قبول احمدیت کے ایمان افروز واقعات

مجلس انصاراللہ جرمنی کے سووینئر 2000ء میں مکرم مولانا عبدالسلام طاہر صاحب کے قلم سے قبول احمدیت کی سعادت حاصل کرنے والوں کے بعض ایمان افروز واقعات شامل اشاعت ہیں۔
مکرم چودھری عبدالغنی صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ کویت نے قبول احمدیت کی توفیق اس طرح پائی کہ انہیں غلام احمد پرویز کی تفسیر پڑھتے ہوئے ایک پورا باب قادیانیت کے زیرعنوان ملا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ قادیانیت کیا ہے اور قادیانی کون ہیں لیکن پرویز صاحب نے جو خوفناک نقشہ کھینچا تھا، وہ پڑھ کر مَیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ ایسے ذلیل لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جو ایسے گمراہ کن خیالات رکھتے ہیں۔ پھر معاً میرے اندر خیال اٹھا کہ یوں یکطرفہ مخالفانہ تحریرات سے مجھے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے اور مجھے خود مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ پرویز صاحب نے جہاں مرزا صاحب کی کتابوں کے حوالے دیئے ہوئے تھے وہاں سے مَیں نے ’’کشتی نوح‘‘ کو مطالعہ کے لئے منتخب کیا۔ جب مَیں کراچی آیا تو کسی لائبریری سے یہ کتاب نہ ملی۔ تب مَیں نے جماعت اسلامی کی لائبریری میں جاکر اس کتاب کا پتہ کیا تو لائبریرین مجھ سے لڑ پڑا۔ تاہم وہاں کھڑے ہوئے ایک آدمی نے مجھے بتایا کہ یہ کتاب کوئی قادیانی ہی آپ کو دے سکتا ہے۔ پھر اُس نے سڑک پر جاتے ہوئے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ قادیانی ہے۔ مَیں نے تیز تیز چل کر اُس قادیانی کو جالیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ وہ مجھے احمدیہ ہال لے گیا اور کشتی نوح لاکر دیدی۔
کویت پہنچ کر مَیں نے فراغت پاکر کشتی نوح کا مطالعہ شروع کیا تو چوتھے صفحہ تک پہنچتے پہنچتے مَیں احمدی ہوچکا تھا۔ ساری کتاب پڑھ کر بیعت کا شرف حاصل کیا اور تیسرے حصہ کی وصیت کی۔ مجھے اپنے پچھلے چالیس سال کے ضائع ہونے کا پچھتاوا ہے، چاہتا ہوں کہ احمدیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کروں تااُن سالوں کا مداوا ہوسکے۔
لاڑکانہ کے ایک اجتماع کے دوران ایک نوعمر بارہ سالہ لڑکے ذوالفقار چانڈیو نے کھڑے ہوکر احمدیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ جب اُن کے گھر یہ خبر پہنچی تو انہیں بہت ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔ تب اُن کے ایک بھائی عبدالستار چانڈیو نے انہیں تسلی دی کہ اگر تم نے احمدیت کو سچ سمجھ کر قبول کیا ہے تو پھر ڈٹے رہو، مَیں تمہارا ساتھ دوں گا۔ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد عبدالستار صاحب سے میرا تبادلہ خیال ہونے لگا۔ پھر مَیں تبدیل ہوکر کراچی چلا گیا تو وہ بھی پڑھائی کی خاطر وہاں آئے اور احمدیہ ہال بھی آنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد صدق دل سے احمدیت قبول کرلی۔ تب مَیں نے انہیں کہا کہ وہ اپنی بیوی کو احمدی بنانے کی کوشش کریں۔ چند ماہ بعد وہ گاؤں گئے اور جب واپس کراچی آئے تو بتانے لگے کہ اُن کی بیوی نے احمدیت قبول کرلی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں پہنچ کر جب رات کا کھانا کھانے کے بعد سونے کیلئے میں اپنے کمرے میں گیا تو اپنی بیوی سے کہا کہ مَیں احمدی ہوگیا ہوں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ بھی احمدی ہوجائیں۔ اگر ہوجائیں تو بے حد خوشی ہوگی اور اگر دل نہیں مانتا تو بے شک نہ ہوں، کوئی جبر اور سختی نہیں…۔ اس پر میری بیوی نے بتایا کہ وہ تو احمدی ہوچکی ہیں۔ وہ اس طرح کہ کچھ دن پہلے انہوں نے خواب دیکھا کہ مَیں نے کراچی سے آکر اُن سے اسی طرح کہا ہے اور وہی منظر ہے تو خواب میں ہی انہوں نے جواب دیا کہ مَیں بھی احمدی ہوتی ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں