لیکھرام کی پیشگوئی اور مخالفین کا رد عمل

حضرت مسیح موعودؑ کی لیکھرام کی ہلاکت کے بارہ میں پیشگوئی سے متعلق معلومات قبل ازیں 9؍مئی 1997ء کے شمارہ کے الفضل ڈائجسٹ میں تفصیل سے بیان کی جاچکی ہیں۔ ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مارچ 2004ء میں مکرم شاہد منصور صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے رسالہ ’’استفتاء‘‘ کی روشنی میں پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کے ظہور کے بعد مخالفین کے ردّعمل کے بارہ میں تفصیلی مضمون رقم کیا ہے۔
لیکھرام کی بابت پیشگوئی 6؍مارچ 1897ء کو پوری ہوگئی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح مخالفین سچائی کو تسلیم کرنے کی بجائے پیشگوئی کو ہی جھوٹا ثابت کرنے کیلئے شور مچاتے ہیں۔ چنانچہ پہلے تو آریوں نے لیکھرام کی ہلاکت کو پیشگوئی کا نتیجہ ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ پھر حضرت اقدسؑ پر باقاعدہ الزام لگا دیا کہ آپؑ نے پیشگوئی پوری کرنے کیلئے لیکھرام کو قتل کرادیا ہے۔ حضرت اقدسؑ کے خلاف نہ صرف اخباری مہم چلائی گئی بلکہ بدلہ لینے کی دھمکیاں بھی دیں۔ نیز حکومت کو بھی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ حضور ؑ کی خانہ تلاشی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔آریہ اخبار آفتاب ہند نے 18؍مارچ 1897ء کو لکھا: ’’مرزا قادیانی بھی امروز فردا کا مہمان ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر مناسکتی ہے۔… پس مرزا قادانی کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ بھی بقرعید کی قربانی نہ ہو جائے‘‘۔

کئی دیگر اخبارات مثلاً رہبرہند، اخبارعام، پیسہ اخبار وغیرہ میں بھی الزامات اور دھمکیوں والے مضامین شائع ہوتے رہے۔ اس مہم میں آریہ سماج کے ساتھ بہت سے عیسائی اور مسلمان علماء بھی شریک ہوگئے جن میں محمد حسین بٹالوی سرفہرست تھے۔ زبانی سب وشتم اور اخباری دشنام طرازی کے علاوہ ہزاروں خطوط بھی حضور ؑ کو بھیجے گئے جن میں نہ صرف گندی گالیاں اور قتل کی دھمکیاں تھیں۔ اگرچہ ایسے بھی بے شمار خطوط ملے جن میں تسلیم کیا گیا تھا کہ آپؑ کی پیشگوئی برملا پوری ہوئی۔
اس مرحلہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مناسب سمجھا کہ پیشگوئی کے مصدق لوگوں کی گواہی آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ کر لی جائے۔ لہٰذا آپ ؑ نے ایک مختصر رسالہ ’’استفتاء‘‘ تصنیف فرمایاجو 16؍مئی 1897ء کو قادیان سے شائع ہوا۔ اس کے ہمراہ مرسلہ ایک مطبوعہ خط میں آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس پیشگوئی کی درخواست لیکھرام نے آپ ہی کی تھی۔ اور اس کو اسلام اور آریہ مذہب کے صدق و کذب کا معیار قرار دیا تھا۔… اس پیشگوئی میں یہ بات نہایت عجیب ہے جس کو میں نے زبردست دلائل کے ساتھ اس رسالہ میں بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی مارچ 1897ء کے مہینے سے جس میں لیکھرام قتل ہوا ہے 17برس پہلے ہماری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں بڑی صفائی سے ذکر کی گئی ہے اور براہین احمدیہ کی تالیف کا وہ زمانہ تھا کہ شاید اس وقت لیکھرام 13-12برس کا ہوگا یہی وہ بات ہے جس کو خوب غور سے سوچنا چاہئے۔‘‘
حضورؑ نے مزید فرمایا کہ یہ رسالہ پڑھنے والوں کو اس سلسلہ میں اپنی شہادت جرأت کے ساتھ دینی چاہئے۔
اہل ہنود کی اس قدر مخالفت کی پہلی وجہ یہ تھی کہ آریہ صاحبان بالخصوص اور جمیع ہندوبالعموم اس پیشگوئی کی حیثیت اور اہمیت کو سمجھ ہی نہیں سکے وہ ان کا مخصوص عقیدہ تھا کیونکہ وحی الٰہی اور الہام خداوندی کو وہ ناممکن یقین کرتے تھے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر پیشگوئی میں خدا کے الہام کے حوالے کے بجائے علم نجوم کا یا کسی جنم پتری کا حوالہ ہوتا جس سے لیکھرام کی موت کا کوئی امکان نکلتا تو پھر شاید کسی حد تک سنجیدگی سے غور کر لیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا لہٰذا پیشگوئی کا ردعمل یا خاموشی تھا یا پھر استہزاء تھا جس میں سب سے زیادہ خود لیکھرام نے جوش وخروش سے حصہ لیا وہ لکھتا ہے کہ: ’’اس نے جبرئیل بھیج کر قادیانی کے کان میں ہماری موت کا الہام سنایا‘‘۔ پھر اُس نے عمداً اپنے خود ساختہ الہامات شائع کرنے شروع کر دئیے جن میں تین سال کے اندر اندر حضرت اقدس ؑ کی عبرتناک موت۔ آپ کے خاندان اور آپ کی جماعت کی تباہی اور قادیان کی بربادی کی پیشگوئیاں تھیں۔ ان پیشگوئیوں کا لہجہ اور زبان لچر اور دلآزار تھی۔ چنانچہ پیشگوئی پورا ہونے پر آریوں کے دماغ شل ہوگئے اور اُن کی سوچ میں یہی آیا کہ یہ مرزا صاحب کی سازش ہے۔
حضورؑ کی طرف سے پیشگوئی کے بارہ میںو ضاحت کرنے کے باوجود آریہ صاحبان کے دلوں میں نفرت اور تعصب کا غبار کم نہ ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ وہ مسلمان علماء تھے جن کے دل حضرت اقدس ؑکے دعویٰ مسیحیت کی وجہ سے دشمنی سے بھرے ہوئے تھے۔ ان علماء کے اس طرح اکسانے سے شہہ پاکر اہل ہنود نے اپنے وہم وگمان کو یقین میں تبدیل کرلیا کہ لیکھرام کا قتل پیشگوئی کو پوراکرانے کے لئے واقعی حضرت اقدس ؑ ہی کی سازش سے ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ خود عامۃالمسلمین کے حق میں بڑا بھیانک نکلا اور وہ بری طرح ہندوؤں کی نفرت کا شکار ہوئے۔ ہندوؤں نے کئی مسلمان بچوں کو مٹھائی وغیرہ میں زہر دیدیا۔
ہندوؤں نے در پردہ حضورؑ کو قتل کرانے کی خونی منصوبہ کی تکمیل کے لئے ایک خفیہ انجمن بھی قائم کی جس میں بعض وکیل، سرکاری عہدیدار اور رئیس بھی شامل تھے۔ اس کے لئے بیس ہزار روپیہ تک چندہ کا بندوبست بھی ہو گیا ہے۔ قاتل کے گرفتار کنندہ کیلئے ہزار روپیہ انعام قرار پایا اور دو سو اس کے لئے جو نشان دہی کرے۔
اس بارہ میں اوہام کو دُور کرنے کے لئے حضورؑ نے مسلسل اشتہارات شائع فرما کر حقیقت حال سے آشنا کرنے کی سعی فرمائی۔ نیز اپنی کتابیں ’’سراج منیر اور استفتاء‘‘ بھی شائع فرما کر آپؑ نے صورت حال کی وضاحت کرنے کی کوشش فرمائی۔ لیکن اہل ہنود کے دلوں میں جو زہر بھر گیا تھا، اس میں مطلق کوئی کمی نہیں آئی۔ چنانچہ آتمارام نامی مجسٹریٹ نے پوری مجرمانہ سازش کی کہ ایک مقدمہ میں جرمانہ عدم ادائیگی کے الزام میں آپ ؑ کو جیل بھجوادے۔ اگرچہ اسے ناکامی ہوئی اور وہ قہر الٰہی کا نشانہ بنا۔آخر حضورؑ نے آریوں کے سامنے الٰہی کسوٹی کاوہی میعار ایک بار پھر پیش کر دیا جو پہلے پنڈت لیکھرام کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ آپ ؑ نے نہایت تحدی کے ساتھ چیلنج دیا کہ: اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دُور نہیں ہو سکتا اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں جس سے یہ فیصلہ ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے یوں قسم کھاوے کہ ’’میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص سازشِ قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعۂ قتل ہوا ہے۔ پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا کچھ دخل متصور ہوسکے۔ پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق جو ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے‘‘۔
اللہ کے شیر کی یہ گرج ایسی نہ تھی کہ آریہ صاحبان حق و باطل کا فیصلہ کرانے کے لئے جان کی بازی لگا کر سامنے آجاتے۔ آپؑ نے آریوں کے لئے فرار کے سارے دروازے بند کر دئیے اور سازش قتل کے بھی دروازے بند کر دئیے۔ اس چیلنج کے پُرشوکت الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؑ کو اپنی بے گناہی پر، اپنی صداقت پر اور اپنے اللہ پر بے پناہ اعتماد تھا۔ آریوں کو نہ اپنے شبہات پر یقین کامل تھا اور نہ اپنے ایشور پر اعتماد تھا۔ ان کے دلوں کا زہر تو نہیں نکلا مگر ان کے محاذ پر خاموشی چھا گئی۔ ہاں ایک صاحب گنگابشن نے خود کو بہادر کلیجہ والا ثابت کرنے کی جرأت کی اور تین شرطوں کے ساتھ سامنے آگئے کہ
(1) پیشگوئی پوری نہ ہونے کی حالت میں مرزا صاحب کو پھانسی دی جائے۔
(2) میرے لئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کروایا جائے تا کہ اگر میں بددعا سے نہ مروں تو وہ روپیہ مجھے مل جائے۔
(3) جب قادیان میں قسم کھانے کے لئے آؤں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ میں لیکھرام کی طرح قتل نہ کیا جاؤں۔
لالہ گنگا بشن کو امید تھی کہ ایسی سنگین شرطوں کو قبول نہ کیا جائے گا۔ مگر حضورؑ نے بلاتوقف انہیں قبول فرمالیا۔ اس پر لالہ گنگابشن نے بہانے بنانے اور نئی نئی شرطیں پیش کرنا شروع کردیں۔ جب حضورؑ ڈٹے رہے تو آخری شرط انہوں نے یہ پیش کردی کہ جھوٹے نکلنے کی صورت میں اگر آپ پھانسی دئیے جائیں تو لاش گنگا بشن کے حوالہ کی جائے جو چاہے تو جلا دے یا دریا برد کر دے۔
لالہ گنگا بشن کی بد قسمتی کہ حضرت اقدس ؑ نے یہ شرط بھی منظور کرلی مگر ساتھ ہی جوابی شرط بھی عائد کردی کہ ’’ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں…اور وہ یہ کہ جب گنگا بشن صاحب حسب منشاء پیشگوئی مرجائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے‘‘۔
اس اشتہار میں حضرت اقدس ؑ نے یہ بھی مطالبہ پیش کیا کہ لالہ گنگابشن دس ہزار روپیہ کی ضمانت کا بھی بندوبست کریں تاکہ اُن کی لاش نہ دئیے جانے کی صورت میں یہ روپیہ آپؑ کو مل سکے۔ اس اشتہارنے لالہ گنگا بشن کے حوصلے بالکل پست کردیئے اور اُس نے باحسرت و یاس 27؍اپریل 1897ء کو آخری اشتہار دیا اور پھر ہمیشہ کے لئے اپنی زبان پر مُہر خاموشی لگالی۔ اس میں لکھا: ’’میں اپنی لاش دینی نہیں چاہتا…میں دس ہزار روپیہ جمع نہیں کراسکتا۔ اور میں آریہ سماج کا ممبر نہیں پھر وہ کیونکر میری امداد کریں گے!‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں