محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 4 ستمبر 2020ء)

محترم شاہ صاحب 12؍جنوری 1932ء کو کشمیر کے گاؤں بھیج بیہاڑا (کریل، ضلع اننت ناگ) میں پیدا ہوئے۔ 1941ء میں پرائمری پاس کرکے قادیان آگئے اور 1945ء تک مدرسہ میں تعلیم پائی۔ جون 1947ء میں کشمیر گئے تو تقسیم ہند کی وجہ سے دو سال وہیں رہنا پڑا۔ 1949ء میں پاکستان پہنچے تو حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور اگلے سال باقاعدہ زندگی وقف کردی۔ 1953ء میں مولوی فاضل کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میںاوّل رہے۔ 1955ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کیا۔ 1956ء میں بطور مربی سلسلہ تقرر ہوا۔ 1961ء میں مکرمہ امۃالودود صاحبہ سے شادی ہوئی۔ 1966ء میں تعلیم الاسلام کالج سے ایم اے عربی کیا۔ قریباً تیرہ سال رسائل ’تشحیذالاذہان‘ اور ’خالد‘ کے پرنٹر اور دو سال تک ماہنامہ ’انصاراللہ ‘کے ایڈیٹر نیز مجلّہ جامعہ کے بھی مدیر رہے۔ الشرکۃالاسلامیہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور بورڈ الفضل کے صدر رہے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن اور طاہر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر اور ایم ٹی اے پاکستان کے پہلے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔ 1982ء میں ناظراشاعت مقررہوئے۔ قائمقام امیر مقامی اور قائمقام ناظراعلیٰ بھی رہے۔ 18؍ دسمبر 2011ء کو بعمر 80سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کی اہلیہ چند ماہ قبل وفات پاچکی تھیں۔ آپ کے چار بیٹے ہیں۔
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ مرحوم نے گوشۂ گمنامی میں رہ کر کمال عجز، اخلاص، محنت اور وفا سے دین کو دنیا پر مقدّم کرتے ہوئے خلافت کے سلطان نصیر بننے کا حق ادا کردکھایا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کو یہ سند عطا فرمائی تھی کہ ’’خداتعالیٰ کے فضل سے آپ واحد ناظر ہیں جنہیں مفوضہ کاموں کے لیے کبھی یاددہانی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء‘‘۔
90؍صفحات پر مشتمل یہ شمارہ محترم شاہ صاحب کی سیرت کے حوالے سے خلفائے کرام کے ارشادات، متعدد احباب و کارکنان کے تأثرات اور بہت سی یادگار تصاویر پر مشتمل ہے۔ آپ کی ذاتی زندگی کے خوشکن پہلوؤں اور مختلف ذمہ داریوں کی بطریق احسن ادائیگی کے حوالے سے زینت بنائے جانے والے مضامین کا سلسلہ چند کالموں میں جاری رہے گا۔ قبل ازیں آپ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 24؍نومبر2017ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا: ’’سیّد عبدالحی صاحب میں مَیں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ جب بھی ان کو کوئی معین بات سمجھادی جائے، خواہ وہ ذاتی علم نہ بھی رکھتے ہوں، ذاتی علم والوں کی تلاش کرتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو مَیں نے کسی کتاب کے متعلق ہدایت کی ہو اور بعینہٖ وہی چیز انہوں نے تیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک گہری فراست حاصل ہے۔ بہت باریک بینی سے چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ 26؍ستمبر1996ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس خادم سلسلہ کے ذکرخیر کے لیے 23؍دسمبر 2011ء کا خطبہ جمعہ وقف فرمایا اور انہیں جماعت کا عظیم سرمایہ قرار دیا۔ حضورانور نے فرمایا کہ محترم شاہ صاحب کے دادا سید محمد حسین شاہ آف سرینگر نے مذہبی اختلافات کی بِنا پر آبائی علاقہ چھوڑا اور ناڑواد میں مقیم ہوئے۔ اُن کے ایک فرزند سیّد عبدالمنان شاہ صاحب (والد محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب) نے بچپن میں ہی احمدیت قبول کرکے انتہائی انکساری سے زندگی گزاری۔
حضور نے فرمایا کہ محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب نے کشمیری زبان میں ترجمہ قرآن کی نظرثانی کی توفیق پائی۔ روحانی خزائن کی کمپیوٹرائزڈ کتابت اور نئی اشاعت کی توفیق پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تفسیرکبیر کا انڈیکس بنایا۔ بڑے صائب الرائے، سادہ مزاج، شریف النفس، معاملہ فہم، حلیم الطبع، مدبّر، کم گو اور ہمیشہ نپی تلی بات کرنے والے تھے۔ ٹھوس علمی پس منظر کی وجہ سے ہر معاملے کی خوب گہرائی سے تحقیق کرتے تھے اور اپنی پختہ رائے سے نوازتے تھے۔
حضور نے فرمایا کہ ایک بار جب شاہ صاحب پر ایک سنگین مقدمہ بنادیا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے پریشانی میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ آپؒ کی زبان پر جاری فرمائے کہ

’’کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو‘‘

یہ اس بات کی بھی سند ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محترم شاہ صاحب کا شمار نیک بندوں میں ہوتا تھا۔
بعد میں ایک اَور موقع پر جب کیس ہوا تو اسیر راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اپنے کارکنان سے بہت شفقت کا سلوک تھا۔ حلیمی اور چشم پوشی کی انتہا تھی۔سلسلے کی تاریخ کا بڑا ذخیرہ اور مأخذ تھے۔ باوجود کثرتِ کار کے ہنس مکھ تھے۔ لمبا عرصہ بیمار رہے لیکن بیماری کو اپنے کام میں روک نہیں بننے دیا۔ بتایا کرتے تھے کہ مَیں نے صدرانجمن کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب بہت سادگی تھی اور بجلی بھی نہیں تھی۔ چھت پر ایک پائپ کے ساتھ پنکھا لٹکا ہوتا تھا جسے رسّی کے ساتھ ہلاتے تھے۔ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مقبوضہ کشمیر کے کسی علاقے میں ایک پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا۔ راولپنڈی پہنچے تو کوئی سواری نہیں ملی۔ اگر کسی سواری کا انتظام کرتے تو دیر ہوجاتی اس لیے پیدل ہی روانہ ہوگئے اور پیغام پہنچاکر واپس بھی پیدل ہی آئے۔
آپ نے ایک بچی کو اپنے بچوں کی طرح پالا اور پھر اُس کا ایک مربی کے ساتھ نکاح کیا۔گھر میں بھی بہت حسن سلوک رکھا۔ بچوں کی عزت نفس کا بہت خیال رکھتے۔ خودنمائی سخت ناپسند تھی۔ ہر عمل میں صبر کی اعلیٰ مثال تھے۔مہمان نوازی بہت زیادہ تھی۔ جلسہ سالانہ پر کشمیر سے مہمان آتے تو سارا گھر اُن کو دے کر خود اپنے بچوں سمیت ایک سٹور میں چلے جاتے۔
آخری دن تک دفتر میں کام کرنے کی توفیق پائی اور وہیں سے تکلیف ہونے پر ہسپتال گئے اور پھر وفات ہوئی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مَیں ناظراعلیٰ تھا تو اُس وقت بھی اُن کو کامل اطاعت کرنے والا پایا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا مجھے پہنائی تو شاہ صاحب کو اخلاص و وفا میں پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھا ہوا پایا۔ بیعت کی روح کو سمجھنے والے اور اپنی تمام تر طاقتوں سے اُس کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں