محترمہ حلیمہ ناصرہ صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 2جون 2010ء میں مکرم منظور احمد شاد صاحب کے قلم سے اُن کی اہلیہ محترمہ حلیمہ ناصرہ صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 27نومبر2009ء کو وفات پاگئیں۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے سفرِ جہلم کے موقع پر دستی بیعت کی توفیق پائی۔ آپؓ کی دونوں بیویاں یکے بعد دیگرے وفات پاگئیں تو میری پرورش میری بھابھی کے سپرد ہوئی اور بعد ازاں بھابھی کی بہن مکرمہ حلیمہ ناصرہ صاحبہ سے ہی فروری 1962ء میں میری شادی ہو گئی۔
مکرمہ حلیمہ ناصرہ صاحبہ شادی سے پہلے اپنے گاؤں میں صدر لجنہ تھیں۔ شادی کے بعد کراچی میں 21سال تک بے شمار بچوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ پھر جرمنی آکر بھی لجنہ میں مختلف حیثیتوں سے خدمت کی۔ دو سال صدر لجنہ Mainz بھی رہیں۔ چندہ جات ہمیشہ اوّل وقت میں ادا کرتیں اور مجھے بھی اس کی تاکید کرتیں۔ ذرا سی کوئی بات ہوتی تو حضور انور کو دعا کا خط لکھنے کا کہتیں اور صدقہ دیتیں۔ پاکستان میں بعض مستحقین کی باقاعدہ مالی مدد کرتیں۔ تھوڑی تنخواہ میں بھی قناعت سے گزارہ کرتیں بلکہ آڑے وقت کے لئے بھی بچا کر رکھتیں۔ کئی ایسے مواقع آئے کہ عین وقت پر خلافِ توقع گھر سے ہی رقم نکال کر دے دی۔
آپ کو سچی خوابیں آتیں جو حیرت انگیز طور پر پوری ہوتیں۔ چنانچہ مکرم پروفیسر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں بہت پہلے ایک خواب دیکھی جو اُن تک پہنچادی گئی۔ چنانچہ نوبیل انعام ملنے کے بعد اُن کے ارشاد پر خواب کے اصل الفاظ لکھ کر انہیں دیئے گئے۔
مرحومہ دعا گو تھیں۔ ایک بار گھر کے سامنے مخالفین نے جلسہ کرنے سے پہلے ایک کیسٹ لگا دی جس میں حضرت مسیح موعودؑکے خلاف بہت گندی زبان استعمال کی گئی تھی۔ آپ نے اسی وقت وضو کرکے نوافل شروع کر دئیے۔ کچھ ہی دیر میں بظاہر کوئی آثار نہ ہونے کے باوجود شدید آندھی اور بارش پر مشتمل طوفان آیا جس سے ٹینٹ قناتیں اکھڑ گئے، بجلی فیل ہو گئی اور جلسہ درہم برہم ہو گیا۔
خاکسار کو اپنڈکس کی تکلیف تھی۔ جب بھی درد ہوتا وہ مصلّے پر کھڑی ہو جاتیں۔ ایک بار آپریشن تھیٹر میں لے گئے تو انہوں نے ہسپتال کے برآمدہ میں ہی چادر ڈال کر نوافل شروع کر دئے۔ کچھ ہی دیر میں درد جاتا رہا اور بغیر آپریشن گھر آ گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں