محترم ثاقب زیروی صاحب کا خلفاء سے تعلق

جب جماعت احمدیہ کو غیرمسلم قرار دیا گیا تو محترم ثاقب زیروی صاحب نے یوں احتجاج کیا

مَیں فدائے دین ہدیٰ بھی ہوں، درِ مصطفی کا گدا بھی ہوں
میری فرد جرم میں درج ہو میرے سر پہ ہے یہ گناہ بھی

خلافت احمدیہ سے محبت آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ 1939ء کے بعد سے آپ جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعودؓ کی نظم پڑھا کرتے تھے۔ یہ نظم جلسہ سے قبل ڈاک کے ذریعہ آپ کو بھجوادی جاتی۔ جب حضورؓ بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی جو نظم جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھی اس کے چند اشعار ہیں:

تجھ کو دیکھا تو مرے دل کو قرار آ ہی گیا
تیری بیمار نگاہوں میں بھی برکت کیا ہے
تیری دہلیز پہ جھک جھک کے دعائیں مانگوں
اس سے بڑھ کر مجھے طاقت مجھے قدرت کیا ہے
’’ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یا ربّ
آج معلوم ہوا ہے کہ علالت کیا ہے‘‘

جناب ثاقب زیروی صاحب

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ کے ساتھ بھی بہت قربت کا تعلق تھا۔ جبکہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ کے ساتھ ایسا دلی تعلق تھا کہ ایک بار جب ثاقب صاحب کی والدہ اپنی وفات سے چند سال قبل جب ایک بار شدید بیمار ہوئیں اور آپ نے حضور انور کو لندن میں اطلاع دینے کے لئے فیکس لکھی تو یہ سوچ کر پھاڑ دی کہ اس سے حضور کو تکلیف ہوگی۔ دوسرے روز ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ شاید مریضہ کا آخری وقت ہے۔ آپ نے پھر فیکس لکھی مگر یہ سوچ کر پھاڑ دی کہ حضور کو تکلیف ہوگی، اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو صبر کرلیں گے۔ چند روز بعد حضورایدہ اللہ کا خط ثاقب صاحب کو ملا کہ ’’تم خواب میں ملے ہو اور کہہ رہے ہو کہ والدہ کی طبیعت خراب ہے، یہ وقت تھا۔ مَیں نے یہ یہ دعائیں کی ہیں، اب بتاؤ ان کا کیا حال ہے‘‘۔ آپ نے جواباً لکھا کہ یہ تو سنا تھا کہ خط لکھ دیا اور دعا شروع ہوگئی لیکن یہ نہیں سنا تھا کہ خط بھی نہیں لکھا اور دعا ہوگئی۔ فرمایا: یہ تو تعلق کی بات ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں