عشاق مسیح موعودؑ کا والہانہ جوشِ خدمت

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 27؍جولائی تا 12؍اگست 2021ء – سالانہ نمبر)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍مارچ 2013ء میں حضرت میر سید مہدی حسین شاہ صاحب کے قلم سے ہجرتِ قادیان اور دارالامان کی پاکیزہ فضا میں مجنونانہ خدمت کے دَور کا نقشہ اخبار الحکم 28؍ اکتوبر 1936ء سے منقول ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل فارسی کلام کی شاندار عملی تعبیر بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ؎

مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

حضرت شاہ صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ قادیان میں آنے کے بعد مَیں نے اپنے لیے کوئی کام سوچا۔ اخبار الحکم اور بدر میں تلاش کی، مگر یہ اس وقت مالی مشکلات میں تھے۔ حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی نے مجھے پریس مَین بننے کی ترغیب دی لیکن مَیں نے سوچا کہ قادیان میں رہ کر بھی اگر حضرت اقدسؑ سے دُور رہے تو فائدہ کچھ نہ ہوگا اس لیے حضرت میر ناصر نواب صاحب سے عرض کی کہ حضرت اقدسؑ کی خدمت کسی طرح مل جائے۔ انہوں نے فرمایا:تنخواہ کوئی نہ ملے گی۔ مَیں نے کہا:مجھے تنخواہ کی ضرورت نہیں، خدمت کرنی چاہتا ہوں۔ حضرت موصوف نے ایک بلٹی بٹالہ سے لانے کے لیے حضور اقدسؑ سے مجھے لا کر دے دی اور دو آنے خوراک کے لیے حضورؑ نے خود ساتھ دیے۔ جمعہ کا دن تھا۔ صبح مَیں روانہ ہوا اور ساڑھے چھ بجے کے بعد بلٹی لے کر واپس ہوا۔ راستے میں میرا دل خوشی سے بھرا ہوا تھا کہ حضرت اقدسؑ کی خدمت بجا لا رہا ہوں۔ میں نے بلٹی لا کر میر صاحب کی خدمت میں حاضر کی تو میر صاحب نے فرمایاکہ کیا یکہ پر آئے ہو؟ مَیں نے عرض کی کہ میرے پاس تو یہ دونّی تھی۔ یہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کر دیں اور مَیں نے یہ خدمت محض لِلّٰٰہ کی ہے۔ میر صاحب نے فرمایا: یہ تم کھا لینا۔ مَیں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں مَیں روٹی لنگر سے کھا لوں گا۔
حضرت اقدسؑ کو میرا جلدی آنا پسند آیا اور آئندہ خدمت ملنے کا وعدہ فرمایا۔ مَیں نے ایک نظم کے ذریعے بھی خدمت ملنے کی درخواست کی تھی جس پر مجھے امرتسر سے برف لانے کی خدمت ملتی رہی۔ ایک روز حضورؑ نے مجھے در دولت پر بلوا کر فرمایا:’’میاں مہدی حسین! ہم نے آپ کو برف لانے کے لیے بھیجا۔ آپ برف لائے اور ہم نے گھر میں اور مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی پی، تم کو ثواب ہوا۔ دوبارہ پھر ہم نے بھیجا اور تم لائے۔ سب نے پی۔ تیسری بار تم پھر لائے۔ اب چوتھی بار ہمارا ا رادہ تھا کہ کسی اَور کو بھیجیں (مولوی حافظ غلام محی الدین صاحب کا نام لیا)مگر ہم نے چاہا کہ یہ خدمت بھی ہم آپ کو ہی دیں۔‘‘اس وقت حضرت اقدسؑ کا چہرہ نہایت بشاش تھا۔ میں نے عرض کی کہ حضور چارپائی پر تشریف رکھیں۔ حضورؑ تلطّف سے بیٹھ گئے اور میں پاؤں دبانے لگ گیا ۔ مَیں نے عرض کی حضور!میری تو یہی تنخواہ اور یہی غذا ہے کہ حضور خدمت فرماویں۔ حضوؑر نے فرمایا کہ ’’مَیں اب لوئی لا دیتا ہوں اور آپ برف لینے چلے جائیں‘‘۔یہ معاملہ میرے لیے نہایت خوشکن تھا۔
مجھے لاہور امرتسر جانے کی خدمت ملتی رہی۔ باقی وقت کے لیے میں نے کوئی کام کی فکر کی۔ میر صاحب قبلہ نے ایک روز حضرت اقدسؑ سے خود ہی عرض کی کہ ان کو یعنی مجھے کپڑا دھونے کے لیے صابن، حجامت اور جوتی کی مرمت کے لیے کسی قدر تنخواہ ماہوار ملنی چاہیے۔ حضو رؑنے فرمایا میرے پاس گنجائش نہیں، ایک روپیہ اس وقت لے لو۔ میر صاحب روپیہ لے کر میرے گھرپر پہنچے تو میں نے عرض کی کہ حضور کو آپ یہ تکلیف نہ دیں، مَیں تنخواہ خداتعالیٰ سے لے لوں گا۔
اس کے بعد مَیں نے ضروریات کے لیے خداتعالیٰ کی جناب میں عرض کی تو رات کو دیکھا مَیں میانمیر مشرقی جنوبی ریلوے کی سڑک پر جو اونچی ہے بیٹھا ہوں اور کوئی میرے سر کی طرف سے مجھے کہتا ہے: مانگ کیامانگتا ہے؟ مَیں نے کہا مجھے صرف قادیان میں رہنے کے لیے سات آٹھ روپیہ ماہوار کی ضرورت ہے زیادہ کی نہیں۔ تو اُس نے کہا:ارے خدا سے بھی مانگا تو آٹھ روپے مانگے، جا تجھ کو آٹھ روپے دے دیے۔ مَیں نے جواباً کہا مجھے قاضی عبداللہ کی طرح ساٹھ ستر کی ضرورت نہیں، مَیں مالدار نہیں بننا چاہتا ۔
قاضی عبداللہ صاحب کے والد ماجد نے مجھے یہ فقرہ کہا تھا کہ مَیں چاہتا ہوں میرا بچہ ساٹھ ستر روپے کی نوکری کرسکے اس لیے پڑھاتا ہوں۔ پھر صبح کو میں قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم والد قاضی عبداللہ کے پاس اسی مناسبت سے گیا کہ میں کچھ کام خالی وقت میں کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے سوڈا واٹر کا کام کرنے کی ترغیب دی اور روپیہ بھی مہیا کرنے کو کہا اور ساتھ اپنے بڑے بیٹے قاضی عبدالرحیم صاحب کی شرکت بھی تجویز کی۔ پھر کہا گذشتہ سال جس شخص نے یہ کام کیا تھا اس سے پوچھوکہ کیا منفعت ہوئی تھی!
پھر مَیں اس غرض سے بابو محمد افضل صاحب ایڈیٹر ’’بدر‘‘کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کچھ کام کرنا چاہتے ہو؟ مَیں نے کہاہاں۔ تو کہا میرے پاس منشی کی جگہ خالی ہے۔ مَیں نے کہا تنخواہ کیا ہو گی؟ تو بتلایا کہ آٹھ روپیہ۔ مجھے آگے گنجائشِ کلام نہ رہی۔ ان کے اصرار پر حضرت اقدسؑ کے حضور اطلاعی عریضہ لکھا گیا اور مَیں کام کرنے لگا۔
گورداسپور میں مقدمات کے لیے کتابوں کی ضرورت ہوئی تو مفتی فضل الرحمٰن صاحب نے حضرت اقدسؑ سے رات کو ہمراہ لے جانے کی غرض سے مجھے طلب کیا۔ حضورؑ نے فرمایا ’’میاں مہدی حسین! یہ جنگ کا وقت ہے۔ تم سب کام چھوڑ کر مفتی صاحب کے ساتھ چلے جاؤ۔‘‘ مَیں نے بسروچشم منظور کیا۔ اس کے بعد تین مرتبہ مجھے بلاکر تاکید فرمائی۔ میں نے عرض کی کہ اب حضور کے حکم کے بعد ملکہ وکٹوریہ بھی مجھے منع کرے تو مَیں ہرگز نہ مانوں گا۔ اور میں نے کہا کہ جس وقت بھی مجھے حکم ہو میں ہر طرح تیار ہوں۔
کتابوں کے لے جانے میں ایک کتاب کی کمی تھی جو کہیں سے نہ ملتی تھی۔ میرے دفتر میں ایک نسخہ موجود تھا مَیں نے لا کر پیش کر دیا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور دیر تک میرے نام کے مختلف معنے بیان فرماتے رہے۔ … بعد میں مَیں نے ’’الحکم‘‘ میں کام شروع کیا تو ان سے پہلے یہ شرط کرلی کہ حضرتؑ کا کام مقدّم ہو گا۔
تین چار ماہ کے بعد حضرت اقدسؑ نے مجھے اپنے آستانہ پر چند روز کے لیے بلوالیا مگر مَیں پھر واپس نہیں گیا اور کتب خانہ کا کام حضرتؑ کے حکم سے آخر ایام تک کرتا رہا۔…
الغرض شمع احمدیت کے یہ پروانے حضرت اقدسؑ کے وصال کے بعد عمربھر آپ کی یاد میں ماہی بے آب بنے رہے۔ جونہی اپنے محبوب آقاؑ کا ذکر کرتے تھے اشکبار ہو جاتے تھے۔ اس کیفیت کو حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمایا ہے ؎

چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ
کسی کی یاد میں مَیں ہو رہا ہوں دیوانہ
زمانہ گزرا کہ دیکھیں نہیں وہ مست آنکھیں
کہ جن کو دیکھ کے مَیں ہو گیا تھا مستانہ
وہ جس کے چہرہ سے ظاہر تھا نور ربّانی
ملک کو بھی جو بناتا تھا اپنا دیوانہ
کہاں ہے وہ کہ ملوں آنکھیں اس کے تلووں سے
کہاں ہے وہ کہ گروں اس پہ مثلِ پروانہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں