عربی رسائل کے عرب دنیا پر اثرات

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے صحافت نمبر 2002ء میں جماعت احمدیہ کے عربی رسائل کا تعارف اور اُن کے عرب دنیا پر حیرت انگریز اثرات سے متعلق ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے جو مکرم عبدالمومن طاہر صاحب (انچارج عربک ڈیسک) نے تحریر کیا ہے۔
البشریٰ (کبابیر)
یہ عربی ماہنامہ حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری نے مارچ 1932ء میں جاری فرمایا۔ شروع میں اس کا نام ’’البشارۃ‘‘ تھا جو جنوری 1935ء میں بدل دیا گیا۔ کبھی کبھار اس میں انگریزی مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس رسالہ کے اجراء کے کچھ ماہ بعد اخبار ’’الصراط المستقیم‘‘ نے اپنے تبصرہ میں لکھا : … جناب جالندھری صاحب نے جو کچھ تحریر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ تورات، انجیل اور دیگر صحف انبیاء کا بڑا گہرا علم رکھتے ہیں، آپ کے دلائل نہایت پختہ اور واضح ہیں، یوں لگتا ہے کہ موصوف کو خود خدا تعالیٰ نے عیسائی پادریوں کے مقابلے اور اُن کا جھوٹ پکڑنے کے لئے مقرر فرمایا ہے۔
اسی طرح 1936ء میں اخوان المسلمین جماعت کے ایک رُکن نے لکھا: ’’اس میں شائع ہونے والی تحقیقات آپ کی وسیع معلومات، پختہ ایمان اور مضبوط عقیدہ پر گواہ ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی اشاعت کے پیچھے خدا تعالیٰ سے گہرا اخلاص، نیک نیتی اور سچائی سے گہرا پیار کارفرما ہے اور جو قلم اس کو تحریر کرتا ہے وہ روح القدس سے تائید یافتہ ہے۔
البشریٰ (ربوہ)
یہ سہ ماہی رسالہ جولائی 1958ء سے 1973ء تک جاری رہا۔ اس کے پہلے رئیس التحریر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے۔ مارچ 1959ء سے یہ رسالہ جامعہ احمدیہ کے زیر انتظام شائع ہونا شروع ہوا اور محترم ملک مبارک احمد صاحب اس کے رئیس التحریر مقرر ہوئے۔ ہر رسالہ میں آپ کا نمایاں حصہ ہوتا تھا اور بعض شمارے مکمل آپ کے ہی ترجمہ کردہ مضامین پر مشتمل ہوتے تھے۔
التقویٰ (لندن)
جنوری 1986ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے لندن میں ایک عربی ڈیسک قائم فرمایا تاکہ عرب دنیا میں تبلیغ کے نظام کو وسیع کیا جائے اور عربی میں لٹریچر کو وسعت دی جائے۔ 1988ء میں حضورؒ نے عربی رسالہ ’’التقویٰ‘‘ کے اجراء کی ہدایت فرمائی۔ یہ رسالہ کثرت کے ساتھ عربی بولنے والے احباب کو بھجوایا جاتا رہا اور اس کے بہت بابرکت پھل ملے۔
ناروے میں مقیم ایک غیرازجماعت صحافی ڈاکٹر ابومطر لکھتے ہیں:… آپ نے صحیح اسلامی مؤقف پیش کیا ہے۔ آج بہت سے لوگ دین کے نام پر کئی قسم کی ہلاکت خیز حرکتیں کر رہے ہیں۔ خصوصاً جو آزادیٔ فکر و اجتہاد پر پابندی لگاتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا سب سے بہترین عطیہ عقل انسانی ہے۔
جنیوا میں مقیم ایک لبنانی صحافی لکھتے ہیں کہ مجھے اسلامی لٹریچر میں بہت تضادات اور رخنے نظر آتے ہیں جنہیں سلجھانے کے لئے مَیں نے مطالعہ اور سوچ بچار بہت کیا مگر ناکام رہا۔ پھر ایک پاکستانی احمدی سے ملاقات ہوئی۔ آپ کے پاس قرآن کریم کی مشکل آیات کی نہایت معقول تفسیر ہے۔ اس میں جدید سائنس اور وفات مسیح کے بارہ میں احمدیہ مسلک میں حسین تطابق نظر آتا ہے۔
بیشمار عرب دانشوروں اور علماء نے اس رسالہ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس میں بیان کی جانے والی تعلیمات کو سراہا ہے۔ نائیجیریا کی ایک درسگاہ کے ڈائریکٹر محمود احمد تیجانی لکھتے ہیں: … میرے نزدیک تو احمدی دوسرے مسلمانوں سے بہت بہتر اسلام رکھتے ہیں … مَیں اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ لفظ مسلمان کا سب سے سچا اور حقیقی اطلاق احمدی مسلمانوں پر ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح مختلف ممالک میں قائم درسگاہوں اور لائبریریوں کی طرف سے اصرار کے ساتھ یہ رسالہ اور جماعت کا عربی لٹریچر بھجوانے کے مطالبات کئے جاتے رہے ہیں۔ نیز قارئین نے وضاحت کے ساتھ تحریر کیا کہ اس رسالہ کا مطالعہ کرنے سے وہ اپنے سابقہ حاصل کردہ علم کو بالکل سطحی اور غیرمنصفانہ سمجھتے ہیں اور ایسی حقیقی اسلامی تعلیم سے وہ اب آشنا ہوئے ہیں جسے عقل کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جہاں رابطہ عالم اسلامی والے سعودی عرب، کویت اور مصر کی بعض یونیورسٹیوں میں احمدیت کے خلاف علماء تیار کرکے افریقہ بھجواتے ہیں وہاں ان علماء میں سے اکثر خدا کے فضل سے جلد ہی احمدیت کی آغوش میں آجاتے ہیں اور احمدیت کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سچائی سے محبت کرتے ہوئے یہ اُن تنخواہوں اور مراعات کو ردّ کردیتے ہیں جو رابطہؔ والے انہیں مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح التقویٰ کا مطالعہ کرکے احمدیت قبول کرنے والوں میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے ممالک میں چیدہ چیدہ کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں۔ نیز ایسے بھی ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کرتے ہی احمدیت پر ہونے والے حملوں کے جواب میں اپنے قلم کے جوہر دکھانے شروع کردیئے ہیں۔
ایک عرب ملک کے مفتیٔ اعظم نے جب التقویٰ کے بارہ میں تعریفی خط ارسال کیا جو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں بغرض ملاحظہ پیش کیا گیا تو حضورؒ نے جواباً انہیں تحریر فرمایا: ’’التقویٰ کی وہی قدر کر سکتا ہے جسے تقویٰ کی آنکھ اور تقویٰ کا دل عطا ہوا ہو۔ …‘‘
2000ء سے رسالہ التقویٰ انٹرنیٹ پر بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح بہت سی فوری تبلیغ کی ضرورتیں پوری ہونے لگی ہیں اور اس کے ثمرات بھی احمدیت کی جھولی میں گر رہے ہیں۔
مضمون نگار اپنے مضمون کے آخر میں حضرت الحاج محمد حلمی الشافعی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کی وفات پر فرمایا: ’’ہمارے ایک بہت ہی پیارے بھائی، بہت مخلص اور فدائی انسان، حضرت السید حلمی الشافعی کا وصال ہوگیا ہے… لقاء مع العرب کے متعلق عربوں کی طرف سے جو خط مجھے ملا کرتے تھے اُن میں حلمی شافعی صاحب کے متعلق بڑے تعریفی کلمات ہوا کرتے تھے۔ ان کا اندازِ بیان بہت ہی پیارا تھا اور مَیں اُن سے کہا کرتا تھا کہ مجھے آپ کے ترجمہ کا ایسا مزہ آتا ہے کہ کسی اَور کا نہیں آتا کیونکہ آپ لگتا ہے کہ میری جان میں اُتر کر ترجمہ کررہے ہیں… جس مزاج کے ساتھ مَیں بات کرتا تھا بعینہٖ وہی مزاج ڈال کر ترجمہ کرتے تھے۔… یہ جو خاص ملکہ خدا نے ان کو دیا تھا، اور پھر چہرے پر اسی طرح غم کے آثار، مسکراہٹ، چہرہ کھل اٹھنا، یہ وہ چیزیں تھیں کہ جنہوں نے ترجمے کے مضمون میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے… اور محبت خلافت سے ایسی کہ اس کی مثال کم ملتی ہے… صف اوّل کے مخلص فدائی اور انصار الی اللہ میں سے تھے‘‘۔
تحریری ترجمہ میں بھی آپ کا یہی رنگ تھا کہ گویا حضورؒ کی روح میں ڈوب کر ترجمہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ آپ حضورؒ کے خطبہ جمعہ کے انگریزی ترجمہ سے اُس کا عربی ترجمہ کرتے تھے لیکن آپ کا ترجمہ اردو خطبہ کے زیادہ قریب ہوتا تھا ، حتیٰ کہ اگر حضورؒ نے بعض مقامات پر مترادفات استعمال فرمائے ہوتے تو آپ کے ترجمہ میں بھی بالکل ویسے ہی مترادفات ملتے۔ یہ حیران کن حقیقت اس وقت سامنے آتی تھی جب عربی ترجمہ کو اصل اردو خطبہ سے ملایا جاتا تھا۔
التقویٰ کے ہر شمارہ کا اکثر حصہ اور بعض دفعہ سارا شمارہ ہی آپ کے مقالات اور تراجم پر مشتمل ہوتا۔ لیکن آپکی اصل عظمت اس میں تھی کہ اگرچہ آپ نہایت اعلیٰ پایہ کی تصنیف کرنے پر قادر تھے مگر حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کرام کے ارشادات آپ کو اس قدر مقدم تھے کہ کہا کرتے تھے کہ میرا ضمیر گوارا ہی نہیں کرتا کہ حضور اقدسؑ اور خلفاء کی کتب اور خطبات کا ترجمہ کرنے کی بجائے اپنی طرف سے کچھ تصنیف کروں۔ آپ حیرت کا اظہار کرتے کہ بعض عرب احمدی اپنی کتابیں لکھنے میں مصروف ہیں جبکہ حضور اقدسؑ اور آپؑ کے خلفاء کے ارشادات کا ہزارواں حصہ بھی ہم نے ترجمہ کرکے عرب دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں