محترمہ نعیمہ سعید صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اپریل 2012ء میں مکرم عامر سعید احمد صاحب نے اپنی والدہ محترمہ نعیمہ سعید صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔ مرحومہ حضرت عبدالسمیع صاحب کپورتھلویؓ کی پوتی اور حضرت منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی پڑپوتی تھیں۔ چند ماہ برین ٹیومر کے مرض میں مبتلا رہ کر 4جون 2007ء کو بعمر49سال وفات پاگئیں۔
آپ بہت ہی مخلص، ہمدرد، صوم وصلوٰۃ کی پابند، صابرہ اور شاکرہ وجود تھیں۔ بہت قربانی کرنے والی خاتون تھیں۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتیں۔ آپ محبت کرنے والی اور ہر ایک کی فکر کرنے والی تھیں۔ کسی کو کوئی بھی تکلیف پہنچتی تو ہر ممکن کوشش کر کے اس کو دُور کرنے کی سعی کرتیں۔ واقف زندگی کی بیوی ہونے کے علاوہ آپ نے بھی اپنی زندگی وقف کر دی اور تا دم آخر اپنے وقف پر قائم رہیں۔ اپنے خاوند محترم ملک سعید احمد رشید صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ ایک عرصہ میدان عمل میں گزارا۔لیکن کبھی بھی کوئی شکایت نہ کی اور نہ اس راہ میں کسی تکلیف کا اظہار کیا۔
ہم 1996ء میں ربوہ شفٹ ہوئے تو آپ نے محترمہ آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ (حرم ثانی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ) کی تحریک پر اپنی زندگی نصرت جہاں ہومیو کلینک کے لئے وقف کردی۔ ایک سال بعد آپ کو کلینک کا انچارج بنا دیا گیا اور تادم واپسیں (قریباً دس سال) اس حیثیت سے خدمت بجالاتی رہیں۔ شام کو کلینک شروع ہوتا اور کبھی کبھی مریضوں کی کثرت کی وجہ سے رات کے گیارہ بارہ بج جاتے۔ لیکن آپ نے وقف کے تقاضے کو پوری طرح سے نبھایا۔ جب کبھی ٹیلی فون کال آتی کہ کلینک آئیں کوئی ضروری کام ہے تو فوراً برقعہ پہن کر کہتیں کہ مجھے جلدی ہے سائیکل پر چھوڑ آؤ۔ اس کے علاوہ رمضان میں ہر جمعہ کے روز اور عیدین پر فرسٹ ایڈ کے شعبے میں ڈیوٹی بھی دیتیں۔ آپ اپنے محلے کی خواتین کے ساتھ اکثر ربوہ کے ملحقہ علاقوں میں دعوت الی اللہ کرنے جاتیں اور اپنے ساتھ فرسٹ ایڈ باکس بھی لے جاتیں۔ آپ کی اس خدمت کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو کئی پھل نصیب ہوئے۔
آپ صدقہ و خیرات بکثرت کرتیں۔ رمضان کے مہینے میں گندم کی بوری کسی مستحق کو دیتیں۔ اس کے علاوہ چندے دیتیں۔ ہمیں جو عیدی ملتی اس کو چندے میں دینے کا کہا کرتی تھیں۔ ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرتیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ بلکہ اوّلین ترجیح یہ ہوتی کہ کس طرح دوسروں کی خدمت کی جائے۔ چنانچہ جب کبھی ہمسائے کسی سفر سے واپس آتے تو آپ گھر جا کر حال احوال پوچھتیں اور پھر کھانے وغیرہ کا بھی انتظام کرتیں اور برتن دھو کر دیتیں حتیٰ کہ صفائی وغیرہ بھی کردیتیں اور ان تمام کاموں میں اپنی بیٹیوں کو بھی شریک کرتیں۔ کہیں فوتگی ہوجاتی تو آپ بھی ان کے غم میں شریک ہوتیں۔ کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو اس کو دُور کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتیں۔ ہمارے گھر میں اکثر مہمان آیا کرتے اور آپ ان کی مہمان نوازی بہت خلوص سے کرتیں۔ اسی لئے کئی مہمانوں نے ہمارے گھر کو ’’دارالضیافت‘‘ کا لقب دیا ہوا تھا۔
آپ نے اپنی بیماری کا عرصہ نہایت ہی ہمت اور صبر و شکر سے گزارا۔ انتہائی تکلیف کے باوجود کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے 10 اگست 2007ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’….علاوہ واقف زندگی کی بیوی ہونے کے ان کی لجنہ میں بھی کافی خدمات ہیں۔ لجنہ ہومیوکلینک کو انہوں نے بڑی اچھی طرح چلایا اور اپنی بیماری کے باوجود بڑی ہمت اور محنت سے کام کرتی رہیں۔ ان کی تقریباً جوانی کی ہی عمر تھی۔ یہ 49سال کی عمر میں فوت ہوگئیں۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں