محترم ثاقب زیروی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مارچ 2002ء میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب اپنے مضمون میں محترم ثاقب زیروی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1974ء کے واقعات کے متعلق جب رسالہ ’’لاہور‘‘ میں روزنامچہ شائع ہوا تو سرگودھا کے مظالم پڑھ کر ایک صاحب نے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں مدیر اور پبلشر (م۔ش صاحب) کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ پھر یوں ہوا کہ کسی نوٹس کے بغیر دونوں صاحبان کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے۔اس پر مَیں اور مکرم حافظ مسعود احمد صاحب مجسٹریٹ کے پاس گئے اور بتایا کہ عمداً ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں کہ بلاضمانت وارنٹ جاری کئے جائیں، ہم ملزمان تاریخ مقررہ سے پہلے ہی عدالت میں پیش کردیتے ہیں ، آپ ضمانت لے لیں۔ لیکن مجسٹریٹ صاحب یہ جرأت نہ کرسکے۔ مقررہ تاریخ سے ایک روز پہلے دونوں ملزمان ربوہ پہنچے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں واقعات عرض کئے۔ فرمایا: ’’رات یہیں رہیں، کل مجھے مل کر جانا‘‘۔ اگلی صبح جب حسب ارشاد خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا: ’’جاؤ، بے فکر رہنا، کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘۔

جناب ثاقب زیروی صاحب

سرگودھا میں مجسٹریٹ صاحب کے رویے کی وجہ سے ہم ڈرے ہوئے تھے۔ بہت ناتوانی کا دَور تھا۔ عدالت کا حال یوں تھا کہ

تمہارا شہر ، تمہی مدعی ، تمہی منصف
ہمیں خبر تھی ہمارا قصور نکلے گا

جب ہم عدالت پہنچے تو بار روم میں ملک محمد اقبال صاحب نظر آئے جو ایک سینئر ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ کے گولڈ میڈلسٹ تھے۔ انہوں نے ثاقب زیروی صاحب اور م۔ش صاحب کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیوں آئے ہیں؟۔ جب حالات بیان کئے تو انہوں نے اُسی وقت مستغیث کو بلاکر کہا کہ تمیں شرم نہیں آتی کہ دو پرانے مسلم لیگیوں اور اس بے نظیر نعت گو کے خلاف مقدمہ درج کردیا ہے، ابھی مقدمہ واپس لو۔ پھر وہ ڈسٹرکٹ کونسل میں مجسٹریٹ مذکور کی کچہری میں خود ساتھ گئے اور مقدمہ اُسی وقت خارج کرواکر واپس آئے۔ پھر بار روم میں چائے کا دَور چلا اور وکلاء نے ثاقب صاحب سے نعتیں سنیں۔
مضمون نگار مزید بیان کرتے ہیں کہ جب ثاقب صاحب نے ایک جلسہ سالانہ پر وہ نظم پڑھی جس میں آندھی کی طرح اٹھنے والوں کا گرد کی صورت بیٹھنے کا ذکر تھا تو ملک محمد اقبال صاحب نے خواہش کرکے مجھ سے ٹیپ منگوائی اور بار روم میں سارے وکلاء کو اکٹھا کرکے سنوائی۔ پھر فرمایا کہ جو بات مسلم لیگی اپنے جلسوں میں گھنٹے لگاکر بیان کرتے ہیں وہ ثاقب صاحب نے چند منٹوں میں بیان کردی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں