اداریہ: عبادات میں ارفع مقام رکھنے والی نماز(نمبر2)

اداریہ ’’انصارالدین‘‘ مئی و جون 2022ء

عبادات میں ارفع مقام رکھنے والی نماز

گزشتہ سے پیوستہ
نماز تہجد کی اہمیت اور اس کی برکات کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جس قدر ابرار، اخیار اور راست باز انسان دنیا میں ہوگزرے ہیں، جو رات کو اٹھ کر قیام اور سجد ہ میں ہی صبح کر دیتے تھے کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے اور بڑے بڑے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے؟ نہیں۔ یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کا م ہر گز نہیں ہو سکتے جو روحانی قوت اور طاقت کر سکتی ہے۔ بہت سے انسان آپ نے دیکھے ہوں گے جو تین یا چار بار دن میں کھاتے ہیں… اور نیند ان پر غلبہ رکھتی ہے یہاں تک نیند اور سستی سے بالکل مغلوب ہو جاتے ہیں کہ ان کو عشاء کی نماز بھی دو بھر اور مشکلِ عظیم معلوم دیتی ہے چہ جائیکہ وہ تہجدگزارہوں۔
دیکھو ! آنحضرت ﷺ کے صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعّم پسند اور خورونوش کے دلدادہ تھے جو کفار پرغالب تھے ؟ نہیں یہ بات تو نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی ان کی نسبت آیا ہے کہ وہ قائم اللیل اور صائم الدہر ہوں گے۔ ان کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتی تھیں۔ اور ان کی زندگی کیونکر بسر ہوتی تھی؟ قرآن کریم کی یہ آیہ شریفہ ان کے طریق زندگی کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھاتی ہے:

وَمِن رِباطِ الخَیلِ تُرھبُونَ بہ عَدُوّ اللّٰہ وَعَدُوَّکُم۔ (الانفال:61)

اور

یٰاَیُّھَا الَّذِینَ آمنُوا اصْبِروا وَصَابِرُوا وَرابِطُوا۔ (آل عمران:201)

اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں۔ اے مومنو! صبر اور مصابرت اور مرابطت کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 34-35)
حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ لنگر وال فرماتے ہیں:
’’میں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعود کو دیکھتا آیا ہوں۔ اور سب سے پہلے میں نے آپ کو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔ جبکہ میں بالکل بچہ تھا آپ کی عادت تھی کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے۔اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔ پھرجب صبح کی اذان ہوتی تو سنتیں گھر میں پڑھ کر نماز کے لیے مسجد میں جاتے اور باجماعت نماز پڑھتے۔
میں حضرت صاحب کے پاس سوتا تھا تو آپ مجھے تہجد کے لیے نہیں جگاتے تھے، مگر صبح کی نماز کے لیے ضرور جگاتے تھے۔ اور جگاتے اس طرح تھے کہ پانی میں انگلیاں ڈبو کر اس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے اور پانی سے کیوں جگاتے ہیں۔ اس پر فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے اور فرمایاکہ آواز دینے سے بعض اوقات آدمی دھڑک جاتا ہے۔‘‘ (سیر ت المہدی جلد 3صفحہ20)
حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ کو بالکل نوجوانی میں قادیان آنے اور حضور کی خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اُن کا بیان ہے:
’’اس زمانہ میں حضور کے پاس سوائے د و تین خادموں کے اور کوئی نہ ہوتا تھا۔ پھر بعد میں آہستہ آہستہ دو دو چار چار آدمیوں کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ ان دنوں میں میر ے ایک عزیز دوست حافظ نبی بخش صاحب بھی جن کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی تھی میرے ہمراہ قادیان جا یا کرتے تھے۔ رات ہوتی تو حضرت صاحب ہم سے فرماتے کہ آپ کہاں سوئیں گے۔ ہم حضور سے عرض کرتے کہ حضور ہی کے پاس سو رہیں گے۔ اور دل میں ہمارے یہ ہوتا تھا کہ حضور جب تہجد کے لیے رات کو اٹھیں گے تو ہم بھی ساتھ ہی اٹھیں گے مگر آپ اٹھ کر تہجد کی نما زپڑھ لیتے تھے اور ہم کو خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ ‘‘ (سیر ت المہدی جلد دوم صفحہ 32)
نماز تہجد کب پڑھی جاسکتی ہے؟ اس بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک روایت یوں بیان فرمائی ہے کہ :
’’نماز تہجد کے واسطے آپؑ بہت پابندی سے اٹھا کرتے تھے۔فرمایا کرتے تھے کہ تہجد کے معنے ہیں، سو کر اٹھنا، جب ایک دفعہ آدمی سو جائے اور پھر نماز کے واسطے اٹھے تو وہی اس کا وقت تہجد ہے۔عموماً آپ تہجد کے بعد سوتے نہ تھے۔ صبح کی نماز تک برابر جاگتے رہتے……۔‘‘ (الفضل قادیان 3 جنوری 1931ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی محض اپنے فضل سے نماز تہجد کا عادی بنادے اور توفیق عطا فرمائے کہ ہم رات کی خلوت میں اپنے محبوب خدا کے حضور اس کی مدد اور فضل کے حصول کی دعائیں مانگیں اور ان دعاؤں کی قبولیت کا مشاہدہ کریں۔ آمین

(محمود احمد ملک)

50% LikesVS
50% Dislikes

اداریہ: عبادات میں ارفع مقام رکھنے والی نماز(نمبر2)” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ محترم ملک صاحب
    اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یہ کام تو کرتا ہی ہوں مگر آج وقت کے تعین کا بھی علم ہو گیا ہے.
    جزاکم اللہ احسن الجزاء

اپنا تبصرہ بھیجیں