ایک غیرمبائع عالم کی نصیحت – ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں

مطبوعہ ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ لندن 26؍مئی 1995ء
ماہنامہ اخبار احمدیہ یوکے
رسالہ طارق یوکے
رسالہ انصارالدین یوکے (صدسالہ خلافت نمبر)
احمدیہ گزٹ کینیڈا

ایک غیرمبائع عالم کی نصیحت – ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں

تحریر: محمود احمد ملک

ہر احمدی کو خلافت اور خلیفہ وقت کی ذات سے جو عشق کا تعلق ہے وہ ساری دنیا میں کہیں اَور دکھائی نہیں دیتا اور گو احمدی خاندان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی طرح مجھے یہ عشق وراثت میں بھی ملا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میری زندگی میں بہت سے ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جب دل میں اِس عشق کے حوالہ سے نہایت عجیب کیفیت پیدا ہوگئی جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ جس وجود کو بھی اس منصب جلیلہ پر فائز فرماتا ہے، دنیا میں اُس کے ظاہری مقام اور روحانی استعدادوں میں غیرمعمولی ترقیات بھی عطا فرماتا ہے اور اس کی محبت دلوں میں بٹھا دیتا ہے۔
ایک واقعہ جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ خلافت کے نتیجہ میں خداتعالیٰ نے احمدیوں پر جو افضال نازل فرمائے ہیں، اُنہیں وہ لوگ کس طرح دیکھتے ہیں جو اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہیں۔ یہ واقعہ خاکسار نے 1995ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا تھا اور پھر حضورؓ کے ارشاد کی روشنی میں اسے الفضل انٹرنیشنل، اخبار احمدیہ یوکے، رسالہ طارق یوکے، رسالہ انصارالدین (صدسالہ خلافت نمبر) اور احمدیہ گزٹ کینیڈا سمیت متعدد اخبارات و رسائل کی زینت بنایا گیا۔
1987ء میں جب خاکسار لاہور میں زیرتعلیم تھا اور وہاں احمدیہ ہوسٹل ’’دارالحمد‘‘ میں قیام تھا تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ’’لاہوری جماعت ‘‘ کے پاس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو تبرکات موجود ہیں، اُن کی زیارت کی جائے۔ چنانچہ ہوسٹل کے قریب ہی واقع غیرمبائعین احمدیوں کے مرکز ’’دارالسلام‘‘ میں پہنچا۔ وہاں کئی ممتاز افراد سے میری ملاقات ہوئی جن میں (سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے) جناب عبدالمنان عمر صاحب بھی شامل تھے۔ لیکن خاکسار کا مستقل رابطہ جس شریف النفس دوست کے ساتھ تھا وہ وہاں کی مرکزی لائبریری کے انچارج تھے اور جن کا نام غالباً قاضی عبدالاحد صاحب تھا۔ وہ وہاں کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے تھے۔ لمبے عرصہ سے لاہوری جماعت میں شامل تھے اور نسبتاً بہت معقول آدمی تھے۔ میرا زیادہ تر وقت قاضی صاحب کے پاس لائبریری میں ہی گزرتا۔ اکثر اُن کے ساتھ بہت ہی دلچسپ گفتگو ہوا کرتی۔ ایک روز جب ہم دونوں ان کے قبرستان کے ساتھ سے گزرے تو میں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا بہشتی مقبرہ ہے- موصوف نے بتایا کہ ان کے پاس بہشتی مقبرہ نہیں ہے- میں نے عرض کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں رسالہ الوصیت میں دو بشارتیں دی تھیں- ایک خلافت کی اور دوسری بہشتی مقبرہ کی- اور آپ نے ان دونوں کو قبول نہیں کیا-
اسی طرح ایک روز اُن کے پاس لائبریری میں ہی بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں ایک ایسے صاحب بھی آگئے جنہوں نے یہ معلوم ہوتے ہی کہ مَیں ربوہ سے آیا ہوں، نہایت دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدکلامی شروع کی اور سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی سے متعلق تو خصوصاً بکواس کی انتہا کردی۔ میرے لئے یہ صورتحال بڑی عجیب تھی۔ قاضی صاحب نے اُن سے بارہا خاموش ہوجانے کے لئے کہا اور بار بار یہ بھی کہا کہ ایسا کلام کرنا ہماری تعلیم نہیں ہے اور یہ بہت ہی زیادتی ہورہی ہے، نہ صرف ایک مہمان کے ساتھ بلکہ اُن لوگوں (یعنی خلفائے کرام) کے ساتھ بھی جو یہاں موجود ہی نہیں ہیں اور خدا کو پیارے ہوچکے ہیں…۔ بہرحال جب قاضی صاحب کی ساری کوششیں اُن صاحب کو خاموش نہ کرواسکیں تو مَیں اُٹھ کر دوسری طرف چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اُس شخص کو (غالباً جبراً) رخصت کرکے قاضی صاحب میرے پاس تشریف لائے اور بہت معذرت کرنے لگے۔ تب مَیں نے اُن سے کہا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران میرے مشاہدہ کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ کے اکثر ساتھی محض ذاتی تعصب اور شدید بغض کے نتیجہ میں ہمارے خلفائے کرام کے بارہ میں بدزبانی کرتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ جس کسی کے خلاف جس خلیفہ کے زمانے میں کوئی تعزیری کارروائی کرتے ہوئے اخراج کی سزا ہوئی تو وہ اُسی خلیفہ سے ذاتی دشمنی میں بڑھنے لگا اور بدزبانی کرنے لگا۔
مَیں نے کہا کہ ان لوگوں کی بد زبانی کا معاملہ تو مَیں اللہ تعالیٰ پر ہی چھوڑتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب تک میں آپ کے پاس صرف اس لئے آتا رہا ہوں کہ ہماری بحث علمی بنیادوں پر تھی۔ لیکن آج حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے بارے میں جو الفاظ آپ کے چند دوستوں نے آپ کے سامنے کہے ہیں، مَیں آئندہ آپ کے پاس بھی نہیں آؤں گا۔ لیکن آخری بار آپ سے صرف یہ پوچھتا ہوں کہ کیا یہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ تعلیم ہے جس کی طرف آپ مجھے اور دوسرے احمدیوں کو بلاتے ہیں؟۔
میری بات سن کر وہ بہت شرمندہ ہوئے اور اگرچہ انہوں نے مجھے آئندہ آنے کے لئے تو نہیں کہا لیکن یہ ضرور کہنے لگے کہ ’’میں نے تو کبھی ایک لفظ بھی آپ کے بزرگوں کے خلاف نہیں کہااور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آجائیں اور آپ نے ہمیں جو باتیں بھی بتائی ہیں وہ سب درست ہیں‘‘۔
مَیں نے اُن کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، اُس کا تو یہی مطلب ہوا کہ دل سے آپ بھی یہی جانتے ہیں کہ حقیقی احمدیت کا مرکز ربوہ میں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’یہ تو میں نہیں کہہ سکتا۔ … لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ کا تعلق جس طرف اب ہے، آئندہ بھی اُسی طرف رہے‘‘۔
مَیں ابھی اُن کے فقروں کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ’’ اصل میں تو احمدیت اور حضرت مسیح موعودؑ کا نام ہی ہے جو ہم دونوں لیتے ہیں‘‘۔
مَیں نے عرض کیا کہ آپ کا شمار لاہوری جماعت کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے اور آپ یہاں پر امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، یہاں کے سب لوگ آپ سے نہایت محبت اور عزت سے ملتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مَیں دراصل آپ کی نسبت احمدیت کی حقیقی تعلیم کے زیادہ قریب ہوں، تو پھر آپ بھی کیوں ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوجاتے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میری بہت سی مجبوریاں ہیں جو میں ہی جانتا ہوں۔ تیس سال سے یہاں ہوں۔ (پھر انہوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے اور اپنی بعض دیگر ذاتی مجبوریوں کا ذکر بھی کیا)۔
تب مَیں نے پوچھا کہ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ آپ مجھے یہ نصیحت کررہے ہیں کہ مَیں جہاں ہوں، وہیں رہوں۔
اس پر قاضی صاحب نے بڑے تأسف اور کرب کے ساتھ (جس کا شدید اظہار ان کے چہرے سے عیاں تھا) یہ جواب دیا کہ:’’آپ کے پاس خلافت ہے اور ہم اس سے محروم ہیں‘‘۔
قاضی صاحب کی یہ بات سن کر خوشی سے میرے جذبات قابو میں نہ رہے۔ کیونکہ دراصل یہی تو وہ نتیجہ تھا جس تک پہنچنے کے لئے گھنٹوں ہماری بحث ہوا کرتی تھی۔ پھر مَیں نے ان سے کہا آپ یقینا درست فرما رہے ہیں لیکن اب براہ کرم یہ بھی بتا دیں کہ آپ خلافت کو کیوں مقدّم سمجھتے ہیں۔ اور ایسا کیا ہے جو خلافت نے ہمیں دیا ہے اور آپ اُس سے محروم ہیں۔ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ: ’’خلافت نے آپ کو جو جرأت دی ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔اور باوجود ضیاء الحق کے آرڈیننس کے بھی آپ لوگوں نے اپنی تبلیغ اور دوسری سر گرمیوں میں کمی نہیں کی بلکہ آپ کے خلیفہ صاحب نے ہر مشکل وقت میں ایسا فیصلہ کیا ہے جس نے آپ کی جماعت کے بچے بچے کو ہر قسم کی مشکل کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت دی ہے۔۔۔۔‘‘۔
پھر مَیں کچھ دیر اُن سے مزید باتیں کرتا رہا اور مجھے یہ معلوم کرکے نہایت درجہ مسرّت ہورہی تھی کہ ایک شریف النّفس غیرمبائع کے نزدیک خلافت کا کیا مقام ہے اور خلیفۂ وقت کا وجود کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
کچھ دیر بعد میرے یہ پوچھنے پر کہ مذکورہ بالا نتیجہ تک پہنچنے کے پس منظر میں کونسا ایسا واقعہ یا حقیقت ہے جسے وہ فراموش نہیں کرسکتے، محترم قاضی صاحب نے اپنا ایک واقعہ بھی بیان کیا۔ وہ کہنے لگے کہ 1974ء میں احمدیوں کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے فسادات کے دنوں میں اُنہیں راولپنڈی کی احمدیہ مسجد نُور (مری روڈ) کے قریب ہی کسی جگہ (اندرونِ محلہ) جانا تھا۔ لیکن وہ تنگ گلیوں میں سے گزرتے ہوئے، احمدیہ مسجد کے قریب پہنچ کر راستہ بھول گئے اور کوشش کے باوجود بھی مسجد کو تلاش نہ کرسکے۔ کسی دوسرے شخص سے اس لئے ’’احمدیہ مسجد‘‘ کے بارہ میں نہیں پوچھا کہ کہیں وہ احمدیت کا ایسا دشمن نہ نکل آئے کہ اِن کے لئے مصیبت کھڑی کردے۔ لیکن جب تلاش کرتے ہوئے تھک گئے تو ایسے میں ان کی نظر ایک دس سالہ بچے پر پڑی۔ انہوں نے اُسے اکیلا دیکھ کر پوچھا کہ ’’بیٹے! یہاں مرزائیوں کی مسجد کہاں ہے؟‘‘ اس پر بچے نے پوچھا: ’’کیا آپ احمدی ہیں؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ مَیں نے سوچا کہ ہوں تو احمدی ہی لیکن کہیں یہ بچہ شور کرکے مجھے پکڑوا نہ دے۔ اس لئے فوراً جھوٹ بول دیا اور کہا ’’ نہیں‘‘۔ تب اُس بچے نے کہا: ’’میں احمدی ہوں، آئیے میں آپ کو اپنی مسجد میں لے جاتا ہوں‘‘۔
اور پھر وہ بچہ انہیں اپنے ساتھ لئے مسجد کی طرف چلنے لگا۔ ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں کچھ چلنے کے بعد اُس نے دُور سے ہی احمدیہ مسجد کی نشاندہی شروع کردی۔ تب قاضی صاحب نے اُسے کہا کہ تم اب واپس جاؤ، آگے میں خود ہی چلا جاؤں گا۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد قاضی صاحب بڑے دُکھ سے کہنے لگے کہ: ’’اُس بچے کی جرأت آج آپ کی ساری جماعت میں نظر آتی ہے اور ہم اس سے محروم ہیں۔ اس لئے میں دل سے آپ کو کہتا ہوں کہ ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکات سے فیضیاب فرماتا چلا جائے- آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں