محترم عیسیٰ درد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 1999ء میں محترمہ صالحہ درد صاحبہ اپنے چھوٹے بھائی محترم عیسیٰ درد صاحب (ابن حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ) کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ جب اچھی (عیسیٰ درد) پیدا ہوا تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے اس کے کان میں اذان دی اور انگلی پر شہد لگاکر چٹوایا۔

حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ

چونکہ اچھیؔ تین بہنوں کے بعد پیدا ہوا تھا اس لئے اس کی پرورش بڑے لاڈ سے شروع ہوئی۔ ابھی اچھیؔ کی عمر دس سال تھی کہ شفقت پدری سے محروم ہوگیا اور کچھ ہی دیر کے بعد والدہ کو فالج کا ایسا حملہ ہوا کہ وہ معذوروں کی طرح ہوگئیں۔ تب مَیں نے خاص طور پر اچھیؔ کا خیال رکھنا شروع کیا۔ شروع سے ہی اُس میں دوسروں کے کام آنے کا بہت جذبہ تھا۔ بازار سے کچھ لینے جاتا تو کئی دوسرے گھروں کا سودا بھی لے آتا، دوسروں کی مدد کرکے خوش ہوتا۔ ایک بار مَیں نے اسے ایک بیکار لڑکے کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا تو بلاکر ڈانٹا ۔ اچھیؔ نے مجھے بتایا کہ وہ اُس لڑکے کو ملنے نہیں گیا تھا بلکہ وہ لڑکا تو کہیں باہر کھیل رہا تھا اور اُس کی ماں بار بار اُسے آوازیں دے رہی تھی، مَیں نے جاکر پوچھا، وہ بیمار تھی اور دوا منگوانے کے لئے پکار رہی تھی۔ مَیں تو دوا لاکر اُسے دینے گیا تھا۔
چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے عموماً تنگ نہیں کرتا تھا میری کوشش ہوتی کہ اس کی خواہشیں ضرور پوری ہوں ،آسائش نہ سہی سہولت میسر رہے۔ جب کبھی اس کی کوئی خواہش پوری نہ کرسکنے پر آزردہ ہوتی تو مجھے حوصلہ دلاتا۔ میرے ماموں مرحوم ساتھ والے مکان میں رہتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو سکول جاتے وقت کچھ جیب خرچ دیتے تھے۔ انہوں نے اس کو بھی روزانہ چونی دینا شروع کردی۔ مَیں نے کہا: اچھیؔ! حضورؓ کی مہربانی کے بعد ہم بہن بھائی ہی ایک دوسرے کیلئے کافی ہیں، تم کسی اور سے کچھ نہیں لوگے، اسی میں تمہارا وقار ہے۔ چنانچہ اُس نے چونی لینے سے معذرت کرلی اور ساری زندگی دوسروں سے کسی قسم کی مدد لینا گوارا نہیں کیا۔
بچپن سے ہی دوست نواز تھا۔ دوستوں کی تواضع کرکے خوش ہوتا۔B.Sc کا امتحان دینے کے بعد، نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی، شیزان جوس فیکٹری میں ملازمت کرلی اور چند ہی مہینوں میں اُس نے محنت کرکے اپنی ذات کو منوالیا۔ جب مارکیٹنگ کا کام اُس کو سونپا گیا تو اس فیلڈ میں بھی بہت کامیاب رہا۔ بینز جوس فیکٹری کے ایک افسر کی بیوی نے مجھے ایک بار بتایا کہ مارکیٹ میں عیسیٰ درد ’’ٹائیگر‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
اچھیؔ نے زندگی بھر کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ ہر دم کسی نہ کسی تعمیری کام میں مصروف رہتا۔ بے باک احمدی کے طور پر خلافت کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا تھا۔ لاہور کی مجلس عاملہ کا فعال رُکن تھا۔ لجنہ لاہور کی گاڑی کی ہر قسم کی ذمہ داری لمبے عرصہ تک سنبھالے رکھی۔ ماتحت عملہ کے ساتھ دوستانہ سلوک روا رکھتا لیکن فرائض میں تساہل قابل برداشت نہ تھا۔ حلقہ احباب میں ہر قسم کے لوگ شامل تھے۔ ایک سابق وفاقی وزیر کہنے لگے کہ لوگ ہماری کرسی کو سلام کرتے ہیں لیکن عیسیٰ درد ایک ایسا شخص تھا کہ مَیں اگر اقتدار سے الگ ہوتا تو پہلے سے بڑھ کر رابطہ رکھتا۔ شیزان فیکٹری کے ایک ادنیٰ ملازم نے بتایا کہ ایک روز دیر سے کام پر پہنچا تو درد صاحب کے پوچھنے پر مَیں نے بتایا کہ میرا والد بیمار ہے۔ آپ اُسی وقت میرے ساتھ آئے۔ بیمار والد کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کے بعد دوائی خرید کر دی۔ واپس گھر اتار کر کچھ رقم بھی دی کہ پھل اور دودھ لے لینا۔
جب مخالفت کی وجہ سے جماعت کے بے گناہ لوگ زیادتی کا نشانہ بنتے تو اچھیؔ فوراً کوشش کرتا اور کئی بار قتل اور اغوا کے جھوٹے جرائم میں ملوث کئے جانے والوں کو ایک رات بھی حراست میں نہیں رہنے دیا۔ اچھیؔ بے خوف ہوکر اپنے مراسم سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ خدمت خلق اُس کے کردار کا نمایاں ترین وصف تھا۔ وہ عام سا انسان دکھائی دیتا تھا لیکن حادثہ کے فوراً بعد گھر کے اندر اور باہر لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ ہم اُن میں سے بیشتر کو جانتے بھی نہ تھے۔ وہ سب بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ ہر کوئی عیسیٰ کو جانتا اور محبت کرنے والا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر چہرہ ملول تھا۔ بہت سے لوگ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ عیسیٰ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جو موت بھی نہ چھین سکی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

2 تبصرے “محترم عیسیٰ درد صاحب

  1. ماشاء اللہ الفضل ڈائجسٹ سے بہت فائدہ اٹھایا۔ یہ سلسلہ جاری رہے تو بہت بہتر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی ٹیم کو اجر عظیم سے نوازے.

    1. السلام علیکم ورحمۃاللہ
      اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضورانور ایدہ االلہ تعالیٰ کی دعاؤں سے ’’خادم مسرور‘‘ کی یہ ویب سائٹ زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی سعی جاری رہے گی۔ دوستوں کی دعاؤں کا بہت شکرگزار ہوں۔جزاکم اللہ۔
      والسلام- محمود ملک

Leave a Reply to محمود احمد ملک Cancel reply