فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بیگم زبیدہ بانی ونگ کا آغاز

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍فروری 2003ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے فضل عمر ہسپتال ربوہ میں لفٹ سمیت جدید آلات و سہولیات سے آراستہ نئے شعبہ ’’بیگم زبیدہ بانی ونگ‘‘ کے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔
فضل عمر ہسپتال ربوہ کا سنگ بنیاد 20؍فروری 1956ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے رکھا۔ حضورؓ نے تین اینٹیں نصب فرمائیں جن میں سے ایک قادیان سے لائی گئی تھی۔ ایک بکرا صدقہ بھی دیا گیا۔
ہسپتال کی عمارت (آؤٹ ڈور، ایکسرے، لیبارٹری اور دو وارڈز) کا افتتاح حضورؓ نے 21؍مارچ 1958ء کو فرمایا۔ اس موقعہ پر حضورؓ نے مسجد یادگار کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور مسجد مبارک قادیان کی ایک اینٹ نصب فرمائی۔ 1958ء سے 1983ء تک حضرت صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر رہے۔
آغاز میں شعبہ گائنی کی سربراہ محترمہ ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ (LSMF) تھیں جو 1959ء میں ریٹائرڈ ہوئیں۔ محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ (MBBS) نے خدمات کا آغاز 1965ء میں کیا اور 19؍سال خدمت کی توفیق پائی۔ محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ (FRCOG) نے 1985ء سے اس شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے کئی اہم اقدامات کئے ہیں۔
اپریل 2000ء میں مکرم شریف احمد بانی صاحب کی اس درخواست کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے قبول فرمایا کہ وہ اپنی والدہ محترمہ زبیدہ بانی صاحبہ کی یاد میں ہسپتال میں ایک نیا یونٹ تعمیر کرائیں۔ قبل ازیں بھی ہسپتال میں ایک بلاک اور بعض کمرے اس خاندان کی مالی معاونت سے تعمیر ہوچکے ہیں۔ نئے یونٹ کا نقشہ رضاکارانہ طور پر احمدی آرکیٹیکٹ مکرم پروفیسر محمد طارق صاحب نے بنایا۔ اگست 2001ء میں تعمیر کا آغاز ہوا اور اٹھارہ ماہ میں تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ تین منزلہ بلاک 40؍ ہزار مربع فٹ مسقّف حصہ پر مشتمل ہے۔ ربوہ کی یہ پہلی عمارت ہے جو مکمل طور پر Frame Construction پر بنائی گئی ہے۔ بجلی کا انتظام اس طرح کیا گیا ہے کہ پچیس فیصد بچت متوقع ہے۔ ربوہ کی پہلی عمارت ہے جس میں لفٹ کی سہولت ہے۔ زیادہ تر مشینری بیرونی ممالک سے درآمد کی گئی ہے۔ یہ شعبہ الٹراساؤنڈ، Colposcopy اور بہت سی جدید سہولیات سے مزین ہے۔ ایک آپریشن تھیٹر اور چار لیبر رومز یہاں بنائے گئے ہیں۔ چھوٹے بڑے متعدد شعبہ اس ونگ میں قائم ہیں۔ وارڈ میں 36 مریضوں کی سہولت ہے جبکہ یونٹ میں مجموعی طور پر 60؍مریضوں کی گنجائش ہے۔ ہسپتال میں پہلی بار سینٹرل آکسیجن پلانٹ بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ اس شعبہ میں ریکارڈ کو منظم طریق پر رکھنے کے لئے کمپیوٹر استعمال ہوگا۔
اسی شمارہ میں مکرم شریف احمد بانی صاحب اس ونگ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میرے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب اور محترمہ بیگم زبیدہ بانی صاحبہ اور خاکسار کو 1972ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی تو مکہ میں کسی نے ذکر کیا کہ پہلے مکہ میں پانی کی سخت قلّت ہوا کرتی تھی کہ بغداد کی ملکہ زبیدہ نے پانی کی فراہمی کے لئے ایک نہر بنائی جو ’’نہر زبیدہ‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ سن کر میرے والد نے والدہ سے کہا کہ نام تو تمہارا بھی زبیدہ ہی ہے، کیا تم نے بھی رفاہ عامہ کا کوئی ایسا کام کیا ہے۔ تب والدہ محترمہ نے خاص طور پر خانہ کعبہ میں جاکر ایسے کسی کام کے لئے دعا کی۔ 1974ء میں والد صاحب کی وفات ہوگئی۔ والدہ رفاہ عامہ میں بے دریغ خرچ کرتی تھیں۔ میرے والدین کو قادیان کے درویشوں کی خدمت کا بھی عشق تھا۔
گزشتہ تیس سال سے والدہ صاحبہ میرے پاس کراچی میں ہی قیام رکھتی تھیں، 1996ء میں کلکتہ گئیں تو شدید بیمار ہوگئیں، ستمبر 2001ء میں کلکتہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍فروری 2003ء کے مطابق 20؍فروری 2003ء کو ’’بیگم زبیدہ بانی ونگ‘‘ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب امیر مقامی و ناظر اعلیٰ تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں