صحابۂ رسول ﷺ کی پاکیزہ تمنّائیں

آنحضرت ﷺ کے بعض اصحاب کی پاکیزہ تمنّائیں اور خواہشات مکرم مسعود احمد سلیمان صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16، 17؍جون 1998ء کے شماروں کی زینت ہیں-
اصحاب صفّہ وہ لوگ تھے جو بسااوقات کئی کئی دن فاقوں میں گزارتے اور نہایت عسرت میں زندگی بسر کرتے تھے، کیونکہ اُن کا مقصود دنیا نہیں تھی بلکہ محض دین اور محمد مصطفیﷺ کی محبت تھی- چنانچہ حضرت ابو فراسؓ ربیعہ جو اصحاب صفّہ میں شامل تھے بیان کرتے ہیں کہ میں بعض دفعہ آنحضورﷺ کے ساتھ رات گزارا کرتا تھا اور آپؐ کی خدمت کرتا- ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا مجھ سے کچھ مانگ- میں نے عرض کی مجھے جنّت میں بھی آپؐ کی رفاقت چاہئے- آپؐ نے پوچھا کوئی اور تمنّا- عرض کیا بس میری تو یہی تمنّا ہے- فرمایا تو پھر میری اس طرح مدد کر کہ بکثرت عبادت کر اور بکثرت سجدے کر-
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ چند غریب صحابہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مالدار مسلمان ہم سے نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں کہ وہ نماز روزہ میں تو ہمارے برابر ہیں لیکن صدقات بھی دیتے ہیں اور غلام بھی آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے- آپؐ نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ بات نہ سکھاؤں جس سے تم اُن کو پالو جو تم پر سبقت لے گئے ہیں اور بعد میں آنے والوں پر بھی فضیلت لے جاؤ سوائے اس کے جو اسی طرح کرے- صحابہ نے بے ساختہ عرض کی ہاں یا رسول اللہ- آپؐ نے فرمایا ’’تم ہر نماز کے بعد 33-33 مرتبہ سبحان اللہ، الحمدللہ ، اللہ اکبر پڑھا کرو‘‘- چند روز بعد یہ صحابہؓ پھر خدمت رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے مالدار بھائیوں کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی ہے اور اب وہ بھی اسی طرح کرنے لگ گئے ہیں- اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا ’’یہ تو خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے‘‘-
تین اصحاب نے ازواج مطہرات سے جب آنحضورﷺ کی عبادت کا حال سنا تو اُن میں سے ایک نے کہا کہ میں آئندہ ساری ساری رات عبادت کروں گا اور نہیں سوؤں گا- دوسرے نے کہا میں سارا سال روزے رکھوں گا- تیسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا اور ساری زندگی عبادت میں گزار دوں گا- جب آنحضرتﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپؐ نے اُنہیں فرمایا ’’میں تم سے زیادہ خدا کا خوف رکھنے والا ہوں- میں رات سوتا بھی ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں- میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں نے شادی بھی کی ہے- جس نے میری سنّت چھوڑ دی وہ مجھ میں سے نہیں ہے‘‘-
کچھ اسی طرح کا حال مسلمان خواتین کا بھی تھا- چنانچہ ایک دن آنحضورﷺ نے مسجد نبوی کے دو ستونوں کے درمیان ایک لٹکتی ہوئی رسّی کے بارے میں دریافت فرمایا تو صحابہؓ نے عرض کیا کہ یہ حضرت زینبؓ کی رسّی ہے، وہ جب رات دیر تک عبادت کرتی ہیں اور تھک کر گرنے لگتی ہیں یا اونگھتی ہیں تو اس سے سہارا لے لیتی ہیں- آپؐ نے فرمایا اسے کھول دو، تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اتنی لمبی نماز پڑھے جس میں بشاشت اور توجہ قائم رہے جتنی اس میں طاقت ہو- جب سستی ہونے لگے یا تھک جائے تو چاہئے کہ سو جائے-
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ آنحضورﷺ کو ایک عورت کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ساری رات عبادت کرتی ہے اور سوتی نہیں-آپؐ نے اُس سے فرمایا کہ تم نوافل اتنے ہی بجالاؤ جتنی تم میں طاقت ہے- خدا کی قسم خدا نہیں تھکتا مگر تم تھک جاتے ہو- اللہ تعالیٰ کو وہی عمل پسند ہیں جن پر دوام اختیار کیا جائے-
حضرت ابن عباسؓ بہت چھوٹی عمر میں صرف اسلئے اپنی خالہ حضرت میمونہؓ کے ہاں سوئے تاکہ رات کو آنحضورﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کرسکیں-
حضرت سعدبن ابی وقاصؓ حجّۃ الوداع کے موقع پر شدید بیمار ہوگئے- آنحضورﷺ آپکی عیادت کے لئے تشریف لائے تو آپؓ نے عرض کیا کہ پتہ نہیں میں اب زندہ رہوں گا یا نہیں، میں مالدار آدمی ہوں اور میری صرف ایک بیٹی ہے- میری دلی تمنّا ہے کہ اپنا دو تہائی مال راہِ خدا میں وقف کروں- آپؐ نے فرمایا یہ زیادہ ہے- انہوں نے نصف پیش کیا- فرمایا یہ بھی نہیں- عرض کی پھر کم از کم ایک تہائی کی اجازت عطا فرمائیں- فرمایا ٹھیک ہے مگر ایک تہائی بھی زیادہ ہے- اگر تو اپنے ورثاء کو اس حالت میں چھوڑے کہ وہ غنی ہوں تو اس سے بہتر ہے کہ وہ محتاج ہوں اور ہاتھ پھیلائیں- جہاں تک اجر کا تعلق ہے تو خدا کی راہ میں جو مال بھی خرچ کرے گا اُس کا اجر پائے گا- حتّٰی کہ اگر اپنی بیوی کے مونہہ میں لقمہ بھی ڈالے گا تو اُس کا بھی اجر پائے گا-
حضرت انسؓ بن نضر غزوہ بدر میں شامل نہ ہوسکے اور بڑی حسرت رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ موقع دے تو جوش و جذبے سے لڑوں گا- جنگ احد میں آپکی تمنّا بر آئی – جب عارضی طور پر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو آپؓ نے اپنے ربّ کے حضور یوں عرض کیا ’’اے اللہ میں ان صحابہ کے رویّہ پر تیرے حضور معذرت کرتا ہوں اور دشمنوں کے رویّے پر بیزاری کا اظہار کرتا ہوں‘‘- یہ کہہ کر آگے بڑھے اور سعدؓ بن معاذ سے کہا ’’اے سعد مجھے میرے ربّ کی قسم ہے کہ مجھے احد کے میدان سے جنّت کی خوشبو آ رہی ہے‘‘- پھر وہ میدان کی طرف چلے گئے اور ایسی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ گویا دشمن پر بجلی بن کر گرتے رہے اور اُس کی صفیں پلٹ دیں- آخر شہید ہوگئے- آپؓ کی نعش مبارک پر 80 سے زائد زخموں کے نشان تھے گویا بدن چھلنی ہوچکا تھا- دشمن نے آپؓ کی نعش کا مثلہ بھی کردیا اور پھر آپؓ کی بہن نے آپؓ کی انگلی کے پور سے آپؓ کو پہچانا-
حضرت خبیبؓ بن عدی کو دشمن نے دھوکے سے گرفتار کیا اور جب اُنہیں مقتل میں لے جایا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آج تو میری دلی تمنّا پوری ہونے کا وقت آگیا ہے- … اگر خدا چاہے تو میرے بدن کے ہونے والے ٹکڑوں کو رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے-
بچوں کو شوق شہادت اس قدر تھا کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب انہیں واپس جانے کا حکم ہوا تو حضرت عمیرؓ بن وقاصؓ ایک بچے تھے اور لشکر میں چھپتے پھرتے تھے کہ اُنہیں بھی چھوٹا کہہ کر واپس بھیج دیا جائے- اچانک آنحضورﷺ کی نظر پڑ گئی اور آپؐ نے اُنہیں واپس جانے کا ارشاد فرمایا تو عمیرؓ رونے لگ گئے، اس پر اُنہیں شمولیت کی اجازت مل گئی اور آپؓ غزوہ بدر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے-
ایک بچے رافعؓ کی سفارش اُن کے والد نے یہ کہہ کر کی کہ رافعؓ تیر اندازی میں مہارت رکھتے ہیں- جب انہیں اجازت مل گئی تو ایک اور بچے سمرۃؓ نے اپنے والد سے کہا کہ میں رافعؓ کو کشتی میں گرا لیتا ہوں- چنانچہ سمرۃؓ کے والد نے سمرۃؓ کی سفارش کی- آنحضورﷺ نے دونوں بچوں کی کشتی کروائی جس میں سمرۃؓ نے رافعؓ کو گرالیا اور اس طرح دونوں میدان جہاد کو روانہ ہوئے- یہی رافع تھے جنہیں میدان احد میں ایسا تیر لگا جو بڑی مشکل سے ان کے جسم سے کھینچا گیا لیکن اُس کی نوک اندر ہی ٹوٹ گئی- آنحضورﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دوں گا کہ تم شہید ہو- چنانچہ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے دوران آپؓ کا یہی زخم ہرا ہوگیا جس کی وجہ سے آپکی وفات ہوئی-
حضرت عمروبن الجموحؓ انصاری لنگڑے تھے اور معذوروں کو اللہ تعالیٰ نے پیچھے رہنے کی اجازت دی تھی- چنانچہ جنگ بدر میں شامل ہونے کی آپؓ کی خواہش اس لئے پوری نہ ہوئی کہ آپ کے بیٹوں نے آپؓ کو نہ جانے دیا- جنگ احد کے موقع پر آپؓ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بیٹے مجھے اب پھر روک رہے ہیں جبکہ میری دلی تمنّا ہے کہ اپنے اسی لنگڑے پن کے ساتھ جنّت میں گھوموں پھروں- چنانچہ آنحضورﷺ نے اُنہیں شمولیت کی اجازت عطا فرمائی اور وہ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے- آنحضورﷺ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے انہیں جنت میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا ہے‘‘-
شہادت کی تمنّا مسلمان عورتو ںکے دلوں میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی- چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم دیکھتی ہیں کہ جہاد افضل ہے، کیا ہم بھی جہاد نہ کریں- آپؐ نے فرمایا نہیں تم پر تلوار کا جہاد فرض نہیں بلکہ تمہارے لئے افضل جہاد حج کرنا ہے-
لیکن ضرورت پڑنے پر بعض خواتین نے جہاد بالسیف میں بھی حصہ لیا اور جام شہادت نوش کیا- حضرت ام حرامؓ بنت ملحان بھی انہی میں سے ایک تھیں- آپ کے ایک بھائی حضرت حرامؓ بن ملحان جب ایک بار دشمن کے نرغہ میں آگئے اور ایک بدبخت نے اس زور سے ان کے سینے پر نیزہ مارا کہ وہ جسم سے پار ہوگیا تو آپؓ نے اپنا بہتا ہوا خون اپنے ہاتھوں میں لے کر اوپر اچھال دیا اور بڑی مسرّت سے یہ پُرجوش نعرہ لگایا کہ ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا-
آنحضور ﷺ حضرت اُمّ حرامؓ بنت ملحان کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے- ایک دن آپؐ اُن کے گھر آرام فرماتے ہوئے سوگئے اور کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے اُٹھے تو اُمّ حرامؓ کے پوچھنے پر فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میری امّت کے کچھ لوگ اللہ کے رستے میں جہاد کی غرض سے سمندری بیڑے پر سوار ہیں اور اس شان سے سوار ہیں کہ جس طرح بادشاہ اپنے شاہی تختوں پر بیٹھے ہوتے ہیں- اس پر بے ساختہ حضرت اُمّ حرامؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کریں اللہ مجھے بھی اسی خوش قسمت گروہ میں شامل کردے- آپؐ نے دعا کی اور پھر سو گئے- ایسا نظارہ تین بار دیکھا اور تینوں بار حضرت اُمّ حرامؓ کے لئے دعا کی اور انہیں خوشخبری دی کہ وہ بھی اُن میں شامل ہوں گی- چنانچہ حضرت عثمانؓ کے دور میں جب پہلا بحری بیڑہ قسطنطنیہ کی طرف بھیجا گیا تو حضرت اُمّ حرامؓ بھی اس میں شامل تھیں- آپؓ وہاں اونٹنی سے گر گئیں اور جام شہادت نوش کیا-
شہداء کی یہ تمنّا بھی تھی کہ وہ ایک بار خدا کی راہ میں اپنی جان پیش کریں تو بار بار انہیں زندگی ملے اور ہر بار وہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوں اور یہ سلسلہ جاری رہے-
حضرت خالدؓ بن ولید وہ صحابی تھے جو میدان جنگ میں شہادت کا جام نوش نہ کرسکے اور پھر جب وہ بستر مرگ پر علیل ہوئے تو روتے ہوئے اُن کی ہچکی بندھ گئی- ایک عیادت کرنے والے نے پوچھا کہ اے اللہ کی تلوار! تو جو میدان جہاد کی کڑی اور مہیب منزلوں میں بھی بے خوف و بے خطر اور بے نیام رہا ، آج موت سے اتنا خائف کیوں ہے؟- آپؓ نے جواب میں فرمایا خالد بن ولید موت سے خائف نہیں ہے بلکہ اس غم سے نڈھال ہے کہ راہ خدا میں شہادت کی سعادت نہ پاسکا- وہ ہر میدان جہاد میں شہادت کی تمنّا لے کر گیا لیکن غازی بن کر لوٹا اور شہادت کا جام نہ پی سکا-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں