محترم عبدالرشید خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 ستمبر 2010ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب (ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ) کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے والد محترم عبدالرشید خان صاحب کا تفصیل سے ذکرخیر کیا ہے۔
محترم عبدالرشید خان صاحب ایک حلیم الطبع فراخ دل، محنتی اور ہمدرد خلائق وجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی وفات پر سب کی زبانوں پر آپ کی تحسین تھی۔ آپ کی 5؍اگست 1933ء کو خوشاب میں پیدا ہوئے اور 77سال کی عمر میں 10؍اپریل 2010ء کو وفات پائی۔ آپ محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب خوشابی کے بیٹے اور حضرت مولوی فتح دین صاحبؓ کے پوتے تھے۔ محترم عبدالکریم خان صاحب سکول ماسٹر اور غیرازجماعت احباب کے امام مسجد تھے۔ انہوں نے 1929-30ء میں اپنے 72 مقتدیوں سمیت جماعت احمدیہ میں شمولیت کی اور پھر بہت استقامت کے ساتھ جماعت کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ آپ نے 40 سال تک مسلسل رمضان میں قرآن شریف تراویح میں سنایا۔ لمبا عرصہ سیکرٹری مال اور صدر جماعت رہے۔ آپ نے 1981ء میں ربوہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ سالہاسال لجنہ خوشاب کی صدر رہیں۔ بیسیوں بچوں کو قرآن شریف پڑھایا۔ اُن کی وفات 16 فروری 1974ء کو ہوئی اور آپ بھی بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
محترم عبدالرشید خان صاحب نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے مارچ 1950ء میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد پٹوار کے امتحان میں مئی 1951ء میں کامیابی حاصل کی۔ آپ کی پہلی تقرری 26 نومبر 1951ء کو بطور نائب پٹواری ہوئی۔ 20 نومبر 1953ء کو موضع اوترا میں پٹواری مقرر ہوئے۔ 1959ء میں قانون گو اور 1967ء میں گرداور مقرر ہوئے۔ اپنی محنت، دیانت اور نیک نامی کی بنیاد پر ترقی کرتے چلے گئے۔ نائب تحصیلدار اور پھر تحصیلدار ہوئے۔ یہ علم ہونے کے باوجود کہ آپ احمدی ہیں، پھر بھی آپ کی دیانت اور ریکارڈ کیپنگ کی وجہ سے آپ کی تعریف کی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے ساری عمر میں 10 مرلے کا ایک مکان بنایا جو کئی سال قسطوں میں تعمیر ہوتا رہا۔
آپ ملازمت کے سلسلہ میں مختلف علاقوں میں مقیم رہے اور خود سفر کی اور قیام و طعام کی مشقت اٹھائی مگر اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے لئے خوشاب اور پھر ربوہ میں رکھا۔ دونوں جگہ مسجد کے قریب رہائش رکھی۔
مختلف مقامات پر قیام کے دوران آپ کو خدمتِ دین کی بہت توفیق ملتی رہی۔ دیگر خدمات کے علاوہ قائدمجلس خدام الاحمدیہ خوشاب شہر اور ربوہ میں اپنے محلہ کے صدر بھی رہے۔ نیز صدر ماحول کمیٹی دفتر امور عامہ ربوہ، سیکرٹری مضافاتی کمیٹی دفتر صدر عمومی بھی لمبا عرصہ رہے۔ایک انکوائری کمیشن کے رُکن بھی رہے۔ آپ کو 5 دفعہ مجلس مشاورت ربوہ میں بطور نمائندہ شمولیت کا اعزاز بھی ملا۔
نماز باجماعت کے بہت پابند تھے۔ سفروں میں بھی نماز کا خیال رکھتے۔ حالت قیام میں تہجد کے لئے اٹھتے اور لمبی دعائیں کرتے۔ تلاوت روزمرہ کا معمول تھا ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھتے۔ مسجد کی تعمیر اور پھر توسیع میں آپ نے خاص حصہ لیا۔ مالی قربانی میں بہت نمایاں حصہ لینے والے اور باقاعدہ تھے۔ وصیت اور دیگر تمام چندہ جات شرح کے مطابق اور بروقت ادا کرتے۔ تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل تھے۔
31 مارچ 1993ء کو آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی اور اُس کے بعد ہمہ وقت خدمت میں مصروف ہوگئے۔ خصوصاً ربوہ کے نواحی علاقوں میں اراضی کے معاملات میں آپ نے بے شمار مظلوموں کی دادرسی کی توفیق پائی۔ آپ خود نامساعد حالات میں ربوہ آکر آباد ہوئے اور پھر اپنے خاندان کو بھی آمادہ کیا۔ لمبا عرصہ آپ کا مکان خاندان بھر کا مہمان خانہ بنا رہا۔ جلسہ پر تو مہمانوں کی خاطر صحن میں خیمہ بھی لگایا جاتا تھا۔ آپ مہمانوں کی ضروریات کی فہرست بنا کر یہ اشیاء مہیا کرتے مثلاً بستر، صابن، تولیہ، جوتی، چائے وغیرہ۔
آپ اپنے والدین کی بھرپور خدمت اور اطاعت کرتے تھے۔ شادی کے بعد بھی اپنی آمد کا بڑا حصہ اُن کو دیتے تھے۔ اُن کے علاج معالجہ میں بھی کافی خرچ کرتے۔ میرے دادا کے آخری ایام بھی ہمارے گھر میں گزرے اور یہیں 4 جنوری 1981ء کو ان کی وفات ہوئی۔
آپ نے اپنے کئی عزیزوں کی امداد کرنے کی توفیق پائی۔ قرض بھی کئی افراد کو دیا۔ اگر مقروض ادا کرنے سے قاصر ہوتا تو کچھ حصہ اور بعض دفعہ پورا حصہ بھی معاف کردیتے۔ کئی افراد کو اپنے مکان کی ضمانت پر انجمن احمدیہ سے قرضہ دلوایا۔
آپ نے اپنی آنکھیں عطیہ چشم کے منصوبے کے تحت وفات کے بعد وقف کی ہوئی تھیں۔
خلافت احمدیہ سے بے پناہ محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جلسہ سالانہ قادیان 1991ء اور 3 دفعہ لندن اور جرمنی کے جلسوں میں شامل ہونے کی توفیق بخشی۔
1996ء تک روزے بھی باقاعدگی سے رکھتے۔ بعد ازاں بیماری کی وجہ سے چند روزے چھوڑنے پڑتے۔ یہ سلسلہ 2005ء تک جاری رہا۔ پھر فدیہ ضرور ادا کرتے۔ ہر سال عید الاضحی پر قربانی بھی ضرور کرتے۔ مالی حالات تنگ بھی ہوتے تب بھی قربانی کا ناغہ نہ کرتے۔ اپنے عزیزوں کو بھی قربانی کی ترغیب دیتے۔ جب خود صدر محلہ تھے تو سارا گوشت بڑی توجہ سے اکٹھا کرتے اور تمام مستحقین میں اپنی نگرانی میں تقسیم کرتے۔ رفاہ عامہ کے کاموں سے بہت دلچسپی تھی۔ قانون سے واقف تھے۔ محلہ کی سڑکیں بنوانے میں اہم کردار ادا کیا اور بجلی کی تاریں ٹرانسفارمر اور سرکاری پانی مہیا کرنے میں بھی بڑا ہاتھ تھا۔
نہایت محنتی، جفاکش اور ڈسپلن کے پابند تھے۔ ملنسار اور خوش اخلاق وجود تھے۔ مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی شادی 1959ء میں اپنی چچازاد زرینہ اختر صاحبہ سے ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو 4 بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ بچوں کی شادی کے وقت صرف دیندار گھرانوں کو دیکھا اور کسی چیز کی نہ پرواہ کی نہ مطالبہ کیا۔ جن بہوؤں نے جرمنی جانا تھا اُن کے گھر والوں کو جہیز دینے سے منع کردیا۔
وقت کے بہت پابند تھے اور دوسروں سے بھی یہی توقع کرتے تھے۔ موسم خواہ کیسا ہی ہو، سفر کرکے ملازمت یا کسی تقریب پر بروقت حاضر ہوتے۔
بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جنازہ غائب پڑھایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں