محترم محمد اسلم ناصر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 دسمبر 2010ء میں مکرم ابن کریم صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم ماسٹر محمد اسلم ناصر صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ 1971ء میں ہم خوشاب کے ایک گاؤں سے بغرض تعلیم ربوہ منتقل ہوئے۔ یہاں کے سکول میں ہمارے اساتذہ کے چہروں سے عجیب قسم کی طمانیت پھوٹتی تھی اور احمدیت کی محبت عیاں ہوتی تھی۔ مکرم ماسٹر محمد ابراہیم حنیف صاحب المعروف سارچُوری بہت ہی قابل استاد، لٹریری مزاج اور بڑے نڈر داعی الیٰ اللہ تھے۔ مجھے اُن کے ساتھ متعدد دیہات میں جاکر تبلیغ کے مواقع ملتے رہے ۔مکرم ماسٹر محمد اسلم بٹ صاحب عربی کے استاذ تھے، نہایت منکسرالمزاج اور جماعتی خدمات میں پیش پیش۔ سالہا سال احمد نگر میں صدر جماعت رہے ۔ مکرم ماسٹر محمد صدیق صاحب بھی اپنے محلہ میں صدرجماعت رہے۔ نماز کے اس قدر پابند کہ ایک بار گھوڑی چوری ہوگئی اور کہیں سے پتہ چلا فلاں طرف کسی کو لے جاتے دیکھا گیا ہے۔ پہلے اُدھر جانے لگے لیکن پھر سوچا صبح جمعہ ہے اگر اتنے فاصلے تک گیا تو جمعہ رہ جائے گا۔ چنانچہ جمعہ کو اہمیت دی اور اللہ پر توکّل کیا ۔ خداتعالیٰ کو یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اُسی رات گھوڑی خودبخود گھر پہنچ گئی۔ مکرم ماسٹر بشیر احمد وڑائچ صاحب خاموش طبع، فرشتہ سیرت اور کم گو مگر کلاس میں ڈسپلن کے بہت پابند۔ مکرم ماسٹر محمد عبداللہ صاحب ریحان سادہ مزاج، دیہاتی اور شہری ماحول کا حسین امتزاج تھے۔ بظاہر زراعت کے ماسٹر مگر اردو پر بھی دسترس تھی۔ مکرم ماسٹر رشید احمد زیروی صاحب بڑے بارُعب، انگریزی کے ماہر تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کردیا۔ مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب نہایت دھیمے مزاج کے تھے۔ زمین پر آہستگی سے چلنے والے اور عاجزی انکساری والے وجود تھے۔ انصاراللہ میں بھی خدمات کیں۔ محلہ کی سطح پر بھی صدر محلہ رہے ۔مکرم ماسٹر مسعود احمد صاحب بہت محنتی، فعّال اورطلبہ پر خوب کڑی نگرانی رکھنے والے وجود تھے۔ اور ایک بہت ہی معتبر نام مکرم ماسٹر چوہدری محمد اسلم ناصر صاحب کا بھی ہے۔ آپ بعد میں میرے صہری رشتہ دار بھی بن گئے اور یوں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ملنسار، مہمان نواز اور بہت محبت کرنے والے انسان تھے ۔ ان کی محبت اور دلنواز شخصیت کے سبھی گرویدہ ہوجاتے تھے ۔
محترم محمد اسلم ناصر صاحب تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور کے زمیندار گھرانے کے اکلوتے چشم وچراغ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد لائل پور کے ایک گاؤں میں آباد ہوئے۔ تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کیا۔ بی ایڈ کے بعد 1965ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں ملازمت کرلی۔ آپ بڑی باوقار اور جاذب نظر شخصیت کے حامل تھے۔ آواز بڑی بارُعب تھی ۔ احمدیت کی محبت غالب تھی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں خدا نے عطا کئے تو بڑا بیٹا (مکرم تنویر احمد صاحب مربی سلسلہ) وقف کردیا۔ باقی بچے بھی اچھے تعلیم یافتہ، شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔
آپ بڑے ہی مہمان نواز تھے۔ قریبی رشتہ دار کئی کئی سال آپ کے ہاں مقیم رہ کر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بعض رشتہ دار خواتین نے اپنی بیوگی کے کئی کئی سال آپ کے گھر میں گزار دیئے۔ آپ کا کوئی عزیز بغرض علاج ربوہ آتا تو قیام آپ کے ہاں ہوتا۔ آپ علاج معالجہ کرواتے اور ہر پہلو سے حسن سلوک کرتے۔
1978ء میں آپ کی گردن پر شدید اعصابی حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں گردن سیدھی نہ ہوتی تھی۔ مگر آپ نے اپنے فرائض میں کمی نہ ہونے دی۔ تاہم تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ پاکستان کے چوٹی کے نیوروسرجنز نے جواب دے دیا اور جب بات زندگی سے بھی نااُمید ی تک پہنچ گئی تو آپ ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کے لئے گئے اور اپنے علاج کی تفصیل عرض کی۔ تب حضور انور نے وہیں ہاتھ اُٹھا کر دعا کروائی اور دعا کے بعد فرمایا: اللہ فضل فرمائے گا ۔ حضورؒ نے آپ کی گردن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی۔ اُسی روز سے اللہ تعالیٰ نے یہ تکلیف شفا کی طرف موڑ دی اور بالآخر چند ماہ بعد مکمل شفا عطا فرما دی ۔
آپ 2009ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شریک ہوئے تو ایک دن آپ کے آبائی گاؤں تلونڈی جھنگلاں کے سکھ نمبردار آپ کو اپنے ہمراہ لے گئے، دعوت کی اور آپ کی بچیوں کے لئے چادریں دیں۔ آپ نے بتایا کہ یہ لوگ ایک سال قبل ننکانہ صاحب یاترا پر آئے تھے تو آپ اپنے بچوں کے ساتھ جا کر انہیں ملے۔ ان کی خاطر مدارات کی اور تحائف دئیے۔ اس طرح روابط بڑھاتے اور پیغام حق پہنچانے کا موقع تلاش کرتے۔
آپ کی فیّاضی، صلح جُوئی اور اپنا حق مار کے دوسروں کو آسائش مہیا کرنے کی ایک مثال اُس وقت قائم ہوئی جب لیّہ میں واقع آپ کی زمین کا ایک قریبی زمیندار راستہ کی مشکل میں گرفتار تھا کیونکہ کسی مخالف نے اُس کی زمین کا راستہ بند کر دیا تھا۔ مکرم ماسٹر اسلم صاحب کے مزارع نے اُس غیرازجماعت زمیندار سے کہا کہ آپ کے پاس ربوہ چلا جائے۔ اُس نے آپ کے بارہ میں کہا کہ ہم اُنہیں جانتے ہیں، سالہا سال سے ہم اُن کی زمین کاشت کرتے ہیں اس لئے آپ لوگ ان کے پاس جا کر اپنی مشکل بتاؤ اور دوسرے مخالفین سے جھگڑا چھوڑو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان لوگوں کے کہنے پر محترم ماسٹر صاحب ازخود اپنے بیٹے کے ہمراہ زمین پر گئے اوراپنی زیرکاشت زمین میں سے ہمسایہ کو راستہ دے دیا۔
آپ کی ایک نسبتی ہمشیرہ بچی کی پیدائش کے وقت وفات پاگئیں تو آپ نے نومولود بچی کو گود لے لیا۔ اپنی بچیوں جیسا پیار کیا۔ اس کو اچھی تعلیم (ایم ایس سی) دلوائی اور اپنی دوسری بیٹیوں کی طرح ہی اُس کو رخصت کیا۔ بلکہ اپنے بیٹے کو بھی نصیحت کی کہ اس بچی کو بھی جائیداد میں سے اُسی طرح حصہ دینا ہے جس طرح دوسری بہنوںکو۔
1974ء اور 1984ء کے پُر آشوب زمانے آپ نے ربوہ کے سکول میں ہی پڑھاتے ہوئے گزارے۔ تاہم بعض حاسدوں نے 1982ء میں ایک مقدمہ کردیا اور آپ کو پانچ دن اسیر راہ مولا رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعد میں ترقی پاکر ضلع گجرات اور پھر ربوہ سے چند میل کے فاصلہ پر متعین رہے۔ ہر جگہ مخالفانہ طرز عمل نظر آتا لیکن جلد ہی آپ کے کردار کی وجہ سے محبت میں بدل جاتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں