قبول احمدیت کی داستان

سہ ماہی رسالہ ’’مجاہد‘‘ کے شمارہ Winter (موسم سرما) 2009 ء میں مکرم نوید ملک صاحب ایک 23سالہ عرب نوجوان مکرم حانی محمد صاحب کی قبول احمدیت کی داستان اُن کی ہی زبانی بیان کرتے ہیں۔
مکرم حانی محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وہابی ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا لیکن کچھ چیزیں جو مجھے سکھائی جاتیں اُن کا انکار کرتا، ایک دفعہ میں نے اپنے استاد سے پوچھا کہ قرآن کریم میں ہر جگہ تَوَفّی کا معنی فوت ہونا ہے لیکن حضرت عیسیٰ کے لئے ایسا کیونکر نہیں؟ لیکن مجھے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ ایک دفعہ مَیں نے ایک غیر احمدی دوست سے احمدیت کے خلافت نازیبا کلمات سنے۔ چنانچہ میں جماعت کی عربی ویب سائٹ پر احمدیت کے بارے میں پڑھنے لگا،اور انٹرنیٹ پر ایم۔ٹی۔اے العربیۃ بھی دیکھا۔ میں یہ جان کر چونک گیا کہ مجھے احمدیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں اور یہ ایسی جماعت ہے جس کو کٹر ملاّں غلط طور پر پیش کرتے ہیں۔اس کے بعد مَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ پڑھی تو حضورؑ کی عربی زبان پر دسترس پر بھی حیران ہوا۔ پھر مَیں نے ایک خواب میں دیکھا کہ مَیں نے گھوڑے کی لگام سنبھالی ہوئی ہے اور اپنے شہر رشید سٹی کے لوگوں کی راہنمائی کر رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ ’’لوگو! دیکھو یہ مسیح اور اِس پر ایمان لاؤ‘‘۔ اس خواب کے بعد مَیں نے 2نومبر 2007ء کو بیعت کر لی۔
اپنے شہر واپس جانے پر مَیں نے قبول احمدیت سے متعلق اپنی فیملی کو اور ایک دوست کو بتایا تو اُس دوست نے شہر بھر میں اس کی تشہیر کی اور اس طرح ہر جگہ مَیں چہ میگوئیوں کا مرکز بن گیا۔ لیکن اسی دوران میرا 25سالہ دوست حسن میرے پاس آیا تواُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ وہ بھی احمدیت قبول کر چکا ہے۔ اب ایک ہفتے کے دوران رشید سٹی میں دو احمدی ہوچکے تھے۔ مَیں نے حسن صاحب سے کہا کہ اپنی احمدیت کا ابھی اعلان نہ کریں لیکن اُن کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ حسن صاحب کے بھائی ایک کٹر قسم کے وہابی تھے جنہوں نے ساری فیملی کو حسن کے خلاف کردیا اور باپ کو بھی اتنا مجبور کیا کہ اُنہوں نے حسن کو خط لکھ کر کہا کہ وہ گھر سے چلے جائیں اور جائیداد سے بھی عاق کر دیا۔ چنانچہ حسن گھر سے بے دخل ہوگئے۔
میرے قبول احمدیت کے بارہ میں سن کر ایک ستائیس سالہ دوست میرے پاس آئے اور پوچھا کہ ’’کیا آپ نے ایسے شخص کو مانا ہے جو امام مہدی کا دعویٰ کرتا ہے‘‘۔ میرے مثبت جواب پر انہوں نے پوچھا کہ ’’مجھے بتاؤ کہ وہ دجال کے بارہ میں کیا کہتا ہے‘‘۔ میں نے جب انہیں بتایا تو وہ کہنے لگے کہ وہ بھی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر میرے ایک ہمسائے بیس سالہ محمد نے مجھ سے بات کی اور احمدیت قبول کرلی۔ اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں شہر میں ہم چار احمدی ہوگئے۔
مجھے مشکلات کا سامنا بھی ہورہا تھا، چنانچہ ایک رات دروازہ پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولنے پر پتہ چلا کہ خفیہ پولیس ہے جو مجھے پولیس سٹیشن لے گئی۔ میں نے سمجھا کہ شاید میرے ویزے کے متعلق استفسار کریں گے لیکن وہاں جانے پر انہوں نے کہا کہ ’’آپ احمدیت کی تبلیغ نہ کریں‘‘۔ مَیں نے کہا ’’میں تبلیغ نہیں کررہا لیکن جب لوگ میرے مذہب کے بارے میں پوچھنے آتے ہیں تو میں اپنے دفاع میں احمدیت کی تعلیم پیش کرتا ہوں، اس پر اگر کوئی احمدیت قبول کرلے تو میں کیا کرسکتا ہوں‘‘ ۔
کچھ عرصہ پہلے کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں قاہرہ آکر اکاؤنٹنگ میں ملازمت اختیار کرچکا ہوں لیکن بہتر ملازمت کی خاطر اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں جبکہ تبلیغ یہاں بھی جاری ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں