محترم غلام دستگیر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 2011ء میں مکرمہ ث۔کوثر صاحبہ کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنے والد محترم غلام دستگیر صاحب (سابق امیر ضلع فیصل آباد) کا ذکرخیر کرتی ہیں۔
محترم غلام دستگیر صاحب 16؍جون 1916ء کو دیوانی وال ضلع بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی والد محترم چودھری غلام علی خان صاحب کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو پرورش والدہ محترمہ دولت بی بی صاحبہ نے کی۔ آپ کُل تین بھائی اور تین بہنیں تھیں۔
آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی تھا اور والد مرحوم کی خواہش بھی تھی چنانچہ نہ صرف لاء کیا بلکہ منشی فاضل بھی کیا۔ فارسی پر عبور حاصل تھا۔ ہومیوپیتھی میں بھی بھرپور دسترس تھی۔ حکمت تو خاندانی وراثت کے طور پر ملی تھی۔ شعروشاعری سے بھی شغف تھا۔ آپ میونسپل کمیٹی سرگودھا اور فیصل آباد میں چیف اکاؤنٹ آفیسر کے عہدہ پر فائز رہے۔
آپ صرف 17 سال کی عمر میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے احمدی ہوئے اور جلد ہی وصیت بھی کرلی۔ آپ فیصل آباد میں خدّام کے قائد شہر اور پھر قائد ضلع نیز انصار کے زعیم رہے اور قریباً 42 سال نائب امیر ضلع اور 6 سال امیر ضلع کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔مجلس مشاورت کی فنانس کمیٹی کے صدر بھی رہے۔ خلافت ثالثہ کے دَور میں افریقہ میں مشنوں کے حسابات کی پڑتال کا موقع بھی ملا۔ انتخاب خلافت کمیٹی اور قضاء بورڈ کے بھی رُکن رہے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔
آپ احمدیت کے فدائی اور نہایت ملنسار، شفیق اور نرم دل تھے۔ خدا تعالیٰ کے آپ سے عجیب سلوک کے چند واقعات آپ کی ڈائری میں درج ہیں مثلاً ایک دن عشاء کی نماز کے لئے وضو کرکے لیٹے تو نیند نے آلیا۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو زبان پر یہ مصرعہ جاری تھا:

گرتے پڑتے درِ مولیٰ پہ رسا ہو جاؤ

لیکن نفس نے پھر سستی کی تو چند منٹ کے بعد زور سے آواز آئی اور زبان پر یہ مصرعہ جاری ہوگیا:

اہل شیطاں نہ بنو اہل خدا ہو جاؤ

اس پر آپ نے فوراً اُٹھ کر نماز ادا کی۔
آپ کو لمبا عرصہ ملازمت کے لئے اپنے گاؤں شاہکوٹ سے فیصل آباد جانا پڑتا تھا۔ ایک ہی بس جاتی تھی اور اس میں بھی تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ڈرائیور آپ کے آنے کا انتظار کرتا۔ ایک روز اُس نے کسی کو بتایا کہ جس دن یہ آجائیں اُس دن بے شمار سواری ملتی ہے اور بہت آمدنی ہوتی ہے۔
اسی طرح آپ نے ٹرین کے ایک لمبے سفر کا حال بیان کیا جب آپ بیمار بھی تھے۔ دعا شروع کی تو کچھ ہی دیر میں ازخود ایک مسافر نے آپ کو پہلے سیٹ دی اور پھر دوسرے نے سونے کی جگہ دیدی۔
آپ نماز تہجد اور تلاوت قرآن کے بہت پابند تھے۔ دعاؤں پر بہت زور دیتے۔ کبھی کوئی دعا کے لئے فون کرتا تو فوراً نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ خدمت دین کا جذبہ انتہا پر تھا۔ سادہ مزاج تھے۔ گھریلو کام کاج میں بھی ہاتھ بٹاتے۔ عمدہ کھانا بنالیتے۔ بچوں کی پڑھائی میں مدد کرتے۔ آپ نے دو شادیاں کیں اور اللہ تعالیٰ نے نو بچوں سے نوازا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے اور اپنے کاموں کے لئے بچوں سے بھی مشورہ کرتے۔
دو تین گھنٹوں کی مختصر علالت کے بعد آپ نے 4؍اپریل 2005ء کو وفات پائی۔ آپ کے آخری الفاظ تھے: رَبّ اِنّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِر۔ اور پھر دو مرتبہ کہا: میرے اللہ! میرے اللہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں