محترم مسعود احمد خورشید صاحب سنوری

روزنامہ الفضل ربوہ 4؍اپریل 2011ء میں مکرمہ حامدہ سنوری فاروقی صاحبہ نے اپنے والد محترم مسعود احمد خورشید صاحب کا تفصیل سے ذکرخیر کیا ہے۔
محترم مسعود احمد خورشید صاحب 18؍اپریل 1923ء کو سنور ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤاجداد عرب سے ہجرت کر کے حصار ضلع رہتک نزد دہلی آئے اور پھر وہاں سے ہجرت کر کے سنور ریاست پٹیالہ میں آباد ہوئے۔ آپ کے والد حضرت مولوی قدرت اللہ صاحبؓ سنوری نے پہلے خط کے ذریعہ اور پھر 1898ء میں سولہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کی دستی بیعت کی تھی۔ پھر ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں ان کے والد حضرت مولوی محمد موسیٰ صاحبؓ اور دادا حضرت مولوی محمد عیسیٰ صاحبؓ نے بھی بیعت کی توفیق پائی۔ ان کی دادی حضرت کرم النساء صاحبہؓ اور والدہ حضرت رحیمن بی بی صاحبہؓ بھی صحابیات میں شامل تھیں۔ نانا حضرت چوہدری کریم بخش صاحبؓ اوّلین صحابہ میں سے تھے (وصیت نمبر 19) اور نانی حضرت جیون صاحبہؓ بھی بہت بزرگ صحابیات میں شامل تھیں۔ سوائے پردادا کے باقی تمام مذکورہ بالا بزرگان موصی تھے اور بہشتی مقبرہ قادیان و ربوہ میں مدفون ہیں۔
حضرت مولوی قدرت اللہ صاحبؓ سنوری کے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی رحیمن بی بی صاحبہؓ کو ان کے والد کے ہمراہ قادیان لے گئے اور ایک خط حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں اپنی بیوی کے ہاتھ بھجوا دیاجس میں دوسری شادی کی اجازت مانگی۔ خط ملاحظہ فرمانے کے بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’ہم دعا کریں گے‘‘۔ پھر فرمایا :ان کو میری طرف سے خط لکھ دو: ’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمہاری اس قدر اولاد ہو گی کہ تم سنبھال نہیں سکوگے‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مولوی قدرت اللہ صاحبؓ سنوری کو اِسی بیوی کے بطن سے 14 بچے عطا فرمائے۔ پہلا بیٹا 1908ء میں اور سب سے چھوٹی بیٹی 1935ء میں پیدا ہوئی۔ حضورؑ کے فرمان کے مطابق 5 بچوں کو وہ سنبھال نہ سکے اور وہ بچپن میں وفات پاگئے۔ باقی 9 بچوں نے لمبی عمر پائی اور صاحب اولاد ہوئے۔ مسعود خورشید صاحب معجزانہ طور پر پیدا ہونے والے چودہ بچوں میں سے آٹھویں نمبر پر تھے۔ آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے والدین اورحضرت مولوی عبداللہ سنوری ؓصاحب کو رؤیا میں ایک عالی دماغ لڑکے کی بشارت دی گئی تھی۔اور سنور کی ایک بزرگ خاتون نے اپنی ایک خواب سنائی کہ قدرت اللہ کے گھر پر انہوں نے سورج چمکتا دیکھا ہے۔ غالباً اسی لئے آپ نے اپنا تخلّص خورشید رکھ لیا تھا۔ جبکہ نام ’مسعود احمد‘ حضرت مصلح موعودؓ نے عطا فرمایا تھا۔ ایک دوسرے خط میں حضورؓ نے ’رحمت اللہ‘ کا نام بھی عطا فرمایا تھا۔ اسی لئے بعد میں آپ نے اپنی اکثر رہائشی اور کاروباری عمارتوں نیز خودنوشت کتاب کا نام بھی ’’نشانِ رحمت‘‘ رکھا۔ آپ کی والدہ رحیمن بی بی صاحبہ نے (جنہیں دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا نور دیکھنے اور 11 مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا میں زیارت کا شرف حاصل ہوا) خواب میں دیکھا کہ ان کے پیروں میں جھانجھریں بندھی ہیں اور گھنگھرو زور سے چھنک رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؑ نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ ’’آپ کی اولاد تمام دنیا میں پھیل جائے گی‘‘۔
1935ء میں حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ کو حضرت مصلح موعودؓ نے سندھ کی زمینوں پر بطور مینیجر جانے کا ارشاد فرمایا۔ اُس وقت بڑے بیٹے نے میٹرک کا امتحان دیا تھا، باقی بچے چھوٹے تھے۔ اس لئے اُن کی اہلیہ صاحبہ نے پریشان ہوکر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں خط لکھوا دیا کہ مولوی صاحب کو واپس بلا دیں۔ حضورؓ نے تو اجازت دیدی مگر مولوی صاحب نے رو رو کر دعائیں کیں اور حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ لِلہ میرے بیوی بچوں کے لئے دعائے خاص فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو مضبوط کردے اور وہ مجھے واپس نہ بلاویں بلکہ اللہ تعالیٰ کو بلاویں…۔
مکرم مسعود احمد خورشید صاحب آٹھویں جماعت سنور میں پاس کرنے کے بعد اپریل 1937ء میں قادیان میں اپنی پھوپھی اخترالنساء صاحبہ اہلیہ حضرت منشی نور محمد صاحبؓ کے پاس آگئے۔ یہ دونوں نہایت صالح بزرگ تھے۔ انہوں نے آپ کو قرآن کریم پڑھایا اور دینی تعلیم دی۔ پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول سے آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ جس کے بعد جولائی 1939ء سے تقریباً ڈیڑھ سال تک حضرت مصلح موعودؓ کی کی زیر نگرانی M N SYNDICATE کے دفتر میں پہلے آفس کلرک اور پھر اکاؤنٹنٹ کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ جس کے بعد حضورؓ نے منور آباداسٹیٹ سندھ میں اکاؤنٹنٹ کی خدمت سپرد کردی۔ ایک سال وہاں کام کیا لیکن سندھ کی آب و ہوا موافق نہ ہونے پر حضورؓ کی اجازت سے کوئٹہ چلے گئے اور نوک کنڈی میں حضورؓ کی قائم کردہ یونیورسل ٹریڈنگ کمپنی میں کچھ عرصہ مدد کرواتے رہے۔
5 فروری 1942ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد مبارک قادیان میں آپ کا نکا ح ناصرہ بیگم صاحبہ بنت بابو عبدالغفور مرحوم سے پڑھایا۔ ناصرہ بیگم صاحبہ کے والدین وفات پاچکے تھے۔ جب نکاح فارم حضورؓ کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا: ’’قوم کے یتیم بچے قوم کی امانت ہوتے ہیں اور میں بحیثیت خلیفہ اس بات کا حقدار ہوں کہ اپنی ولایت میں نکاح کا اعلان کروں‘‘۔ بعد ازاں حضورؓ نے بچی کو رخصتانہ کے موقع پر بھی اپنی دعاؤں سے رخصت فرمایا۔ خدا کے فضل سے یہ رشتہ نہایت کامیاب اور باہمی احترام کا نمونہ بنا رہا۔
مسعود خورشید صاحب نے کوئٹہ سے ادیب عالم کا امتحان 1943ء میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیااور پھر 1945ء میں ادیب فاضل کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ کچھ عرصہ Arsenal میں اکاؤنٹنٹ متعین رہے۔ اس دوران بی اے کا کورس مکمل کیا مگر جنگ عظیم کی وجہ سے امتحان نہ دے سکے۔ 1950ء میں لاہور آ کر ’’ایران ٹریڈ سنٹر‘‘ کے نام سے دکان شروع کی۔ خدا تعالیٰ نے کاروبار میں اتنی ترقی عطا فرمائی کہ تجارتی مال کے گودام شہر بھر میں 11 مختلف جگہوں پر قائم کئے۔ فارسی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کا فائدہ خط و کتابت میں بہت رہا۔ کاروبار میں تیسرے حصہ کی شراکت مل گئی۔ کار بھی خرید لی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی از راہ شفقت کئی مرتبہ سفر فرمایا۔ 1954ء میں ربوہ میں دو کنال زمین خرید کر چھ کمروں کا وسیع مکان بنوایا جس میں اپنے خاندان کی مختلف فیملیاں آکر قیام کرتیں۔
والدین کی خدمت کا ایسا جذبہ تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا 11؍ اکتوبر 1904ء کا الہام کہ ’’قدرت اللہ کی بیوی روپوں کی ڈھیری پیش کرتی ہے جس میں ایک لکڑی بھی ہے‘‘(تذکرہ۔ایڈیشن پنجم صفحہ 484) کو پورا کرنے کے لئے آپ نے دو ہزار روپیہ کی تھیلی اپنی والدہ صاحبہ کے ذریعہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کی۔ پھر اپنے خرچ پر والدین کو 1958ء میں حج کروایااور کراچی میں ناظم آباد اور گولیمار میں مساجد کے لئے زمین خرید کر والدین کے نام سے وقف کر دی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے 25 سیٹ خرید کئے۔ ہر چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے والد کے مشرقی پاکستان جماعتی دورہ پر جانے کے تمام اخراجات برداشت کئے۔ محترم مسعود خورشید صاحب کو 1960ء اور 1961ء میں حج بیت اللہ کی دو بار سعادت ملی۔ بعد میں حج کے موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کرکے شائع کیا۔
31 دسمبر1969ء کو محترم مسعود صاحب ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے گرکر شدید زخمی ہوگئے۔ حالت نازک تھی۔ لاہور لے جانا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اطلاع ملنے پر اُسی وقت فضل عمر ہسپتال تشریف لائے اور آپ سے فرمایا کہ ’’آپ خدا تعالیٰ کے لئے ربوہ آئے تھے۔ خدا تعالیٰ شفا بخشے گا اور آپ اپنے پاؤںسے چل کر آئیں گے‘‘۔ حضورؒ نے وہاں اجتماعی دعا کروائی اور علاج کے متعلق ہدایات عطا فرمائیں۔ حضورؒ کی دعاؤں کی قبولیت کا معجزہ تھا بعد میں 41 سال تک (ایک پاؤں اس حادثہ میں ضائع ہونے کے باوجود) محترم مسعود صاحب ہر جلسہ سالانہ میں آکر شامل ہوئے۔ پھر لنڈن میں اور امریکہ ، کینیڈا ، قادیان میں جلسوں میں شریک ہوئے۔جلسہ سالانہ قادیان 1980ء میں تقریر کی سعادت بھی پائی۔
حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ نے اپنے والد صاحبؓ کے بارہ میں لکھا ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اُن کی دعاؤں اور عبادات کا رنگ بالکل بدل گیاتھا۔ اس سوز اور رقت کے ساتھ دعائیں کرتے تھے کہ لوگ سن کر خیال کرتے کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا شاید وہ فوت ہو گیا۔ 1904ء میں انہیں طاعون ہوئی۔ اس حالت میں انہوں نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ تم قدرت اللہ کے دو بیٹے دیکھ کر وفات پاؤ گے۔ چنانچہ جب 1923ء میں مسعود احمد پیدا ہوا اور 1925ء میں داؤد احمد پیدا ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ دو لڑکے ہیں جنہیں میں نے چلتے پھرتے دیکھا تھا۔ چنانچہ 1937ء میں وہ سنور میں فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
محترم مسعود احمد خورشید صاحب 1956ء میں کراچی منتقل ہوئے۔ مجالس شوریٰ میں نمائندہ کے طور پر سالہاسال شامل ہوتے رہے۔ جماعت احمدیہ کراچی کے سیکرٹری خدمت خلق بھی رہے۔ جماعت کے بہت سے لوگوں کو ابتدائی تربیت اپنے دفتر میں دے کر ملازمتیں دلوائیں۔ کاروبار شروع کرنے میں مدد دی۔ غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کو تمام عمر وظائف دیتے رہے۔ اکثر مبلغین اور احمدی حجاج کرام آپ کے ہاں قیام بھی کرتے اور سفر کی تیاری بھی کرتے۔ آپ کا گھر لمبا عرصہ مرکز نماز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پاکیزہ فقرے ہمیشہ نمایاں لکھ کر اپنے سامنے رکھتے: ’’خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ : ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں‘‘۔
خلیفۂ وقت ہجرت کر کے لندن تشریف لے گئے تو ہر سال جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے رہے۔ 1991ء سے مستقل رہائش امریکہ میں اختیار کر لی۔ جہاں بھی رہے اپنے گھر کو مرکز نماز کے طور پر پیش کیا۔ نماز با جماعت کی بے انتہا پابندی کرتے۔ تبلیغ اور تعلیم و تربیت میں مساعی ساری عمر کرتے رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور تفسیرکبیر کا باقاعدہ مطالعہ کرتے اور اپنے نکات درج کرتے۔ قرآن کریم سے بہت محبت تھی۔ نوافل میں بہت وقت صرف کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا اور درثمین فارسی کے نعتیہ اشعار اکثر پڑھتے رہتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اپنا ایک مضمون (جو انصار اللہ کے ایک علمی مقابلہ کے لئے لکھا تھا اور اوّل انعام کا حقدار ٹھہرا تھا) ’’سیرت طیّبہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا اور تقسیم کیا۔قرآن کریم کے تراجم ، حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب اور دیگر جماعتی کتب بھی خریدکر تقسیم کیا کرتے تھے۔ خصوصاً مکرم کریم ا للہ زیروی صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھی جانے والی کتاب اور “Welcome to Ahmadiyyat” بہت تقسیم کروائی۔ اپنی ذات پر تو سوائے اشد انسانی ضروریات کے، خرچ کرنا پسند نہیں کرتے تھے مگر اسلامی تعلیمات کے پھیلانے کے لئے نہایت دریا دل تھے۔ اپنے والدین اور اہلیہ مرحومہ کی طرف سے متعدد مدّات میں رقوم پیش کرنے کی توفیق پائی۔ لکھائی نہایت خوشخط تھی۔ لکھنے کا بہت ملکہ عطا ہوا تھا۔ خط و کتابت کا حلقہ نہایت وسیع تھا۔ 70 سال کی عمر میں کمپیوٹر کا استعمال سیکھا۔ اپنے سب ذاتی کام خود کرتے۔ کپڑوں پر استری کے لئے کبھی کسی کو تکلیف نہ دیتے۔ جوتی خود ہی پالش کرتے۔ اپنی پلیٹ کھانا کھانے کے بعد ہمیشہ خود اٹھا کر لے جاتے اور دھو کر رکھتے۔
امریکہ میں تقریباً 17 سال قیام پذیر رہے۔ تمام چندے حصہ وصیت سمیت سال کے شروع میں باقاعدگی سے ادا کر دیتے۔ حسن کارکردگی کے Award کئی سال ملتے رہے۔ بفضل اللہ تعالیٰ چار خلافتوں کا زمانہ دیکھنا نصیب ہوا۔ خلافت سے دلی محبت عقیدت اور خادمانہ تعلق تھا۔ ہر اہم کام شروع کرتے وقت خلیفۂ وقت سے دعا کے لئے عرض کرنے کے بعد کام شروع کرتے۔ ہر خوشی غمی کی اطلاع کرتے ۔ بچوں کو بھی ہمیشہ خلیفۂ وقت سے محبّانہ اور خادمانہ تعلق رکھنے کی نصیحت کرتے۔ کبھی سکون اور تحمل کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ہر قسم کے حالات میں خوش مزاجی اور مسکراہٹ برقرار رہتی۔ ٹانگ ضائع ہونے سے 41 سال درد اور بے چینی کی تکلیف برداشت کی مگر کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے۔
وفات سے تین ہفتے قبل ہارٹ اٹیک ہوا۔ حالت خطرناک تھی۔ بچے رنجیدہ تھے تو آپ نے ایک ایک کو قریب بلا کر پیار کیا اور کہا: بیٹا ! رنج نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ تو تقدیر الٰہی ہے۔ حوصلہ رکھو ! میں تم سب سے بہت خوش ہوں۔ سب سے زیادہ (چھوٹے داماد) قمر احمد سے خوش ہوں کیونکہ وہ دن رات تبلیغ کرتے ہیں۔ بس میری یہ بات یاد رکھنا کہ ہر کام میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ نماز اور قرآن پڑھنے کا ہمیشہ خیال رکھنا ۔ خلیفۂ وقت سے ہمیشہ خادمانہ تعلق رکھنا اور جماعت کے کام کرتے رہنا ۔ ایک دوسرے سے ہمیشہ مل کر رہنا۔
23 ستمبر 2010ء بروز جمعرات 87 سال کی عمر میں وفات پائی۔ احمدیہ قبرستان Maryland امریکہ کے قطعہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں آپ کی نماز جناز غائب پڑھائی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے گیارہ بچوں سے نوازا۔ تیسری نسل تک کے بچے ملاکر تعداد نصف صد کے قریب ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں