محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم و 2ستمبر 2004ء میں مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب نے اپنے والد محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کی سیرت و سوانح کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کے والد حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ مندرانی بلوچ اپنے علاقہ (بستی مندرانی ضلع ڈیرہ غازیخان) کے معروف زمیندار تھے لیکن آپ کی نیک شہرت اور مقبولیت کا اصل سبب آپ کا زہدو تقویٰ اور عربی و فارسی زبان کا علم رکھنا تھا، فارسی میں اشعار کہتے تھے۔ آپ کا ایک قلمی مجموعہ تھا جو ضائع ہو گیا۔ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تائید میں بھی فارسی کی ایک منظوم کتاب لکھی تھی ۔ آپ کے شاگردوں میں ہر عمر کے پٹھان اور بلوچ شامل تھے۔ آپ کے استاد صاحبِ کشف وکرامت بزرگ حضرت حافظ میاں رانجھا صاحب تھے جو علاقہ بھر میں پیر ومرشد کا درجہ رکھتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مریدوں کی موجودگی میں آپ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ فتح محمد! میں اس دار فانی سے گزر جاؤں گا آپ زندہ ہوں گے، آپ کی زندگی میں امام مہدی کا ظہور ہو گا۔ انکار نہ کرنا‘‘۔ اس وقت یہ عام تاثر تھا کہ جب امام مہدی کا نزول ہوگا تو وہ جہاد بالسیف کا اعلان کریں گے۔ اسی وجہ سے آپ نے اس وقت ایک تلوار خریدی، ساتھ ہی کندھے پر ہمیشہ چادر رکھتے تاکہ جونہی امام مہدی جہاد کے لئے پکاریں تو فوری لبیک کہہ سکیں۔

محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب

حسن اتفاق سے آپ کی بستی کے ایک احمدی مکرم محمد شاہ صاحب حصول تعلیم کی خاطر راولپنڈی گئے اور حکیم شاہ نواز صاحب کے ہاں مقیم ہوئے۔ وہاں انہوں نے 1901ء میں حضرت مسیح موعود ؑ کا ذکر سنا تو فوراً قادیان چلے گئے اور جاتے ہی بیعت کا شرف پایا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود ؑ کی چند کتب و تصاویر ساتھ لائے۔ جن کا مطالعہ کرتے ہی بستی مندرانی کی آٹھ سعید روحوں نے پہلے تحریری اور پھر 1903ء میں دستی بیعت کا شرف پایا۔ پندرہ بیس روز قادیان میں قیام کیا اور رسالہ ریویو بھی جاری کروایا۔
حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب کی دو بیویاں تھیں جن سے چھ بیٹے تھے۔ ایک صغرسنی میں وفات پاگئے جبکہ باقی پانچ مخلص احمدی تھے۔ ان میں (مضمون نگار کے والد) محترم مولوی ظفر محمد ظفر صاحب 9؍ اپریل 1908ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرکے 22مارچ1921ء کو قادیان چلے گئے اور 1922ء سے 1929ء تک آپ نے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ) کا ہم جماعت رہنے کا شرف بھی پایا۔ 1929ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ پھر دو سال جامعہ احمدیہ میں مربیان کورس کیا اور اس دوران ’’جامعہ احمدیہ‘‘ رسالہ کے دو شمارے بھی مرتب کئے جن میں سے ایک سالانہ نمبر تھا۔ اسی دوران آپ کے والدین کا انتقال ہوگیا۔
جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہاولپور میں بطور مربی مقرر کئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد متعین ہوئے اور 1935ء تک تدریسی فرائض سرانجام دئیے۔ 1936ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ 1937ء میں حضرت صاحبزدہ مرزا شریف احمد صاحب کی زیرِ نگرانی انچارج کارخاص رہے۔ 1938ء میں نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں بطور معلم کام کیا۔ اس دوران بطور قاضی سلسلہ بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔
پھر مارچ 1939ء سے مارچ 1944ء تک اپنے وطن میں قیام پذیر رہے اور اس دوران ادیب فاضل ، منشی فاضل اور ایف اے کے امتحان پاس کئے۔ 1944ء میں آپ کو جامعہ احمدیہ میں پروفیسر لگا دیا گیا جہاں 1956ء تک تدریسی خدمات سر انجام دیں اور بالآخر آنکھوں کی تکلیف کے باعث جامعہ احمدیہ سے فارغ ہوگئے۔ تاہم 1964ء تا 1966ء حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض عربی کتب کا ترجمہ کیا۔
جب آپ مدرسہ احمدیہ میں زیرتعلیم تھے تو چند لڑکوں کے درمیان رنجش ہوگئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ایک سہ رکنی کمیشن کا صدر نامزد فرمایا۔ جب آپ نے تحقیق کے بعد فیصلہ دیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ ’’کوئی قاضی اس سے بہتر فیصلہ نہیں دے سکتا‘‘۔ جس کے بعد حضور نے آپ کو مستقل قاضی مقرر فرمادیا۔
ایک دفعہ بٹالہ کے دو دوستوں کا قضیہ قادیان میں آیا۔ پہلے دفاتر میں فیصلے ہوئے پھر قضا میں پہلے ایک قاضی نے اور پھر دو قاضیوں نے فیصلہ کیا پھرتین قاضیوں کے بورڈ میں پیش ہوا جس میں آپ بھی شامل تھے۔ باقی سب فیصلے مدعی کے حق میں تھے لیکن آپ کا فیصلہ اختلافی تھا۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے محترمشیخ بشیر احمد صاحب (بعد میں جج ہائیکورٹ) کو لاہور سے بلوایا تو انہوں نے آپ کے دئیے ہوئے فیصلہ کی تائید فرمائی اور حضورؓ نے اس فیصلہ کو نافذ فرما دیا۔ آپ کا فیصلہ پڑھنے کے بعد محترم شیخ صاحب نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر آپ کو مبارکباد اور داد دی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطا کیا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کے وقت ایک سال میں دو دو جماعتوں کا امتحان پاس کیا۔ 1929ء میں آپ بیمار پڑ گئے تو اساتذہ نے مشورہ دیا کہ اس سال آپ ’مولوی فاضل‘ کا امتحا ن نہ دیں۔ آپ نے جواباً عرض کیا کہ آپ مجھے اجازت دیں، میں انشاء اللہ پاس ہوجاؤں گا۔ سو اجازت ملنے پر آپ امتحان میں شامل ہوئے۔ جامعہ کے 15 طلباء میں سے 7 پاس ہوئے۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ اول اور آپ دوم آئے۔
حماسہ ومتنبی عربی نظموں کی دوضخیم کتابیں ہیں۔ آپ فرمایا کرتے کہ ان کتب میں سے کوئی ایک مصرعہ پڑھے تو اس شعر کا دوسرا مصرعہ میں زبانی سناؤں گا۔ آپ کو اپنا سارا کلام بلکہ دیگر شعراء کے بھی ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ آپ کو اپنی شیرخوارگی کا زمانہ بھی یاد تھا۔
آپ اپنے شاگردوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ کافی عرصہ ٹیوٹر ہوسٹل اور سپرنٹنڈنٹ مدرسہ احمدیہ رہے۔ نماز فجر کیلئے طلبہ کو بیدار کرنے کیلئے ہوسٹل کے صحن میں نہایت خوش الحانی سے بلند آواز میں تلاوت قرآن کرتے اور عربی اور اردو کے اشعار پڑھتے۔ ایک دفعہ موسم گرما کی تعطیلات پر جب طلبہ اپنے گھروں کو چلے گئے تو حیدرآباد (دکن) بھارت سے آیا ہوا ایک لڑکا باقی رہ گیا۔ آپ اُسے اپنے ہمراہ ڈیرہ غازیخان لے آئے اور اسے اپنے بچوں کی طرح رکھا۔ اسی طرح ایک بار راولپنڈی کا رہنے والا ایک لڑکا مولوی فاضل کے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی اثناء میں تعطیلات ہوئیں تو اُس کے سوا سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ پریشان بیٹھا تھا کہ کس منہ سے گھر جائے گا کہ آپ نے اسے گلے لگایا اور کہا تم تعطیلات یہیں گزارو میں تمہیں امتحان کی تیاری کروادوں گا۔ پھر سارا عرصہ وہ ہمارے گھر میں ہی رہا اور جلد ہی اُس نے تیاری کرکے امتحان پاس کرلیا۔
آپ کی دعا میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب تاثیر رکھ چھوڑی تھی۔ بلکہ آپ کی باتوں میں بھی ایک خاص اثر تھا۔ مثلاً میری ولادت پر آپ نے نافع الناس وجود ہونے کی درخواست دعا شائع کروائی۔ عجیب اتفاق ہے کہ باوجود بالکل بے علم وہنر ہونے کے اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی خاص حکمت اور مصلحت کے تحت ایسے ایسے اسباب پیدا کئے کہ میرے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود بھی مجھے مذکورہ دعا کا مصداق بننے کی توفیق ملی۔
اسی طرح آپ نے میرے بھائی عزیزم طاہر احمد ظفر کی پیدائش پر چار اشعار کہے جس میں ایک جگہ فرمایا:

اسلام کی سٹیج کا تُو شہسوار ہے

عجیب اتفاق ہے کہ عزیزم طاہر شروع میں ایک آزاد منش انسان تھا مگر آہستہ آہستہ اس کی ایسی کایا پلٹی کہ وہ واقعی اس دعا کا مصداق نظر آنے لگا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے جرمنی میں سو مساجد کی تحریک جاری فرمائی تو سب سے پہلے ’’مسجد حمد‘‘ تعمیر ہوئی جس کی سعادت بحیثیت ریجنل امیر عزیزم طاہر کے حصہ میں آئی۔ اس طرح جرمنی کے علاوہ دیگر قریبی ممالک میں بھی انہیں دعوت الی اللہ کی توفیق میسر آرہی ہے۔
آپ ہمیشہ سچی اور سیدھی بات کرتے۔ ایک بار بستی مندرانی میں ہمارے کسی عزیز کو رات سوتے میں کسی نامعلوم شخص نے شدید ضرب پہنچائی اور اُس کے بچنے کی امید نہ رہی۔ پولیس نے مشتبہ اور مخالف عناصر کو حراست میں لے کر تشدد شروع کردیا۔ آپ کو اطلاع ملی تو فوراً وہاں پہنچے اور عزیزوں سے الگ الگ ملاقات میں یہ عقدہ کھلا کہ ملزم بھی اپنا ہی عزیز ہے۔ آپ فوراً تھانہ تشریف لے گئے اور افسر کو بتایا کہ یہ لوگ قطعی بے گناہ ہیں اور ملزم اور مضروب دونوں میرے عزیز ہیں۔ چنانچہ آپ نے ملزم کو پیش کردیا۔ افسر اتنا متأثر ہوا کہ گھر سے آپ کے لئے مشروب اور پنکھا منگوایا اور کہا کہ مَیں نے ایسا صاف گو شخص کم ہی دیکھا ہے۔ اس طرح وہ بے گناہ اور اُن کے لواحقین بھی عمر بھر کے لئے آپ کے گرویدہ ہوگئے ۔
آپ انتہائی متوکل اور صابر وشاکر اور قانع طبع تھے۔ آپ ہی کا شعر ہے:

کتنا ہے خوش نصیب ظفرؔ آج تک جسے
دنیا کے حادثات پریشاں نہ کر سکے

1942ء میں آپ کوٹ چٹھہ ضلع ڈیرہ غازیخان میں رہائش پذیر تھے اور ذریعہ معاش بھی بڑا قلیل تھا تو آپ کی چھوٹی بیٹی مبارکہ بیمار پڑگئی۔ آپ نے باوجود مالی تنگی کے ہر ممکن علاج معالجہ کی کوششیں کیں مگر اُس کی وفات ہوگئی۔ اس قصبہ میں کوئی احمدی نہ تھا، آپ نے خودہی جنازہ پڑھایا اور جنازہ میں بھی صرف ہم دونوں بھائی شامل تھے۔ بعد از تدفین جب ہم گھر واپس لَوٹ رہے تھے تووالد صاحب نے ایک دکان سے گوشت لیا اور گھر داخل ہوتے ہی مسکراتے چہرہ کے ساتھ ہماری والدہ کو سلام کہا اور فرمایا کہ ہم نے اپنی تدبیر کی اپنی بساط کے مطابق انتہاء کر دی لیکن تقدیر غالب آئی، اب اس صدمہ کو قطعاً دراز نہیں کرنا۔ گوشت روٹی پکائیں اور سب کھائیں۔ اللہ تعالیٰ غیر معمولی صبر دے گا۔
آپ بہت متوکل تھے۔ قادیان میں جب آپ بطور طالب علم بورڈنگ میں رہتے تھے تو گھر سے کچھ عرصہ تک رقم نہ آنے کے باعث سپرنٹنڈنٹ نے آپ کا کھانا بند کر دیا۔ تب آپ نے یہ عہد کر لیا کہ ارشاد خداوندی کے تحت کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کروں گا۔ آپ تین دن اور دو راتیں بھوکے رہے۔ شام کو ہوسٹل میں طلباء گولہ پھینک رہے تھے۔ آپ بفضلہ تعالیٰ فولادی اعصاب کے مالک اور جسمانی لحاظ سے بھی طاقتور تھے۔ آپ نے گولہ پھینکا تو وہ دوسرے طلباء کے مقابلہ میں زیادہ فاصلہ پر جاگرا۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے استفسار فرمایا کہ ظفر آج تم کیا کھا کر آئے ہو۔ آپ نے مؤدبانہ انداز میں کہا: وہی جو آپ کھلا رہے ہیں۔ اس پر فوری طور پر انہوں نے آپ کا کھانا دوبارہ جاری کردیا بلکہ اپنے گھر پر پُرتکلف دعوت بھی کی۔
اسی طرح قیامِ پاکستان کے وقت جب قتل وغارت کا بازارگرم تھا تو مرکز نے آپ کو ملتان جانے کا حکم دیا۔ پُرخطر حالات اور مالی تنگدستی کے پیش نظر آپ ساری رات دعاؤں اور نوافل میں مصروف رہے۔ صبح کی نماز کے وقت آپ کو سجدہ میں زور سے آواز آئی:

’’ھُوَ الَّذِیْ اَحْیَاکُم …‘‘

یعنی خدا نے تجھے موت کے بعد زندگی بخش دی۔ چنانچہ آپ نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم بخیریت پاکستان پہنچ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ زادِراہ کی مشکلات کا بھی انتظام فرمادے گا۔ آپ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ آپ ملتان پہنچ پاتے جبکہ مرکز سے کرایہ وغیرہ کی بات کرنا بھی آپ کے مزاج کے خلاف تھا۔ اسی اثناء میں حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحبؓ نے سفری اخراجات کے سلسلہ میں 50 روپے کسی کے ہاتھ بھجوادئے اور پیغام دیا کہ مزید رقم کی ضرورت ہوتو بتادیں۔ بہرحال آپ نے ایک قافلہ کے ساتھ قادیان سے سفر شروع کیا اور بخیریت لاہور پہنچ گئے۔
ایک بار ویرانے میں خانہ بدوش قوم کا خونخوار کتا غراتا ہوا آپ کی طرف لپکا تو کتے کے مالک نے دُور سے آواز لگائی: بھاگ جا ورنہ یہ کاٹ کھائے گا۔ جبکہ بھاگنا بے سود تھا۔آپ خدا تعالیٰ پر توکل کرکے دعا کرتے ہوئے کتے کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ کتا آپ کے قریب پہنچ کر یک دم رُک گیا، آپ بھی اسے بغیر آنکھ جھپکائے دیکھتے رہے۔ ایک دو منٹ کے بعد کتے کی چیخ نکلی اور وہ واپس بھاگ گیا۔
ایک دفعہ آپ لاہور میں احمدیہ مسجد دہلی گیٹ جارہے تھے جہاں آپ کا بیٹا ٹھہرا ہوا تھا لیکن راستہ معلوم نہیں تھا۔ آپ نے دعا شروع ہی کی تھی کہ اچانک سامنے سے بیٹا نمودار ہوگیا۔
ایک بار مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ احمدنگر نے پروفیسر صاحبان کو اچکن پہننے کا ارشاد فرمایا تو نامساعد حالات کی وجہ سے آپ کے لئے اچکن تیار کروانا مشکل تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ خدام الاحمدیہ کے دفتر میں کوٹ آئے ہیں وہاں سے لے آئیں۔ لیکن ایسا کرنا آپ کا مزاج نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے دعا شروع کردی تو دوسرے ہی دن ڈاکیہ ایک پارسل لایا جو مکرم غلام حسین صاحب ایاز مربی سلسلہ سنگاپور نے بھیجا تھا۔ وہ تقریباً 16,15سال سے وہاں مقیم تھے اور کبھی رابطہ بھی نہ ہوا تھا۔ انہوں نے خط میں لکھا کہ میں آج اپنے لئے بازار سے اچکن کا کپڑا لینے گیا تومیں نے آپ کے لئے بھی یہ کپڑا خرید لیا جو بطور تحفہ بھجوارہا ہوں۔
آپ نظام سلسلہ کی غیرمعمولی و غیرمشروط اطاعت کے قائل تھے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی دلیل، تاویل وغیرہ کو قطعاً قبول نہ کرتے تھے۔ فرمایا کرتے کہ اصل اطاعت یہ ہے کہ سچے ہو کر بھی جھوٹوں کی طرح تذلّل اختیار کرو۔ غالباً 1950ء میں خدام کے اجلاس میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے خادم نے کوئی بات کی اور قائد صاحب کے استفسار پر میرا نام لے دیا۔ اس پر قائد صاحب نے میرے لئے اجلاس سے نکل جانے کی سزا تجویز کی جو مجھے قابلِ قبول نہ تھی کیونکہ ایک تو میں بے گناہ تھا،دوسرے یہ غلط فہمی بھی تھی کہ میرے والد صاحب جامعہ میں پروفیسر ہیں۔ میرے اس رویہ کی شکایت ہوئی تو پرنسپل صاحب نے مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں مجھے سزا کے لئے طلب کیا۔ میں کھڑا ہوکر سزا قبول کرنے سے گریز کرنے کی طرف مائل ہوا ہی تھا کہ والد صاحب نے گرج دار آواز میں فرمایا: ناصر! فوری تعمیل کرو۔ اور اس طرح اطاعت نظام کا ایسا سبق سکھایا جوتا زیست یاد رہے گا۔
آپ کو قرآن شریف کے ساتھ جنون کی حد تک پیار تھا۔ آپ نے اپنے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ قرآن کریم آپ کے سینے میں چمک رہا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف کی مدح میں آپ نے نہ صرف عربی اور اردو میں کلام کہا بلکہ آپ کا بیشتر وقت قرآن پاک پر تدبر اور غوروفکر کرتے ہی گزرا جس کے نتیجہ میں آپ پر نئے نئے مضامین کھلتے چلے گئے۔ آپ اگرچہ باقاعدہ حافظ تو نہ تھے لیکن کثرت مطالعہ اور مسلسل غوروفکر سے اگر کوئی کسی آیت کا ترجمہ پڑھتا تو آپ اصل آیت بتادیتے۔
یکم اگست 1978ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں آپ نے لفظ ھُدھُد کے لغوی معنی پیش کرنے کے بعد عرض کیا کہ پندرھویں صدی میں جماعت احمدیہ کے پاس اپنا براڈکاسٹنگ اسٹیشن ہوگا کیونکہ لفظ ’ھدھد‘ سورۃ النمل میں آیا ہے اور اس سورۃ کا تعلق پندرھویں صدی سے ہے۔ حضورؒ کی حوصلہ افزائی پر آپ نے تین کتب ’’معجزات القرآن ‘‘(شائع شدہ) ، ’’ہمارا قرآن اور اس کا اسلوب بیان ‘‘اور ’’قرآن زمانے کے آئینہ میں‘‘ ترتیب دیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 15؍مارچ 1994ء کو MTA کی ایک مجلس میں فرمایا: ’’مولوی ظفرمحمد صاحب مرحوم کا میرے ساتھ اگرچہ طالبعلمی اور استاد کا رشتہ تونہ تھا لیکن مجھ سے تعلق بہت گہرا تھا …قرآن کریم کے اوپر عبور توکسی کو نہیں ہوسکتا مگر قرآنی مطالب کو سمجھنے کا شوق بہت تھا اور کئی دفعہ بڑے اچھے نکتے نکال کر لاتے تھے …ایک عجیب درویش انسان تھے۔‘‘
’’معجزات القرآن‘‘ کے مسودہ پر حضورؒ نے خلافت سے قبل ہی یہ تبصرہ فرمایا: ’’آپ نے قرآن کریم کی معجزانہ شان کے جس پہلو پر قلم اٹھایا ہے یہ علمِ قرآن کی ایک ایسی شاخ ہے جس پر آج تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس مسودہ کے مطالعہ سے یہ دیکھ کر طبیعت میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے کہ علوم قرآن کی کائنات میں اس پہلو سے بھی تحقیق اور دریافت کا کتنا بڑا جہان کھلا پڑا ہے۔ اور اہل فکر کو جستجو کی دعوت دے رہا ہے۔ اس مطالعہ سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوا، کئی نئے علمی نکات سے لطف اندوز ہوا۔ تحقیق کی کئی نئی راہوں کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور دل میں اس خیال سے شکرو امتنان کے جذبات پیدا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو آپ کے غلاموں کے حق میں قبول فرما رہا ہے اور علم ومعرفت میں ترقی کے نئے نئے دروازے ان پر کھول رہا ہے۔ الحمد للہ ثم الحمدللہ‘‘۔
حضورؒ نے 10؍جنوری 1997ء کو ایم ٹی اے پر آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک احمدی سکالر مکرم مولوی ظفر محمد صاحب تھے جو حروف مقطعات کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بڑی محنت سے ان پر تحقیق کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مقطعات کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفۃالمسیح الثالث ہوں گے۔ چونکہ خلیفہ وقت کی زندگی میں کسی اور کی خلافت کے بارہ میں سوچنا یا نام لینا منع ہے، انہوں نے اپنی تحقیق کو لکھ کر بند کرکے حضرت مرزاناصر احمد صاحب کو دے کر یہ استدعا کی کہ میری وفات کے بعد اس کو کھولا جائے یا جب میں آپ سے درخواست کروں۔ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی صحیح تھی۔
مولوی ظفر محمد صاحب ایک دن میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میں وقف جدید میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے چوتھے خلیفہ کا نام بھی معلوم کر لیا ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں گا نہیں (جبکہ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھ لیا تھا)۔ جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلافت عطا کی تو ان کی وفات اس سے قبل ہو چکی تھی تو میں نے ان کے بچوں خصوصاً ان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ ڈائری کا وہ صفحہ تلاش کریں کہ کس قرآنی سورۃ سے انہوں نے یہ اخذ کیا ہے۔ ان کے بڑے بیٹے نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک ڈائری تھی جو اپنے پاس رکھا کرتے تھے وہ اب ہمیں مل نہیں رہی۔… جب میں ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ جب وہ میرے پاس آئے تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ایک روشنی تھی وہ مجھے خلیفہ رابع کے بارہ میں بتانا چاہتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے اظہار نہ کیا۔ اس سے میرا یہ نظریہ تقویت پکڑتا ہے کہ واقعی اس میں آنے والے زمانہ کے لئے بھی پیشگوئیاں ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوتی ہیں‘‘۔
آپ قادر الکلام شاعر تھے۔ اردو، عربی اور فارسی میں فن شعر گوئی کا ملکہ حاصل تھا۔ ہر سہ زبانوں میں آپ کا کلام سلسلہ کے جرائد میں شائع ہوتا رہا۔ شعری مجموعہ ’’کلام ظفر‘‘ کے نام سے آپ کی زندگی میں شائع ہوا۔ آپکے زمانہ طالب علمی میں حضرت حکیم فضل الرحمن صاحبؓ جب 7 سال افریقہ میں خدمات سر انجام دینے کے بعد واپس تشریف لائے تو جامعہ احمدیہ قادیان میں اُن کو استقبالیہ دیا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ بھی اس تقریب میں تشریف فرما تھے۔ اس موقع پر محترم مولوی ظفر محمد صاحب ظفرؔ نے ایک عربی نظم پڑھی تو حضورؓ نے اپنی تقریرمیں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے جامعہ کا کوئی طالب علم اتنی فصیح وبلیغ نظم بھی کہہ سکتا ہے۔
آپ کی شاعری کے بارہ میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کا تبصرہ سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرمایا:
’’میں نے شروع سے آخر تک یہ تمام کلام پر لطف اور پر مغز پایا ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان اس پر محض سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزرجائے۔ کئی مقامات پر ٹھہر کر اطمینان سے اسی طرح لطف اندوز ہونا پڑتا ہے جیسے حسین قدرتی مناظر انسان کے قدم تھام لیتے ہیں۔ ایک بھی نظم ایسی نہیں جو بے مقصد شاعری یعنی شاعری برائے شاعری کے ضمن میں آتی ہو اور حقیقت اور خلوص سے عاری ہو۔ … طرز بیان نہایت دلنشین۔ فارسی، اردو اور عربی پر برابر دسترس۔ ماشاء اللہ۔ مجموعۂ کلام علم و فضل کا ایک مرقع اور ایک خوشنما پھولوں کا گلدستہ ہے جسے آپ کے خلوص اور ایمان نے ایک عجیب تازگی اور مہک عطا کر دی ہے۔‘‘
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے تحریر فرمایا: ’’آپ کا اسلوب کلام، سلاست اور روانی۔ محاورہ اور بندش کی خوبی اور فن شاعری کے لحاظ سے ایک قابل قدر تصنیف ہے اور بہت سی نظمیں اپنی خوبی کے لحاظ سے سہلِ ممتنع ہیں۔‘‘
آپ غزل گو شاعر نہ تھے کیونکہ آپ کی شاعری برائے شاعری نہ تھی۔ 1966ء میں جب آپ کراچی میں مقیم تھے تو مکرم برکت اللہ محمود صاحب (مربی سلسلہ) کی ترغیب پر اپنی زندگی کی واحد فی البدیہہ غزل آپ نے کہی جو 19؍جنوری 2000ء کے روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی۔ حضورؒ نے ازراہِ شفقت اردو کلاس میں ایک بچہ سے یہ غزل سنی اور اس کے اختتام پر آپ کا اور آپ کے کلام کا تعریفی رنگ میں ذکر فرمایا۔
پاکستان طبی بورڈ کے صدر محترم حکیم نیر واسطی صاحب (ستارۂ خدمت)، آپ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور شعروں کی اصلاح بھی لیتے تھے۔ آپ اگر کسی حاجت مند مریض کو اُن کے پاس بھجواتے تو وہ اُس سے رقم وصول نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حکیم صاحب نے آپ کے ساتھ اپنے تعلق خاطر کا اظہار بذریعہ خط یوں کیا۔ ؎

کہہ دے کوئی ظفر سے اے شاہِ علم وفن
اک بے نوا فقیر سے نسبت ہے آپ کی

1964ء سے 1966ء تک آپ کو کراچی میں رہتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا عربی ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس دوران مصر کے صدر جمال عبدالناصر کراچی تشریف لائے تو اُن کی آمد پر عربی قصیدہ کی صورت میں انہیں خوش آمدید کہا گیا۔ یہ فصیح و بلیغ قصیدہ کمشنر کراچی کی درخواست پر لکھ کر آپ نے اُنہیں دیدیا۔ لیکن پھر وہ قصیدہ بغرض ترجمہ آپ کو ہی بھجوایا گیا۔ اسی طرح عراقی صدر عبدالسلام عارفؔ کی کراچی آمد ہوئی تو بھی مقامی انتظامیہ نے آپ سے ہی قصیدہ لکھنے کی درخواست کی۔ فروری 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر بھٹو حکومت نے لیبیا کے کرنل قذافی کو عربی میں سپاسنامہ پیش کیا تو وہ بھی آپ نے ہی تحریر کیا تھا۔ اُس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے اظہار تشکر کے طور پر آپ کو بند لفافے میں کچھ رقم دینا چاہی تو آپ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ میں کوئی پیشہ ور شاعر نہیں ہوں۔ ملکی خدمت میرا فرض ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے فی البدیہہ اشعار کہنے کا ملکہ بھی عطا کر رکھا تھا۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ نے تقریباً ابتدائی ایام میں حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو جامعہ احمدیہ احمدنگر میں تشریف لا کر طلباء سے خطاب کرنے کی درخواست کی تو حضرت شیخ صاحب نے خطاب سے قبل سے یہ شعر پڑھا۔ ؎

دعویٰ زباں کا اہل جامعہ کے سامنے
جیسے ہو بوئے مشک ، غزالہ کے سامنے

اس پر مولوی ظفر صاحب نے فی البدیہہ یہ شعر لکھ کر پرنسپل صاحب کی وساطت سے اُن کی خدمت میں بھجوایا ؎

ہیں آپ ایسے اہل جامعہ کے سامنے
جیسے مہ تمام ، ہلالہ کے سامنے

یہ شعر حضرت شیخ صاحب کے ساتھ آپ کے مستقل تعلق کی ایسی بنیاد بنا جو تادم واپسی اخوت، عقیدت اور علم دوستی کے باعث بڑھتا چلا گیا۔
جنوری 1982ء میں جب آپ ہسپتال ربوہ میں بستر علالت پر تھے تو تسلسل سے عیادت کرنے والوں سے آپ ملاقات کرتے اور ان کے مزاج اور طبیعت کے مطابق ان سے گفتگو بھی فرماتے ۔ پھر آپ کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد منتقل کردیا گیا جہاں ڈاکٹروں کی ٹیم نے آپ کا معائنہ کیا اور اس دوران وہ باہم انگلش میں گفتگو کرتے رہے تا ایک بوڑھے مریض کو اس کی علالت کی شدت کی خبر نہ ہو۔ اس پر آپ بے ساختہ مسکرائے اور فرمایا کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں ناخواندہ ہوں۔ اس لئے آپ مجھے پریشانی سے بچانے کی خاطرانگلش میں میری صحت کی بحالی کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ میں موت سے قطعاً نہیں گھبراتا۔ آپ بے شک کھل کر اور جس زبان میں چاہیں بات کریں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک روز فرمانے لگے میرے ذہن میں ایک شعر آ رہا ہے اسے میری آخری آرامگاہ پر لکھ دینا کہ

آئے مرے عزیز ہیں میرے مزار پر
رحمت خدا کی مانگنے مشت غبار پر

آپ کو خدا تعالیٰ نے نفس مطمئنہ عطا فرمایا تھا۔ ہر حال میں صابر و شاکر تھے۔ بیماری کے ایام پورے صبروتحمل سے گزارے اور 23 اپریل 1982 ء کو فجر کے وقت اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں