محترم اعجاز احمد صاحب

مکرم ناصر احمد صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مئی و جون 2009ء میں شامل اشاعت ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ 7؍ مئی 2008 ء کی رات چار ڈاکو موضع تہال تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں ہمارے گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر آگئے تو میرے اٹھائیس سالہ سب سے چھوٹے دلیر بھائی اعجاز احمد نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی لیکن ظالموں نے سینے میں گولی مار کر اُسے شہید کر دیا۔ ایک گولی میری والدہ کے پیٹ میں لگی جو بعد میں آپریشن کرکے نکال دی گئی۔ واقعہ کے بعد سراغرساں کتوں کی مدد سے تین ڈاکو گرفتار ہوگئے جبکہ ایک مبینہ طور پر بااثر افراد کی پناہ میں ہے۔
اعجاز احمد کے شب و روز خدمت انسانیت کے لئے وقف تھے۔ وہ ہمیشہ ہر ایک کی مدد کے لئے تیار رہتا۔ اس کی کار محض مریضوں کے لئے وقف تھی۔ اپنی جیب سے گاڑی میں تیل ڈلوا کر مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرتا تھا۔ بے لوث اور بے غرض، بغیر کسی لالچ کے بلکہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اور اپنا کاروبار بند کر کے لوگوں کی خدمت کیا کرتا تھا۔ اُس کا کام تھا کہ والد صاحب کا ہاتھ پکڑ کر مسجد لے جانا اور واپس لانا۔ گاؤں میںکپڑے کی دکان تھی لیکن کاروبار کی پرواہ کئے بغیر اُس نے والدین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اُس کی دکان سے کئی غریب ادھار کپڑا لے جاتے لیکن پھر ادھار واپس نہ کرسکتے تو وہ کبھی برا نہ مناتا۔
پکڑے جانے والے ڈاکوؤں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم تو مرزائیوں کے گھر لوٹ مار کرنے گئے تھے کیونکہ ان کے پاس پیسہ بہت ہے اور مولوی نے بھی کہا تھا کہ ان کا مال لوٹنا جائز ہے۔ یہ مال غنیمت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اعجاز احمد کی موت کے بعداسی مولوی نے گاؤں کے لوگوں سے قسمیں بھی اٹھوائیں کہ اگر کوئی بھی احمدی مر جائے تو اُس کے گھر نہیں جانا۔ اس کے باوجود بھی بڑی تعداد میں لوگ قسمیں توڑ کر اعجاز احمد کا افسوس کرنے ہمارے گھر آ گئے اور بتایا کہ اعجاز احمد کا سلوک ہمارے ساتھ اتنا اچھا تھا کہ ہم قسم توڑنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ لوگ اُسے اپنا بھائی اور بیٹا کہہ کر پکارتے اور ان کی آنکھیں اشکبار تھیں، بعض تو دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ والدین نے بہت صبر کا نمونہ دکھایا اور کوئی کوئی کلمہ بے صبری کا منہ سے نہیں نکالا۔
اعجاز احمد نے پسماندگان میں بوڑھے والدین کے علاوہ 24 سالہ بیوی ، دو سال اور پانچ سال کے دو بیٹے ، چار بھائی اور ایک بہن چھوڑے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں