‘‘
شہاب ِ ثاقب کا جو عظیم الشان واقعہ 28 نومبر 1885ء کو ہوا وہ اس قسم کے meteor stormسے تعلق رکھتا تھا جسے علم فلکیات کی اصطلاح میں Andromedidsکہا جاتا ہے اور یہ اس وقت واقعہ ہوتا ہے جب زمین کی فضا Andromedid Streamسے ٹکراتی ہے ۔یہ Andromedid Stream ان ذرات سے وجود میں آئی جو ایک دمدار ستارے 3D Biela نے فضا میں چھوڑے تھے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہ دمدار ستارا (Comet) 1772ئ، 1805ئ، 1826ء اور 1845ء میں دکھائی دیا تھا۔ جب 1845 میں یہ دکھائی دیا تو یہ دو ٹکڑوں میں ٹوٹ چکا تھا اور جب ماہرین ِ فلکیات کے حساب کی رُو سے اسے1865ء میں دکھائی دینا تھا اور یہ دمدار ستارا دکھائی نہیں دیا تو یہی نتیجہ نکالا گیا کہ کہ یہ دمدار ستارا مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔ جب بھی زمین کی فضا سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے اس Andromedid Stream سے ٹکراتی ہے تو شہاب ثاقب عام دنوں سے زیادہ گرتے ہیں لیکن جو وہ واقعہ 28 نومبر 1885ء کو ہوا یہاں اس قسم کے باقی Meteor Showers سے شدّت میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنا زیادہ تھااور یہ واقعہ اب بھی علم فلکیات میں ایک حوالہ کا درجہ رکھتا ہے۔
دراصل 1885ء وہ سال تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے پہلے دنیا کے سامنے اپنا دعویٰ ماموریت پیش فرمایا۔ اسی سال آپؑ نے مذاہب عالم کے لیڈروں کو الٰہی بشارتوں کے تحت نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی کہ وہ اگر طالب صادق بن کر آپ کے پاس ایک سال قیام کریں تو وہ ضرور اپنی آنکھوں سے چمکتے ہوئے نشان دیکھ لیں گے۔ اور آپ نے اس دعوت کے بیس ہزار اشتہار انگریزی اور اردو میں شائع کروا کر ایشیا، یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے مذہبی لیڈروں، عالموں، مہاراجوں، مصنفوں کو بذریعہ رجسٹری بھجوائے۔
27 نومبر 1885ء کاسورج ڈوبا تو آسمان کی طرف دیکھنے والوں کو فوراََ یہ احساس ہو گیا کہ آج شہاب ِ ثاقب غیرمعمولی طور پر زیادہ گر رہے ہیں اور ان کی شدّت اتنی ہے کہ ان کو پہلے شہابی طوفانوں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ چنانچہ سکاٹ لینڈ میں دیکھا گیا کہ ساڑھے پانچ بجے قریباً 25 شہاب ِ ثاقب فی منٹ گر رہے ہیں۔ شام چھ بجے تک یہ تعداد بڑھ کر ہر منٹ میں سو شہاب ِ ثاقب تک ہو گئی۔چھ بج کر بیس منٹ میں یہ تعداد کم ہوئی پھر یہ تعداد بڑھ کر 70 فی منٹ پر گئی اور پھر آہستہ آہستہ اس تعداد میں کمی آئی۔ بہت سے گرنے والے شہاب ثاقب کی دمیں نظر آتی تھیں اور بعض جلنے کے عمل کے دوران ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہے تھے اور بعض پیچدار شعلوں کا منظر پیش کررہے تھے۔ اسی طرح انگلستان میں بھی غیر معمولی مناظر نظر آئے اور ایک گھنٹہ میں 3600 سے زائد شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے۔
خلائی ادارہ ناسا نے 27 نومبر 1885ء کے حوالہ سے شائع ہونے والے متعدد مضامین انٹر نیٹ پر دیئے ہیں۔ ان میں اُس دَور کی اہم رصد گاہوں کی رپورٹیں بھی شامل ہیں۔
آکسفورڈ کی رصد گاہ کی رپورٹ W. H. Robinson نے قلمبند کی جس میں ساڑھے چھ بجے کے وقت کے بارے میں لکھا ہے: شہاب ثاقب متوازی قطاروں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتے دکھائی دے رہے تھے۔
گلاسگو کی رصد گاہ میں ماہر فلکیات پروفیسر گرانٹ(R.Grant) نے اس نظارہ کے مشاہدات قلمبند کئے۔ ان کے مطابق گلاسگو کی رصد گاہ میں اس نظارے کا مشاہدہ ساڑھے چھ بجے شروع ہوا اور جلد ہی اس کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ اکثر شہا ب ثاقب تو سفید تھے لیکن بڑے شہاب ثاقب بکھرتے ہوئے سرخ اور نارنجی رنگ کا نظارا آسمان پر پیدا کر رہے تھے۔ ایک وقت میں ان کی تعداد 100 فی منٹ تک بھی پہنچ گئی۔ لیکن پروفیسر گرانٹ کے تخمینہ کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی چار گنا زیادہ تھی۔ اتنی زیادہ تیز رفتار سے گرنے والے شہاب ثاقب کو شمار کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ اس وقت ایک انگریز Major Bigg نے کوئٹہ بلوچستان سے بھی اس نظارہ کے بارہ میںرپورٹ بھجوائی۔ آگرہ ہندوستان سے Major G. Strahamنے رپورٹ بھجوائی کہ یہ نظارا 7 بج کر بیس منٹ پر شروع ہوا اور رات ساڑھے گیارہ بجے تک اس کی شدت اسی طرح برقرار رہی۔ رات دو بجے تک یہ نظارا عملاً ختم ہو چکا تھا۔اتنے زیادہ شہاب ثاقب گر رہے تھے کہ ان کا شمار ممکن نہیں تھا۔
سمندر میں سفر کرنے والے لوگوں نے بھی اس تاریخی نظارے کا مشاہدہ کیا اور اپنے مشاہدات قلمبند کر کے اشاعت کے لئے بھجوائے۔ان میں سے ایک جہاز S.S. Dacia کے کپتان بھی تھے ۔یہ جہاز سویز کے قریب تھا اور انہوں نے لکھا کہ رات ساڑھے نو بجے اور دس بجے کے درمیان اس کی شدّت اپنی انتہا تک پہنچ گئی تھی اور ایک منٹ میں 600 سے ایک ہزار تک شہاب ثاقب بھی گرتے دکھائی دیئے۔
اُس دور میں جب کہ شہاب ِ ثاقب کو شمار کرنے کے سائنسی آلات موجود نہیں تھے نیز ایک شمار کرنے والا تو افق کے ایک محدود حصہ میں نا مکمل طور پر ہی ان کو شمار کر سکتا تھا۔ لیکن انٹرنیٹ پر دی گئی A Dictionary of Astronomy اور کئی دیگر ریفرنس کتب کے مطابق 27 نومبر1885ء کو اصل میں ایک گھنٹہ میں تقریباً 75 ہزار شہاب ثاقب بھی گرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
پس یہ ایک نہایت غیر معمولی واقعہ تھا۔
یوں تو تاریخ میں Andromedid قسم کے Meteor Stormکئی مرتبہ آئے ہیں مثلاً 1798ء میں اور 1838ء میں اور اس کے بعد بھی لیکن ان میں ایک گھنٹے میں صرف سو دو سو شہاب ِ ثاقب گرتے ہوئے دکھائی دیئے۔مگر 1885ء کے علاوہ ایک اَور سال ہے جس میں اس قسم کا ایسا شدید Meteor Stormآیا کہ اس میں ایک گھنٹے میں کئی ہزار شہاب ثاقب گرتے ہوئے دکھائی دیئے یعنی آسمان کے چوتھائی حصہ میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کے دوران 13 ہزار سے زائد شہاب ِ ثاقب گرتے دکھائی دیئے۔ یہ 1872ء تھا جو تاریخِ احمدیت میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ سال تھا جب حضرت سلطان القلم کی پہلی تحریر آپؑ کے اپنے نام کے ساتھ دنیا میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں آپؑ کا معمول تھا کہ آپ بعض دوسرے ناموں سے اپنے مضامین شائع کروایا کرتے تھے۔ لیکن آپؑ کے اپنے نام کے ساتھ جو پہلا مضمون شائع ہوا وہ موجودہ تحقیق کے مطابق اگست 1872ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون حضورؑ نے رسالہ ’منشور محمدی‘ میں شائع کروایا تھا۔ گویا یہ سال وہ تھا جب عملاً حضورؑ نے اپنی گوشہ نشینی کی زندگی سے باہر قدم نکالا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ1879ء میں فلکیات کے حساب کی رُو سے بہت زیادہ Andromedid meteor shower متوقع تھا لیکن اس کا مشاہدہ نہیں ہو سکا اور جب 1885ء میں Meteor Shower کا امکان پیدا ہوا تو ماہرین فلکیات نے اس خیال کا اظہار کرنا شروع کیا کہ اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ خلا میں ذرات کی وہ پٹی جس کی وجہ سے اس قسم کے Meteor Showerہوتے ہیں کششِ ثقل کی وجہ سے اپنا مقام تبدیل کر چکی ہے۔
(اس کی تفصیلات بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اگر یہ سوال پیش ہو کہ شہب کا گرنا اگر کسی نبی یا محدث کے مبعوث ہونے پر دلیل ہے تو پھر کیا وجہ کہ اکثر ہمیشہ شہب گرتے ہیںمگر ان کے گرنے سے کوئی نبی یا محدّث دنیا میں نزول فرما نہیں ہوتا ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکم کثرت پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس زمانہ میں یہ واقعات کثرت سے ہوں اور خارق عادت طور پر ان کی کثرت پائی جائے تو کوئی مرد ِ خدا دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے کبھی یہ واقعات ارہاص کے طور پر اس کے وجود سے چند سال پہلے ظہور میں آ جاتے ہیں اور کبھی عین ظہور کے وقت جلوہ نما ہوتے ہیں اور کبھی اس کی کسی اعلیٰ فتحیابی کے وقت یہ خوشی کی روشنی آسمان پر ہوتی ہے۔‘‘
شہابِ ثاقب کےMeteor Strom یا meteor shower کی جو قسم سب سے زیادہ نمایاں نظارہ پیش کرتی ہے وہLeonoid Meteors ہیں۔یہ ایک دمدار ستارے (Comet) جس کا نام Tempet-Tuttle ہے کہ پیچھے چھوڑے ذرّات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔اس دمدار ستارے کے چھوڑے ہوئے ذرّات خلا میں 35 ہزار کلو میٹر چوڑی پٹی میں موجود ہیں اور زمین کی حرکت سے بالکل الٹ سمت پر سفر کر رہے ہیں۔ چنانچہجب زمین کی فضا ان ذرّات کی پٹی سے ٹکراتی ہے تو یہ ذرّات زمین کی فضا سے 71کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ٹکراتے ہیں جس کے نتیجہ میں نہایت روشن شہاب ثاقب نظر آتے ہیں۔
جب بھی اللہ تعالیٰ کسی مامور کومبعوث کرتا ہے تو اس کی تائید میں آسمانی نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں جس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے ساتھ کسوف و خسوف کا نشان ظاہر ہوا، اور ایک سے زائد مرتبہ غیرمعمولی ذوالسنین ستارے ظاہر ہوئے جن میں 1882ء میں (جو کہ الہام ماموریت کا سال تھا ) ظاہر ہونے والا دمدار ستارا بھی تھا جسے لٹریچر میں The Great Comet of 1882کہا جاتا ہے۔ اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے چند روز بعد سائبیریا پر گرنے والا Comet یا Asteroidبھی شامل ہے اور یہ بھی ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ تھا کہ گزشتہ دو سو سال کی ریکارڈ شدہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں