قبولیت دعا کا اعجازی نشان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 اکتوبر 2010ء میں مکرم افتخارالحق خان صاحب ایڈووکیٹ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں قبولیت دعا کے اس اعجازی نشان کو بیان کیا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے درندہ صفت اغواکاروں سے ان کو قریباً 20 روز بعد رہائی عطا فرمائی۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں جب قید تنہائی میں تھا تو دل میں یہ خیال آتا تھا کہ اگر کبھی مجھے اپنے حالات بیان کرنے کا موقع ملے گا تو میں جو بات بھی بیان کروں تو اس میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حمد ہو گی۔
19مارچ 2010ء کی صبح تقریباً 8 بجے مَیں عدالت کے لئے تیار ہو کر اور اپنے تینوںبچوں کو سکول چھوڑنے کے لئے نکلا ہی تھا کہ یکدم ایک سوزوکی میری گاڑی کے سامنے آ کر رکی اور 2افراد بمع کلاشنکوف اترے، میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور مجھے گاڑی کے اندر دھکیلتے ہوئے میری جیب سے سب کچھ نکال لیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
اغوا کاروں نے مجھے جب اپنے ٹھکانے پر پہنچایا تو پوچھا کہ تم قادیانی ہو؟ مَیں نے کہا کہ میں احمدی ہوں۔ پھر پوچھنا شروع کیا کہ تم لوگ لٹریچر تقسیم کرتے ہو اور لوگوں کو قادیانی بناتے ہو۔ اس پر مَیں نے ان کو جماعت کے عقائد کے بارہ میں بتایا تو وہ کہنے لگے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ سلسلہ شروع کے تین چار دن تک جاری رہا اور ساتھ ہی مجھ پر ہنٹر اور مکّوں اور تھپڑوں کے ساتھ سختی بھی کرتے تھے۔
کوئٹہ کے حالات چونکہ کافی خراب تھے اس لئے مَیں نے اپنے بٹوہ میں بلوچستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان کے ساتھ اپنی ایک تصویر رکھی ہوئی تھی جو کسی اخبار میں چھپی تھی۔ خیال یہی تھا کہ شاید کبھی حفاظتی نقطۂ نظر سے کسی کو دکھانی پڑ جائے۔ جب مجھ پر اغوا کاروں نے سختی کی تو مَیںنے اُن کو کہا میرے بٹوے میں میری تصویر تمہارے فلاں سردار کے ساتھ ہے جس سے میرا اچھا تعلق تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وہ تصویر دیکھی ہے اس میں تم نہیں ہو اور وہ تصویر ہم نے پھاڑی دی ہے۔ اُس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو دنیاوی بُت تھا اور صرف خدا ہی ہے جو ساتھ دیتا ہے اور وہی ہمارا اصل آسرا اور سہارا ہے۔
وہاں مجھے ہلکی آواز میں اور مختصر بات کرنے کی اجازت تھی۔ اغواکار مجھ سے قبل لوگوں کو اغوا کرکے تشدّد کرنے کے بعد جان سے بھی مارچکے تھے اس لئے میں ہر وقت موت کے لئے بھی تیار تھا۔ مجھے ہتھکڑیوں میں قریباً بیس دن آنکھیں بند کرکے رکھا گیا۔ تب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے مجھے اپنی نیند سلایا اور ناامیدی کی حالت میں بھی مجھے مختلف طریقوں سے زندگی کی امید دلاتا رہا۔ مثلاً وہی ظالم لوگ ایک روز میرے لئے Mineral Water لائے اور کہا کہ ہم نے اس کی Seal نہیں کھولی کہ تم شک کرو گے۔ کبھی مجھے کیلا کھلاتے کہ تمہارے ہاضمہ کے لئے اچھا ہے اور پھر اگر میں کھانا نہ کھاتا تو مجھے کہتے کہ تم کھانا کھایا کرو ورنہ کمزور ہو جاؤ گے۔کسی روز مجھ سے پوچھتے کہ کب اور کیسا قہوہ پیوگے؟ اسی طرح کبھی کبھار اپنے گھریلو مسائل بھی بتاتے۔ مَیں جب انہیں دعا دیتا تو وہ کہتے کہ ہمیں دعا نہیں بددُعا دو، ہم تمہیں تمہارے بچوں کے سامنے اٹھا کر لائے ہیں۔ مَیں کہتا کہ مَیں تو رسول کریمؐ کا ماننے والا ہوں اور طائف کا واقعہ بھی انہیں سنایا کہ اتنی شدید تکالیف کے باوجود آپؐ نے دعا ہی دی تھی تو میں کیسے تمہارے لئے بددعا کر سکتا ہوں!۔ مَیں اُنہیں کہتا کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بیشمار ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اور یہ کہ تمہارے ساتھ کوئی واقعہ ہوا ہو گا جس کی وجہ سے تم اس برے کام میں پڑ گئے ہو۔ پھر جب اُنہیں کہتا کہ مجھ سے پیسے ضرور لو لیکن پھر رزق حلال والا کام شروع کرنا۔ تو وہ کہتے کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا نے ہماری روزی اسی کام میں رکھی ہے۔ پھر میری باتوں پر ہنستے۔ مجھے نماز نہ پڑھنے دیتے اور کہتے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تم بھی نہ پڑھو۔
مجھے کوئی علم نہ تھا کہ مجھے کس مقام پر رکھا گیا تھا اور باہر کے کیا حالات تھے۔ مَیں دنیا سے مکمل طور پر کٹا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے ریکارڈنگ کروا کر میرے گھر والوں پر پریشر ڈالتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ جو لوگ تمہارے ساتھ پیسوں کے حوالے سے تعاون کرسکتے ہیں اُن کے نام بتاؤ۔ یہ بھی کہتے کہ لندن میں جو تمہارے سربراہ ہیں اُن سے بھی پیسہ منگواؤ۔ مَیں کہتا کہ ہم تو خدا کی راہ میں چندہ دینے والی جماعت ہیں۔
مجھے صبح کے وقت دو تین رَس اور قہوہ ملتا تھا اور صرف رات کو کھانا جس میں آدھی روٹی اور تھوڑا سا سالن ہوتا تھا۔ رات کو میرے ہاتھ بندھے ہوتے تھے اورآ نکھیں بھی۔ زمین پر ایک نائلون کی چٹائی پر ٹھنڈی اور بدبودار دلائی اور سخت پتھر سے تکیہ پر مجھے سلایا جاتا۔ سخت قسم کی دھمکیاں انگلی کاٹ دینے کی اور جان سے مار دینے کی دی جاتیں۔ ان حالات میں اگر خدا تسلّی نہ دے تو یقینا کوئی بھی شخص چاہے کتنا بھی ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط ہو، وہ سو نہیں سکتا۔ پھر کمرہ بھی ایسا تھا جس میں ہر طرف سے ہوا آتی تھی اور موسم شدید سردی کا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ پیار کا سلوک فرمایا کہ مَیں 19 دن اپنی بھرپور نیند سویا اور سخت تکالیف کے باوجود ذہنی طور پر مضبوط رہا۔ مجھے خیال آتا تھاکہ انہی لوگوں نے ہمارے ایک بہت پیارے اور مخلص احمدی دوست کو اغوا کرکے ایک ماہ بعد شہید کردیا تھا۔
19ویں روز اغواکار میرے پاس دن کے وقت آئے اور مجھے کہا کہ ہم آج تمہیں ماردیں گے اور تمہاری لاش تمہارے گھر والوں کو مل جائے گی۔ وہ لمحہ میری زندگی کا بہت ہی انوکھا تجربہ تھا۔ میرا سارا جسم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک شدید تکلیف میں مبتلا ہو گیا۔ مَیں اپنے خدا سے کہتا تھا کہ میرے پیٹ میں درد ہے اور نہ بخار اور نہ ہی میری انگلی کٹی ہوئی ہے پھر یہ تکلیف کیسی!۔ پھر مجھے خیال آیا کہ واقعی خدا کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے اور اس وقت نہ مجھے اپنی ماں اور نہ ہی اپنے بیوی بچے اور نہ ہی بہن بھائی یاد آ رہے تھے اور مَیں محسوس کرتا تھا کہ یہ تکلیف اتنی سخت ہے تو قبر کا عذاب کتنا سخت ہو گا اور پھر دوزخ کی سزا بھی بہت سخت ہو گی۔
جب مغرب کی اذان ہوئی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ ایک دَم ایک بہت ہی پیار اور رحم کا سلوک کیا اور مجھے ایسے سکون ملنا شروع ہو گیا جیسے مَیں امن میں آگیا ہوں ۔ اسی دوران اغوا کار اندر آ ئے اور اچانک مجھے کہاکہ ہم تمہیں چھوڑ رہے ہیں۔ پھر مجھے کسی جگہ لاکر انہوں نے کچھ پیسے دیئے کہ یہ رکشہ کا کرایہ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ 5منٹ بعد آنکھوں سے پٹی اتار دینا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا، کچھ دیر سیدھا چلنے کے بعد ایک سڑک آئے گی، تم رکشہ لے کر اپنے گھرچلے جانا۔
جب مَیں گھر پہنچا تو ہر طرف اللہ تعالیٰ کے شکر اور حمد کا شور پڑ گیا اور سب خدا کے آگے سجدہ ریز ہو گئے۔ مجھے حضور ایدہ اللہ اور دنیابھر میں ہونے والی دعاؤں کا علم ہوا۔ میری بہن نے مجھے بتایا کہ میری ماں نے 20 دن تک بستر نہ دیکھا تھا اور اپنے خدا کے حضور دعاؤں میں ہی لگی رہی تھیں۔ یقینا یہ دعائیں ہی تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قبول فرمایا۔ الحمدللہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں