محترم سید رفیق احمد شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اگست 2011ء میں مکرمہ و۔ حنیف صاحبہ نے اپنے سسر محترم سیّد رفیق احمد شاہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
آپ لکھتی ہیں کہ جب میں پیدا ہوئی تو ان کی بھتیجی بن کر پیار سمیٹا ۔ 22سال قبل انہوں نے مجھے اپنی بیٹی بنا لیا اور کبھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ میرے حقیقی والدین میرے پاس نہیں۔ حتٰی کہ میری شادی کے لئے کپڑوں اور زیور کا انتخاب، ڈیزائننگ کے مشورے اور رنگوں کے لئے انتخاب بھی آپ کا تھا۔
آپ کی عادت تھی کہ تہجد کے وقت سب کے کمروں پر دستک دے کر جگاتے ۔ گھر کے ساتھ جب تک مسجد نہ بنی تھی تمام خاندان گھر میں ہی باجماعت نماز ادا کرتا اور تلاوت قرآن کریم سے فضا کو معطّر کرتا۔ یہ روحانی ماحول میرے میکے میں بھی خدا کے فضل سے موجود تھا ۔ فرق یہ تھا کہ وہاں صرف ہمارا گھر اکیلا احمدی تھا جبکہ یہاں گاؤں میں تین چچاؤں کی فیملیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔
میرے سسر کی بہت سی یادیں زندہ ہیں۔ بچوں کی پیدائش سے قبل ہر طرح سے خیال رکھنا، تہجد کی نماز کے بعد اور فجر کی نماز سے قبل کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھوں سے پکا کر میرے لئے لانا ، دودھ کا گلاس بھر کر دینا۔ اس قدر اصرار کرنا کہ دل نہ چاہنے کے باوجود مجھے لینا پڑتا۔ ہومیو دوائیوں میں تسہیل ولادت کی دوائیں دعاؤں کے ساتھ کھلانا۔
تہجد کے وقت نماز میں گڑ گڑا کر خدا کے حضور دعائیں کرنا بھی یاد ہے۔ بچیوں کو سکول لے جاتے اور لاتے وقت راستے میں دعائیں سکھانا اور درودشریف پڑھنے کی عادت پیدا کرنا۔ میرے خاوند مکرم سیّد حنیف احمد قمر صاحب جب تبلیغ کے لئے سیرالیون گئے تو میری بچیاں 1تا 5سال کی عمر میں تھیں۔ میرے سسر نے ان کو بہت پیار دیا اور ان کی تعلیمی اور تربیتی ضروریات ہر لحاظ سے پوری کیں۔
جب ہم کوارٹر میں شفٹ ہوئے تو اس میں کوئی درخت نہ تھا ۔ آپ نے نیم کے تین پودے لا کر لگائے اور کہتے تھے کہ جس گھر میں نیم ہو وہاں بیماریاں کم ہوتی ہیں۔ نیز تین پھلدار پودے لگانے کی تحریک پر لیموں ، امرود اور مالٹے کے پودے لگائے جو اَب پھل دے رہے ہیں۔
نماز عصر کے بعد مسجد مبارک میں بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ طبیعت میں نرمی تھی اور پڑھانے اور سمجھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ ترجمہ پڑھنے کی عمر کی بچیاں میرے پاس گھر پر بھجوا دیتے تھے ۔ یہ سلسلہ آج بھی ہمارے گھر پر جاری ہے۔
وقت ضائع کرنا بالکل پسند نہ تھا ۔ آخری بیماری میں جب خود مطالعہ نہ کرسکتے تھے تو دوسروں کو کہتے کہ جماعتی نظام کے تحت اُس مہینہ کی مقررہ روحانی خزائن کی جلد پڑھ کر سنائیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کے لئے بھی کہتے۔ جب تک صحت نے اجازت دی جلسہ یوکے میں شمولیت کرتے اور خلیفۂ وقت سے ملاقات کی سعادت پاتے رہے۔
وفات سے 8 دن قبل Coma میں چلے گئے۔ روزانہ 4گھنٹے میری آپ کی خدمت کے لئے رُکنے کی روٹین تھی ۔ اس دوران روزانہ ایک بار سورۃ یٰسین اور پھر دعائیہ آیات بہ آواز بلند تلاوت کرتی تھی۔ وفات سے ایک روز قبل مَیں نے تلاوت شروع کی تو آپ نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ میں نے السلام علیکم کہا تو سر ہلا کر جواب دیا۔ مَیں نے پوچھا: پڑھوں؟ سر کے اشارہ سے جواب دیا کہ ہاں۔ میں پڑھتی رہی میری طرف آنکھیں کھول کر دیکھتے رہے۔ مشینیں ساری اسی طرح اپنا کام کر رہی تھیں ہاسپٹل جانے سے شروع ہی سے گھبراتے تھے۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور اسی طریقۂ علاج کو ترجیح دیتے تھے۔ہمیشہ دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ محتاجی کی زندگی سے بچائے اور میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ 20؍مارچ 2011ء کو آپ نے وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں