محترم مولانا دوست محمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 جولائی 2010ء میں مکرم حافظ عبدالحمید صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ 1973ء میں ہم بغرض تعلیم ربوہ آکر آباد ہوگئے۔ یہاں حفظ قرآن کی سعادت بھی حاصل کی۔ تیرہ سال کی عمر میں واہ کینٹ میں پہلی بار تراویح پڑھانے کی توفیق ملی تو بعض مسائل پیش آئے۔ ربوہ واپس آکر محترم مولانا دوست محمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر مسائل بیان کئے۔ آپ نے مجھے بہت ہمدردانہ جواب دیئے۔ اب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو خواہ وہ ایک بچہ ہی کیوں نہ ہو، اہمیت دیتے تھے اور اُس سے شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔
بعد میں ہم جرمنی آگئے تو یہاں بھی ایک بار محترم مولانا صاحب ہمارے شہر ہنوورؔ میں تشریف لائے۔ وہاں گفتگو کے دوران ایک دوست نے چند کتب کا نام لیا کہ وہ یہاں نہیں ملتیں۔ آپ نے اُن کی الماری میں سے ایک کتاب اُنہی سے نکلوائی اور پوچھا کہ کیا آپ نے یہ پڑھی ہے۔ وہ کہنے لگے: نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جو کتب آپ کے پاس موجود ہیں، اُن کا تو مطالعہ کریں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال حافظہ عطا فرمایا تھا۔ میرے ایک دوست نے اپنے دادا جان کا نام لیا جنہیں حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں خدمت کا موقع ملا تھا۔ محترم مولانا صاحب نے اُس نام کے تین دوستوں کا ذکر کیا اور اُن کی خدمات پر روشنی ڈال کر اُس دوست سے پوچھا کہ اُن کے دادا ان میں سے کون تھے؟
ایک دوسرے موقع پر باتوں باتوں میں آپ کے ایک مقالہ کا ذکر ہوا تو آپ نے بتایا کہ فلاں سال کے فلاں رسالہ خالدؔ میں یہ مقالہ شائع ہوا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں