محترم شیخ کریم بخش صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍فروری 1998ء میں محترم شیخ کریم بخش صاحب (جو محترم شیخ محمد حنیف صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کے والد تھے) کا ذکر خیر اُن کے پوتے مکرم شیخ نثار احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم شیخ کریم بخش صاحب اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ 1935ء کے لگ بھگ آپ نے کوئٹہ میں کاروبار کا آغاز کیا اور جلد ہی بلوچستان کے ممتاز تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا اور آپ کی ذاتی شرافت، نیک نامی اور محنت سے بہت ترقی ہوئی ۔ آپکے تعلقات قبائلی سرداروں سے بھی تھے اور حکومتی انتظامیہ سے بھی ۔ لیکن آپ کی اصل خصوصیت نظام خلافت اور جماعت سے والہانہ عشق اور فرمانبرداری کا تعلق تھی۔ کئی جماعتی بزرگان کو بمعہ اہل و عیال آپ کوئٹہ آنے کی دعوت دیتے اور کئی کئی ہفتے انہیں گھر پر رکھ کر ان کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتے۔
جب آپ کوئٹہ کے نائب امیر تھے تو اُس وقت کے امیر صاحب نے احمدیہ مسجد کی مرمتوں کے لئے ایک وقارعمل بلایا۔ آپ وقت مقررہ سے کچھ لیٹ پہنچے تو آپ کو امیر صاحب نے بطور سزا ایک طرف کھڑے رہنے کا حکم دیا۔ اس وقت آپ کے بیٹے بھی وہاں موجود تھے جنہوں نے امیر صاحب کی اتنی سخت سزا کو محسوس کیا۔ جب محترم شیخ صاحب کو اس بات کا احساس ہوا تو آپ نے سختی سے فرمایا کہ محترم امیر صاحب کا فیصلہ درست ہے، جو کچھ انہوں نے حکم دیا ہے میں اس کی اطاعت کروں گا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد محترم شیخ صاحب اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ بذریعہ ٹرین پنجاب آ رہے تھے۔ راستہ میں ایک جگہ سیلاب سے ریلوے لائن کو نقصان پہنچا تو مسافروں کو کہا گیا کہ ٹرین سے اتر کر اپنے سامان سمیت تھوڑا راستہ پیدل چلیں تو آگے انتظامیہ نے سواری کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ محترم شیخ صاحب گاڑی سے اترے تو آپ کی نظر محترم امیر صاحب کوئٹہ پر پڑی جو اپنا سامان اٹھاکر جا رہے تھے۔ محترم شیخ صاحب دیوانہ وار امیر صاحب کے پاس پہنچے اور بے حد اصرار کے ساتھ اُن کا سامان اپنے سر پر قُلی کی طرح اٹھا لیا اور تمام فاصلہ اسی حالت میں طے کیا۔ امیر کی اطاعت و فرمانبرداری کی یہ ایک حسین مثال تھی ، خاص کر ایسے بوڑھے شخص کی جس کا شمار شہر کے رؤساء میں ہوتا تھا۔
ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مضمون نگار سے فرمایا کہ ربوہ میں کالج کی تعمیر کے وقت میں تمہارے والد (محترم شیخ محمد شریف صاحب) کے دفتر واقعہ انارکلی لاہور گیا اور ان سے کالج کی تعمیر میں تعاون کے لئے کہا۔ ابھی میں بات کر ہی رہا تھا کہ تمہارے دادا شیخ کریم بخش بھی آگئے اور مجھے دیکھ کر بڑی محبت و عقیدت سے کہنے لگے حضرت میاں صاحب آپ نے کیسے تکلیف کی آپ ہمیں حکم دیتے، میں خود حاضر ہو جاتا۔ میں نے اپنے آنے کا مقصد انہیں بتایا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو کچھ ناراضگی کے لہجے میں فرمایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے بیٹے خود چل کر ہمارے غریب خانہ پر آئے ہیں یہ ہماری کس قدر خوش قسمتی ہے اور انہوں نے جس چیز کا مطالبہ کیا ہے تم نے ان کے حکم کی ابھی تک تعمیل کیوں نہیں کی۔ اس پر شریف صاحب نے عرض کی اباجان حضرت صاحبزادہ صاحب ابھی ابھی تشریف لائے ہیں … اس پر شیخ کریم بخش صاحب نے فرمایا بیٹا پہلے تم رقم کی ادائیگی کرو، بات چیت بعد میں کرنا۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مضمون نگار سے فرمایا ’’میاں ہم تو ایسے لوگوں کی محبت کے قائل ہیں‘‘۔
جب ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ کوئٹہ تشریف لائے تو محترم شیخ صاحب بھی حضور کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ ایک روز حضورؓ نے دودھ کی کوالٹی کے متعلق کچھ شکایت کی۔ اس پر محترم شیخ صاحب فوراً اپنی بھینس لے کر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضورؓ نے تبسم سے فرمایا شیخ صاحب بھینس کی ضرورت تو نہیں ، اچھا آپ ایسے کریں کہ اس کا دودھ بھجوادیا کریں۔ … اب عقل کا تقاضا تو یہی تھا کہ حضورؓ کے لئے دودھ لے آتے لیکن محترم شیخ صاحب خلافت سے عشق و وفا کے ایسے بندھن میں بندھے ہوئے تھے کہ وہ ہر آن اپنا سب کچھ پیش کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خط میں مضمون نگار کو تحریر فرمایا ’’آپ کے اباجان کی پرانی پُرخلوص محبت کی روایات میرے پیش نظر ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے عشق میں وہ اپنے بزرگ باپ کی سیرت پر تھے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں