محترمہ امۃ الباسط صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل ربوہ 17 ستمبر 2009ء میں مکرم محمد شفیع خانصاحب نے اپنی خالہ محترمہ امۃالباسط صاحبہ (دختر حضرت مولوی غلام رسول صاحب افغانؓ اور محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ) کا ذکرخیر کیا ہے۔
مرحومہ نے اپنی تمام زندگی ماں باپ کی خدمت اور قرآن کریم کی تدریس میں گزار دی۔ وہ صوم و صلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار اور صبر و قناعت جیسے اوصاف سے آراستہ تھیں۔ آپ پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ آپ سب میں چھوٹی تھیں۔ قادیان سے ہجرت کے بعد آپ کا گھرانہ ننکانہ صاحب میں قیام پذیر ہو گیا۔ جب بڑی بہنوں کی شادی ہو گئی اور والد 1959ء میں وفات پا گئے تو گھر کی ذمہ داری مرحومہ پر آگئی۔ آپ نے ننکانہ کے گرلز سکول میں بطور ٹیچر ملازمت کرلی۔ آپ کا بچپن نیک سیرت ماں باپ کے سایہ میں گزرا تھااس لئے دین سے لگن ورثہ میں ملی تھی۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحب افغانؓ خوست (افغانستان) کے رہنے والے تھے۔ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ نوجوانی میں احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی تو ہمیشہ کے لئے قادیان میں آبسے اور حضرت مسیح موعودؑ کے گھر کے کام کاج بطور خادم سرانجام دیتے رہے۔ نماز، روزہ، تہجد اور درس قرآن میں شمولیت ہی زندگی کے معمولات تھے۔ حضور پُر نور کے وصال کے بعد آپؓ صبح و شام حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور التجا کرتے کہ مجھے کام بتائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ان سے کہا تھا: ’’غلام رسول! تم حکمت سیکھو زندگی بسر کرنے کے لئے ہنر بھی ضروری ہے‘‘۔ آپ کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا حضور! میں افغانستان سے مسیح موعود کی خدمت کے لئے بھرا گھر جائیداد اور کھیتی باڑی چھوڑ کر آیا ہوں۔ اگر میں نے دنیا کمانا تھی تو وہ میرے وطن میں بھی میسر تھی۔ قبول احمدیت کے بعد ان کے بھائی اورچچاان کو واپس وطن لے جانے کے لئے آئے لیکن انہوں نے مسیح موعود کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی اور زندگی بھر افغانستان نہیں گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد آپ نے پہلے پہل قادیان میں پرچون کی دکان بنائی۔ پیدل بٹالہ جاتے اوروہاں سے دکان کے لئے سامان لاتے۔ کئی برس تک انہوں نے کریانہ کی دکان کی۔ پھر آپ نے دودھ کی دکان شروع کی۔ آپ رات کے پچھلے پہر اٹھ کر خود قریبی دیہات میں جاکر اپنی نگرانی میں دودھ دوہ کر لاتے۔ ایک بار بچپن میں مجھے بھی آپؓ کے ہمراہ جانے کی سعادت ملی۔ مَیں آپؓ کی انگلی پکڑے چل رہا تھا اور آپؓ قرآن کریم کی تلاوت کرتے جا رہے تھے۔ جب ہم بہشتی مقبرہ قادیان کے قریب پہنچے تو آپؓ نے بہشتی مقبرہ کے بالمقابل باغ میں اپنی چادر بچھاکر نماز تہجد ادا کی۔ پھر ہم روانہ ہوئے اور ننگل کے پاس پہنچے تو فجر کی اذان ہونے لگی تو وہاں آپؓ کے ساتھ مَیں نے فجر کی نماز ادا کی۔ راستہ بھر آپؓ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یا درود شریف پڑھتے رہے۔
آپؓ اذان ہونے پر دکان کو کھلا چھوڑ کر ادائیگی نماز کے لئے مسجد تشریف لے جاتے۔ دکان پر ہر وقت قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے۔ ایک بار بیماری کی وجہ سے دودھ لانے نہ جاسکے تو دو مزدوروں سے منگوالیا۔ جب مزدور دودھ لائے تو آپؓ نے اپنی انگلی کو دودھ میں ڈبویا اور بولے کہ اس میں پانی ملایا گیا ہے (آپ کو خالص دودھ جانچنے کا وسیع تجربہ تھا)۔ پھر آپؓ نے اپنے گاہکوں سے کہا کہ مَیں اُس وقت تک یہ دودھ نہیں بیچوں گا جب تک آگ پر رکھ کر اس کا پانی خشک نہ کردوں۔ یہ آپؓ کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار تھا۔
سیرت حضرت امّ طاہرؓ میں درج ہے کہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے قرآن کریم کے پہلے پانچ سپارے حضرت مولوی غلام رسول افغان صاحبؓ سے حفظ فرمائے اور یہ سعادت آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بطور شفقت بخشی تھی ۔
حضرت اماں جانؓ نے عائشہ پٹھانی صاحبہ سے حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ کی نسبت طے فرمائی اور اپنے دست شفقت کے ساتھ خود جہیز دے کر عائشہ پٹھانی صاحبہ کو رخصت کیا۔ عائشہ پٹھانی صاحبہ حضرت غفار خان صاحب شاگرد حضرت عبداللطیف شہید کی بیٹی اور حضرت بزرگ صاحب کی بھتیجی تھیں۔ آپ کو بھی خاندان حضرت اقدسؑ کی غیرمعمولی خدمت کی توفیق عطا ہوئی۔ آپ نے خاندان کے کئی بچوں کو ایام رضاعت میں دودھ پلانے کی سعادت پائی۔ چنانچہ دستور کے مطابق جن کے بچے کو آپ دودھ پلاتیں وہ اپنے گھر میں آپ کو رہائش کے لئے کمرہ بھی عنایت فرما دیتے اور آپ کے لئے صحت مند خوراک کا بھی انتظام ہوتا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا زیادہ تر وقت اپنے بچوں کے ہمراہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے گھرانوں میں گزرا۔
محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ کو بھی اپنے شوہر کی طرح قرآن شریف سے عشق تھا۔ قادیان میں قرآن کریم کی اشاعت کرنے والے فیض اللہ صاحب انہیں اشاعت سے قبل قرآن کریم کی پروف برائے درستیٔ اغلاط دکھایا کرتے تھے۔ انہوں نے قادیان میں سینکڑوں بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا اور ہجرت کے بعد ننکانہ صاحب میں بھی بلامعاوضہ قرآن کریم پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ سینکڑوں بچے آپ کے شاگرد بنے جن میں اکثریت غیر از جماعت کی ہے۔
مرحومہ امۃ الباسط صاحبہ بھی سکول کی ملازمت کے بعد بچوں کو قرآن کریم پڑھاتیں۔ جب محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ کو فالج ہو گیا تو اُن کو سنبھالنا اور بچوں کو قرآن کریم پڑھانا ہی آپ کا معمول بن گیا۔ آپ بھی اپنی وفات سے دو برس پہلے شوگر کے مرض میں مبتلا ہوکر بستر سے لگ گئیں لیکن قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ والدہ کی وفات کے بعد مستقل ربوہ آگئیں اور یہاں قرآن کریم کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ 13جولائی2009ء کو ربوہ میں آپ کی وفات ہوئی تو ننکانہ صاحب سے کثیر تعداد میں غیرازجماعت خواتین تعزیت کے لئے ربوہ آئیں جو شادی شدہ تھیں اور آپ کی شاگرد رہی تھیں۔
بے شک امۃ الباسط صاحبہ مرحومہ نے اپنی ساری زندگی ماں کی خدمت میں اور قرآن حکیم کی تعلیم دینے میں گزار دی ۔ انہوں نے دنیا کے مال و اولاد کی پرواہ نہیں کی۔ وہ دنیا سے خالی ہا تھ گئیں لیکن انہوں نے اللہ کے حضور بہت کچھ آگے بھیجا۔اور حضرت مسیح موعودؑ کے اس ارشاد کی مصداق ٹھہریں کہ جو لوگ زمین پر قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں