محترم مرزا عبدالحق صاحب کا انٹرویو

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23، 24 اور 25 جنوری 2002ء کے شماروں میں گزشتہ 80 سال سے ممتاز جماعتی خدمات کی توفیق پانے والے خادم سلسلہ محترم مرزا عبدالحق صاحب کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا ہے۔
محترم مرزا عبدالحق صاحب جنوری 1900ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قادر بخش صاحب تھا۔ بچپن میں ہی والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے اور پھر اپنے بڑے بھائی بابو عبدالرحمن صاحب کے پاس شملہ میں رہے۔ 1913ء میں جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ شملہ تشریف لے گئے تو آپ بھی حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور حضورؓکی شخصیت اور تقدس کا بہت گہرا اثر آپ نے قبول کیا۔ 1921ء میں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ 1921ء میں بی اے کرکے آپ شملہ میں ملازم ہوگئے لیکن ڈیڑھ سال بعد استعفیٰ دے کر لاء کالج میں داخلہ لے لیا اور حضرت مصلح موعودؓ کے توجہ دلانے پر قانون کا امتحان پاس کیا۔ 2؍جنوری 1926ء کو حضورؓ کے حکم سے گورداسپور میں وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔
آپ کی پہلی شادی 1923ء میں ہوئی۔ اس بیوی سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی شادی کے چار سال بعد آپ کی دوسری شادی اپنے چچا کی وفات کے بعد اُن کی اہلیہ سے ہوئی جن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
آپ نے کئی علمی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، خدا تعالیٰ نے آپ کو فہم قرآن اور تحقیق و تدقیق کا ملکہ بھی عطا فرمایا ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل آپ کی کتاب ’’تنویر القلوب‘‘ بہت معروف ہے۔ ایک کتاب ’’روح العرفان‘‘ میں حضرت مسیح موعودؑ کی وہ تحریرات آپ نے یکجا کردی ہیں جو روحانی ترقی میں فائدہ دے سکتی ہیں۔ اس کے گیارہ بارہ سو صفحات ہیں۔ ایک کتاب ’’صداقت حضرت مسیح موعودؑ‘‘ ہے جس کے متعلق ایک بزرگ نے آپ کو لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ مَیں نے یہ کتاب اپنے حضور قبول کرلی ہے۔ اس کے علاوہ پانچ دیگر کتب ہیں اور چھ جلدوں پر مشتمل قرآن کریم کے تفسیری نوٹس اس کے علاوہ ہیں۔ 1921ء میں آپ نے پندرہ پارے بھی حفظ کئے۔ قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کی کلاس آپ نے ہمیشہ جاری رکھی۔ 1985ء میں جب آپ لندن آئے تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر رمضان کے دوران کرائیڈن مشن ہاؤس میں درس قرآن دینے کی سعادت پائی۔
وکالت کی پریکٹس شروع کرتے ہی آپ کا معمول تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے گورداسپور سے ہر ہفتہ کو سائیکل پر قادیان چلے جاتے۔ یہ فاصلہ 18 میل کا تھا۔ کبھی ناغہ نہ کیا۔ حضورؓ کی معیت میں کئی سفروں کی بھی توفیق پائی اور 1927ء میں ڈلہوزی میں گرمیوں کی تعطیلات حضورؓ کی صحبت میں گزارنے کی سعادت ملی۔ حضورؓ آپ سے بہت محبت کا سلوک فرماتے۔
1922ء میں جب مجلس مشاورت کا آغاز ہوا تو آپ جماعتی نمائندہ کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے۔ 1926ء میں جب مقامی جماعت کی طرف سے آپ کا نام نہ گیا تو حضورؓ نے ازخود آپ کو ممبر مقرر فرمادیا۔ اس کے بعد سے آپ باقاعدگی سے مجالس مشاورت میں شریک ہوتے آ رہے ہیں۔ صرف 1970ء اور 2000ء میں بیماری کی وجہ سے شامل نہ ہوسکے۔ حضورؓ کے دور سے مجلس مشاورت کے کئی اجلاسات کی صدارت کی سعادت بھی آپ کو ملتی رہی ہے۔
1926ء میں گورداسپور کے امیر مقرر ہوئے اور قیام پاکستان تک خدمت بجالائے۔ 1948ء میں سرگودھا رہائش اختیار کی اور اُس وقت سے وہاں کے امیر ہیں۔ 1951ء میں صوبائی امارت قائم ہوئی تو آپ صوبائی امیر پنجاب مقرر ہوئے اور 1998ء تک خدمت کی جب صوبائی امارت اختتام کو پہنچی۔ آپ پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں پچاس سال تک صدر انجمن احمدیہ کے ممبر رہے۔ 35 سال تک صدر قضاء بورڈ رہے اور چالیس سال سے جماعت کی فنانس کمیٹی کے ممبر ہیں۔ دو سال صدر وقف جدید رہے۔ تدوین فقہ کمیٹی، زکوٰۃ کمیٹی اور انٹرنیشنل رشتہ ناطہ کمیٹی کے صدر رہے۔ خلافت ثانیہ کے آخری ایام میں صدر نگران بورڈ بھی رہے۔ 1952ء میں مجلس افتاء کے رکن مقرر ہوئے اور 1969ء تا 1975ء اور پھر 1993ء سے تاحال اس کے صدر ہیں۔
آپ کو جلسہ سالانہ کے مواقع پر متعدد تقاریر کرنے کا موقع بھی ملا اور ربوہ اور لندن کے جلسوں میں کئی اجلاسات کی صدارت کی سعادت بھی عطا ہوئی۔ آپ کو دنیا کے کئی ممالک کی سیاحت کا موقع بھی ملا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ساتھ بھی آپ کا گہرا تعلق رہا۔ حضورؒ خلیفہ بننے کے بعد متعدد مواقع پر آپ کے گھر تشریف لائے۔ 1965ء میں آپ نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنانی شروع کی جو 1966ء میں مکمل ہوگئی۔ حضورؒ نے اس مسجد کا افتتاح بھی فرمایا۔
آپ نے آغاز میں کئی بار اپنے وقف کی درخواست پیش کی۔ آخر ایک بار حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو لکھا کہ آپ کی زندگی وقف ہے، آپ فکر نہ کریں۔ حقیقت میں آپ کو مسلسل ایک واقف زندگی کی طرح ہی خدمت کی توفیق عطا ہورہی ہے۔
2؍جنوری 1948ء کو آپ نے سرگودھا میں بطور سرکاری وکیل چارج لیا۔ اس سے قبل آپ کی فیملی لاہور کچھ عرصہ ٹھہر کر سرگودھا آچکی تھی۔ سرگودھا میں آپ کو ملنے والی کوٹھی میں بہت قیمتی سامان موجود تھا جو آپ نے خود درخواست دے کر حکومت کے بیت المال میں جمع کروا دیا۔ اگرچہ متعلقہ افسر نے آپ سے کہا کہ آپ بھی تو ہندوستان میں اپنا سامان چھوڑ کر آئے ہیں لیکن آپ نے جواب دیا کہ قانون یہی کہتا ہے کہ یہ سامان پہلے بیت المال میں جمع ہوگا اور پھر مستحقین میں تقسیم ہوگا۔
آپ کے ذاتی کتب خانہ میں 9 الماریاں نایاب کتب سے بھری ہوئی ہیں اور بہت سا علمی خزانہ آپ خلافت لائبریری ربوہ کو دے چکے ہیں۔
آپ ملک بھر میں ایک ممتاز قانون دان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ 1980ء میں صدر ضیاء الحق نے آپ کو اقلیتوں کے لئے صدارتی مشیر مقرر کرنا چاہا۔ جب ڈپٹی کمشنر نے آپ کو پیغام دیا تو آپ نے اُسے جواباً فرمایا: ’’مَیں سر تا پا اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفیﷺ کا پیروکار سمجھتا ہوں۔ آپؐ پر ایمان لانا ہمارا دین ہے اور قرآن کریم کو اوّل تا آخر خدا کا کلام سمجھتا ہوں۔ حج کی سعادت حاصل کرچکا ہوں اور 16 سال کی عمر سے اب تک کوئی نماز یا روزہ قضا نہیں کیا اور حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کو اپنی بہت بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں جنہیں غلبہ اسلام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اندریں حالات آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مَیں اس عہدہ کو قبول کرلوں گا؟‘‘۔ اس کے جواب میں چند دن بعد دارالحکومت اسلام آباد سے بغیر دستخط کے ایک خط آپ کو موصول ہوا جس میں تحریر تھا کہ کیوں نہ آپ کی جماعت کو باغی قرار دیدیا جائے اور آپ لوگوں کی جائیدادیں ضبط کرلی جائیں؟۔
اسی طرح جب ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ قائم کی تو اسلام آباد سے انسپکٹر جنرل کا آپ کو فون آیا کہ آپ کا نام بھی اس کی ممبری کے لئے تجویز کیا گیا ہے، آپ کو منظور ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر بحیثیت مسلمان پیش کرو تو منظور ہے اگر بحیثیت اقلیت پیش کرو تو منظور نہیں۔ اُس نے کہا کہ ہم مذہب وغیرہ کچھ نہیں لکھیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اس طرح تو مَیں اقلیت ہی سمجھا جاؤں گا اس لئے منظور نہیں۔ وہ پچیس منٹ بات کرتا رہا اور آخر میرے مسلسل انکار پر فون بند کردیا۔
1984ء کے آرڈیننس کے بعد آپ کے خلاف چار مقدمات درج ہوئے جن سے آپ بری قرار دیئے گئے۔ دو مقدمات مساجد پر کلمہ لکھوانے کے سلسلہ میں بنے اور ایک خدام کے اجتماع میں تقریر کرنے پر قائم ہوا جبکہ ایک مقدمہ آپ اور محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب پر مشترکہ قائم ہوا جب حضرت میاں صاحب نے مجلس مشاورت کی صدارت کی اور آپ اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
1986ء میں آپ کا امریکہ میں پیٹ کا آپریشن ہوا۔ سرجن نے بعد میں کہا کہ آپ کا پیٹ اندر سے اس طرح صاف ہے جس طرح ایک دو سال کے بچے کا ہوتا ہے۔ آپ کی لمبی عمر کے بارہ میں کئی لوگوں کو خوابیں آئی ہیں۔ ایک خواب میں آپ کی عمر 120 سال بتائی گئی۔ آپ کی صحت بہت اچھی ہے اور روزانہ متوازن خوراک استعمال کرتے ہیں جس میں دیسی انڈہ، دودھ، بادام، شہد، چھوٹے گوشت کے کباب، چاول، سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔ آپ ہمیشہ وہ خوراک کھاتے ہیں جس کا دل چاہے، کبھی بھی فالتو چیز نہیں کھاتے۔ سیر کے لئے اپنے وسیع مکان کے کئی چکر لگالیتے ہیں نیز نماز تہجد کو بھی اپنی سیر کا حصہ بتاتے ہیں۔
جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو آپ کو خیال آیا کہ اب بڑھاپا شروع ہورہا ہے اور مَیں نے کچھ بھی جمع نہیں کیا۔ تب آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے فضل کئے رکھا ہے، آئندہ بھی ایسا رہے۔ آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ مَیں اس سے زیادہ تیری حفاظت کروں گا جو اس سے پہلے تھی۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نہ کبھی غیرمعمولی بیمار ہوئے نہ کبھی مالی تنگی کا شکار ہوئے۔
1931ء میں آپ ایک بار مقروض ہوگئے اور مکان کا کرایہ 840 روپے واجب الادا ہوگیا۔ ایک دوست کو علم ہوا تو وہ پانچ سو روپے لے کر آئے کہ بطور قرض رکھ لیں لیکن آپ نے لَوٹادیئے اور دعا کرنی شروع کی تو خواب میں بتایا گیا کہ یہ تکلیف اس لئے تجھ پر لائی گئی ہے کہ صبر پیدا ہو۔ پھر وہ قرض معلوم نہیں کب ادا ہوگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں