محترم ثاقب زیروی صاحب کی خدمات

محترم ثاقب زیروی صاحب کی خدمات کا تفصیلی تذکرہ مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب کے تفصیلی مضمون (روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 و 18؍جولائی 2002ء) میں شامل اشاعت ہے۔

جناب ثاقب زیروی صاحب

مضمون نگار سے محترم ثاقب صاحب نے بیان فرمایا کہ آپ کی جوانی کے زمانہ میں ہی آپکی والدہ محترمہ نے نصیحت کی تھی کہ آپ اپنی شاعرانہ استعداد کو حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے ایمان افروز واقعات اور تعلیمات کو منظوم کرنے میں لگاؤ۔ چنانچہ آپ کا پہلا مجموعہ کلام ’’دور خسروی‘‘ جو قادیان سے شائع ہوا، اسی نصیحت کا نتیجہ تھا۔ اس مجموعہ کلام کا نام آپ نے ’’شاہنامہ احمدیت‘‘ رکھا تھا جو حضرت مصلح موعودؓ نے تبدیل فرمادیا۔
محترم ثاقب صاحب کے استاد جناب عبدالمجید سالک صاحب لکھتے ہیں: ’’ثاقب کی تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی، اُن کی طبیعت میں شرافت و سعادت، شرم حضوری اور دیانت فکروعمل کی بنیادیں گہری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نوجوانی اور جوانی کے دونوں زمانوں میں کبھی نفسی بے راہروی یا فکری آوارگی کا شکار نہیں ہونا پڑا اور وہ ہمیشہ ایک بندھے ٹکے اسلوب زندگی پر کاربند رہے ہیں۔ چنانچہ اُن کی شاعری کو دیکھئے، فکر میں جدت تو ہے ابتذال نہیں، دین اور حمیت دین تو ہے ملائیت نہیں، عشق تو ہے لیکن فسق کا شائبہ تک نہیں، غریبوں کی مصیبتوں پر آنسو ہیں، موجودہ نظام عدم مساوات کے خلاف طیش ہے لیکن کمیونزم نہیں۔ یہی اعتدال کا راستہ اور صراط مستقیم ہے اور مجھے ہرگز اندیشہ نہیں کہ اب ثاقب اپنی ادبی زندگی کے کسی موڑ پر بھی اس صراط مستقیم سے گمراہ ہوں گے‘‘۔
محترم ثاقب صاحب بہت عبادت گزار شخصیت تھے۔ آپ نے ایک مکتوب میں مجھے لکھا:
’’رات آپ سے خواب میں ملاقات ہوئی تو مَیں نے عرض کیا کہ آپ رکوع و سجود میں تین دفعہ کی بجائے سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ پانچ دفعہ پڑھا کریں۔ نہیں معلوم اس بات کا کیا محل تھا؟ شائد اس لئے کہہ دیا کہ یہ میرا معمول ہے۔‘‘
محترم ثاقب صاحب محنت کے عادی تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے گیارہ گھنٹے مسلسل لکھنے کا تجربہ تو ہے۔ ایک روز بتایا کہ مَیں رات دس بجے تک گھر میں مختلف احباب سے گفت و شنید کرتا ہوں کیونکہ باخبر رہنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے اور اس کے بعد لکھنے کا کام کرتا ہو ں جو عموماً فجر تک جاری رہتا ہے اور پھر نماز پڑھ کر سوتا ہوں۔
جناب خواجہ ناظم الدین جو پاکستان کے دوسرے وزیراعظم بنے، ثاقب صاحب سے بہت التفات سے پیش آتے تھے۔ لاہور میں ہونے والے ایک مشاعرہ میں وہ مہمان خصوصی تھے جب ثاقب صاحب سے انہوں نے اُسی مشاعرہ میں وہ نظم تین مرتبہسنی جو آپ نے اپنے ایک دوست کے جام مَے پیش کرنے کے جواب میں کہی تھی اور اپنے مخصوص انداز میں پڑھی تھی۔ اس نظم کا ایک بند یوں تھا:

یہ رنگ چھوڑ چھاڑ کر، یہ جام توڑ تاڑ کر
یہ نقش سب بگاڑ کر، یہ میکدے اجاڑ کر
نئی زمیں بناؤں گا، نیا جہاں بساؤں گا

محترم ثاقب صاحب بیان فرماتے تھے کہ ایک بار خواجہ صاحب نے ڈھاکہ میں عظیم الشان مشاعرہ کا اہتمام کیا جس میں مجھے اپنے مہمان کے طور پر بلایا۔ بعد ازاں گرانقدر مشاہرہ پیش کیا۔ پھر میری چند چیزیں خریدنے کی خواہش پر اپنا ایک آدمی ساتھ بھیجا جسے ہدایت دی کہ جو چیز مَیں خریدوں بالکل وہی چیز اُن کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کے لئے بھی خریدی جائے۔ جب مَیں نے واپس آکریہ چیزیں حضورؓ کی خدمت میں پیش کیں تو حضورؓ نے حیرت سے فرمایا: ’’میری تو خواجہ صاحب سے ایسی کوئی واقفیت نہیں‘‘۔ مَیں نے عرض کیا: ’’خواجہ صاحب کو تو آپ سے واقفیت ہے!‘‘۔
آپ اس قدر دینی غیرت رکھتے تھے کہ 1984ء میں جب ایوان صدر سے سیکرٹری کا فون آیا کہ آپ کے امتیازی کام کی وجہ سے آپ کو صدر خصوصی تمغہ اور مراعات سے نوازیں گے تو آپ نے اُس تقریب میں جانے سے صاف انکار کردیا۔ آپ کو بتایا گیا کہ آپ کا نام فہرست میں چھٹے نمبر ہے جو ایک امتیازی بات ہے۔ لیکن آپ نے پھر جواب دیا کہ مجھے اس تقریب میں آنے کی ضرورت نہیں۔
آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ضیاء الحق نے مجھے تین بار دعوت دی ہے کہ میرے پاس آؤ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مَیں نے جواب بھجوایا کہ مَیں کوئی عہدیدار یا نمائندہ نہیں ہوں، اس لئے میرے ساتھ کوئی مصلحت آمیز بات نہیں ہوسکتی۔ باقی رہی جماعت تو وہ کبھی تمہارے در پر نہیں آئے گی۔
بھٹو دَور میں جب ’’روزنامچہ‘‘ لکھنے پر تھانیدار نے تھانہ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی گرفتاری ایک رات کے لئے ملتوی کردی اور اگلے روز اُسے فون آگیا کہ گرفتار نہیں کرنا تو آپ واپس اپنے دفتر پہنچے۔ کسی نے بتایا کہ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کا ڈرائیور کئی بار آپ کے دفتر کے چکر لگاچکا ہے۔ کچھ دیر میں وہ پھر آیا اور کہا کہ رات کا کھانا آپ چودھری صاحب کے ساتھ کھائیں گے اور مَیں آپ کو لے جاؤں گا۔ شام کو جب آپ حضرت چودھری صاحبؓ کی کوٹھی پہنچے تو وہ خلاف معمول کمرہ سے باہر بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ دیکھتے ہی آپ کو گلے سے لگایا اور فرمایا کہ مَیں رات بھر سو نہیں سکا اور دعا کرتا رہا ۔ حضرت چودھری صاحبؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
محترم ثاقب صاحب فرماتے تھے کہ جب 1974ء میں ہونے والے خونچکاں مظالم کو اکٹھا کرکے چھان پھٹک کرلی اور ترتیب دے لی تو اس کا کوئی عنوان ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ رات خواب میں دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تشریف لائے ہیں اور دریافت فرماتے ہیں: ’’کیا وہ روزنامچہ مکمل ہوگیا؟‘‘۔ چنانچہ یہی عنوان طے پایا۔
بلوچی رئیس جناب میر جعفر خان جمالی کے دو صاحبزادے لاہور میں زیر تعلیم تھے اور محترم ثاقب صاحب کی شاعری کے قدردان تھے۔ ایک بار انہوں نے اپنے ہاں ہونے والی ایک سالانہ تقریب پر آپ کو بھی مدعو کیا تو وہاں میر جعفر خان جمالی سے آپ کا اخوت کا تعلق قائم ہوگیا۔ 1970ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھٹو حکومت کی طرف سے آپ کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ جمالی برادران کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ آپ کے کہنے پر دونوں صاحبزادگان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور ایک بیٹے جناب تاج محمد جمالی کو بھٹو نے وزیر بھی بنالیا۔ 1974ء میں جناب تاج محمد جمالی لاہور میں ایک شادی کی تقریب کے بعد آپ سے بھی ملنے آئے۔ بھٹو کو اس کا علم ہوا تو اُن سے بہت ناراض ہوئے۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مَیں اس بات سے رُک نہیں سکتا کیونکہ یہ بات ہمارے والد کے وصیت نامہ میں درج ہے کہ ثاقب میرا بھائی ہے اور وہ خاندان کے اہم معاملات میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا۔ آپ کی کابینہ میں مجھے لانے والے یہی لوگ تو ہیں ورنہ مَیں آپ کی پارٹی اور کابینہ میں کیوں شامل ہوتا۔
1985ء میں ایک روز محترم ثاقب صاحب نے مضمون نگار سے کہا کہ اب مجھے لکھنے کا شوق نہیں، بہت لکھا ہے لیکن کچھ اصول اور وضعداری بھی ہوتی ہے۔ ’’لاہور‘‘ کا ایک خاص حلقہ ہے، ان لوگوں کی پسند اور خواہش کا احترام بھی لازم ہے۔
1964ء کے ’’لاہور‘‘ کے پہلے شمارہ کا اداریہ ایسا یادگار تھا جسے بعد میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے مجید نظامی صاحب نے ایک خوبصورت نوٹ کے ساتھ اپنے اخبار میں بھی شائع کیا اور ثاقب صاحب کو ’’درویش صفت صحافی‘‘ کا خطاب دیا۔ محترم ثاقب صاحب کی وفات کے بعد 18؍مارچ 2002ء کے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ میں ایک صحافی جناب محمد شریف فاروق صاحب کا ایک مضمون آپ کے بارہ میں شائع ہوا جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ان کا پہلا عوامی تعارف قیام پاکستان کے بعد انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ سے ہوا۔ اس کی صدارت گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے کی۔ یہ دَور بھارت سے ہزاروں لاکھوں لٹے پٹے اور کٹے پھٹے مہاجرین کی بے محابا آمد کا تھا۔ ان میں غالب اکثریت ان لوگوں کی تھی جو بری طرح تباہ حال تھے۔ ثاقب زیروی نے چھوٹی بحر میں ایک دل ہلا دینے والی نظم پڑھی۔ ثاقب مرحوم کی سحر انگیز آواز اور ترنم نے پورے مجمع کو مسحور کرکے رکھ دیا۔ پورا مجمع گوش بر آواز اور ان کی آواز کی جادوگری کا شکار تھا … ایک گوشہ نشین شاعر ثاقب زیروی نے منظر عام پر آکر قیامت بپا کردی … اگلے روز پورے لاہور میں ثاقب کی نظم کا طوطی بول رہا تھا۔ تمام لاہور میں دھوم مچ گئی۔ دھوم مچنے کا مطلب تمام پاکستان گوش بر آواز ہوگیا۔ یہ نظم اضطراب انگیز دَور کی سچی عکاس تھی۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں