قرآن کریم کی صداقت کا روشن نشان – فرعون کی لاش کی دریافت

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جون 2012ء میں مکرم عامر شہزاد عادل صاحب نے فرعونِ مصر کی لاش کی کئی صدیوں بعد دریافت کو قرآن کریم کی صداقت کے روشن نشان کے طور پر اپنے مضمون میں پیش کیا ہے۔
فراعینِ مصر میں سے رعمسیس ثانی بہت مشہور فرعون تھا جس کے عہد کی تعمیرات اور کثیر تعداد میں مجسمے آج بھی موجود ہیں۔ قاہرہ کے ایک معروف علاقہ کا نام ’’رعمسیس سکوائر‘‘ ہے جس میں رعمسیس کا بڑا مجسمہ نصب ہے جسے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے تعمیر کروایا تھا۔
رعمسیس نے 1304 سے 1237 قبل مسیح تک 67 سال حکومت کی۔ اسی فرعون کے گھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پرورش پائی۔ سورۃالفجر میں اس کے لیے

’’فِرْعَوْنَ ذِالْاَوْتَادْ‘‘

کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں یعنی وہ فرعون جو کیل کانٹوں سے لیس تھا۔
رعمسیس ثانی کے بعد اس کا بیٹا منفتاح تخت نشین ہوا جو فرعون خروج (Pharaoh of Exodus) کے نام سے مشہور ہے۔ اسی فرعون کے عہد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے بنی اسرائیل نے خروج کیا۔ منفتاح نے اُن کا پیچھا کیا اور بحیرۂ قلزم میں اپنے لشکر سمیت غرق ہوا۔ سورت یونس میں اس کا ذکر آتا ہے کہ آئندہ نسلوں کی عبرت کے لیے اس فرعون کی لاش محفوظ کرلی گئی۔
آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں عربوں کو قطعاً علم نہیں تھا کہ فرعون کتنے تھے اور وہ کب سے حکومت کررہے تھے۔ یہ تاریخ تو انیسویں صدی میں آشکار ہوئی جب ماہرین آثار قدیمہ نے کھدائی کی۔ فرعونِ موسیٰ کی لاش 1907ء میں ایک انگریز سرگرافٹن سمتھ کی مساعی سے برآمد ہوئی تھی۔
ایک محقّق احمدبیگ لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کے فرعون دو تھے۔ اوّل رعمسیس دوم جس کا تعلق فراعین کے انیسویں خاندان سے تھا۔ اس خاندان کا بانی رعمسیس اوّل تھا جس نے صرف دو سال حکومت کی تھی۔ اس کا جانشین سیتی اوّل تھا جس کے بعد رعمسیس ثانی تخت نشین ہوا۔ خروج سے ایک سال پہلے اس کی وفات ہوئی اور منفتاح اس کا جانشین بنا جو بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہوئے بحیرۂ قلزم میں غرق ہوا۔ کئی شہادتوں کی بِنا پر اس کی لاش شناخت کرلی گئی۔
انگریز ماہرین آثار قدیمہ نے جب ممیوں کو کھول کھول کر اُن کے حنوط کی تحقیق شروع کی اور 44 ممیوں کا مشاہدہ کیا تو منفتاح کی پٹیاں کھولنے پر سب حیران رہ گئے کہ اُس کے جسم پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی ہے جو کسی اَور ممی کے جسم پر نہیں پائی گئی۔ فرعون بحیرات مرّہ (Bitter Lakes) یعنی کڑوے پانی کی جھیلوں میں غرق ہوا تھا۔ بعدازاں انہیں نہرسویز میں شامل کرلیا گیا تھا۔ جزیرہ نما سیناء کے مغربی ساحل پر موجود پہاڑی کو ’’جبل فرعون‘‘ اور اس پہاڑی کے نیچے ایک غار میں گرم پانی کے چشمے کو مقامی لوگ ’’حمامِ فرعون‘‘ کہتے ہیں اور سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اس جگہ فرعون کی لاش ملی تھی۔
قدیم مصری یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مرنے کے بعد روح پھر لاش میں واپس آجاتی ہے۔ اسی بِنا پر مُردہ بادشاہوں کے لیے بڑے کمرے بناکر ممّی کے ساتھ برتین، کپڑے، خوراک اور زیور وغیرہ رکھ دیتے تھے۔ ممّی بنانے کا طریق یہ تھا کہ پہلے دماغ کا مغز، آنتیں اور دل وغیرہ نکال کر ایک نرم کپڑا جسم میں بھر دیتے۔ پھر یہ لاش کئی ہفتے نمکین پانی کے ایک بیرل میں گلے تک ڈبودی جاتی۔ پھر اسے نکال کر خشک کرتے اور اس پر بروزہ اور چربی وغیرہ مل کر پٹیاں لپیٹ دیتے۔ یہ عمل ستّر دن میں مکمل ہوتا۔ پھر نقّاش کی مدد سے ہرم کی دیوار یا کفن پر فرعون کی تصویر بھی بنا دیتے تھے تاکہ پہچاننے میں غلطی نہ لگے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truth میں فراعین موسیٰ کے بارے میں تفصیلی تحقیق پیش فرمائی ہے۔ حضورؒ فرماتے ہیں: فرعون سے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اس کی زندگی بچانے کا وقت تو گزر چکا ہے لہٰذا اب صرف اس کا مُردہ جسم ہے جسے بچایا جائے گا۔ دوسرے ممکنہ معنی یہ ہیں کہ ایمان لانے کا وقت اب گزر چکا ہے لہٰذا اس کی روح کو نجات نہیں ملے گی البتہ جسمانی طور پر اسے بچالیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی مراد مؤخرالذکر معنی سے ہے۔ اس بحث کا نتیجہ کچھ بھی کیوں نہ نکلے کہ یہ فرعون ڈوبنے سے مرا تھا یا ڈوبتے ہوئے بچالیا گیا تھا، اس قرآنی بیان کے اعجاز میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ فرعون کا جسم بلاشبہ محفوظ رہا اور آئندہ نسلوں پر یہ حقیقت بالکل اسی طرح منکشف ہوئی جس طرح قرآن کریم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
یہ امر ہنوز حل طلب ہے کہ یہ فرعون رعمسیس ثانی ہی تھا یا کوئی اَور؟ لیکن اس امر میں تو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ وادی شاہانِ مصر (Valley of Kings) سے برآمد ہونے والی ایک ممّی اسی فرعون کی ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ٹکر لی تھی۔ یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ رعمسیس ثانی تھا یا منفتاح تھا۔ دونوں کی ہی ممّیاں محفوظ ہیں جو ہمیشہ قرآنی پیشگوئی پر مُہرِ تصدیق ثبت کرتے رہیں گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں