محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب

محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍فروری 2001ء میں مکرم سید ساجد احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ مجھے افریقہ میں بطور ٹیچر اور پھر کیلیفورنیا میں بھی محترم مولانا صاحب کے ہمراہ کام کرنے کا موقع ملا۔ مَیں نے آپ کو ہمیشہ سب سے نیکی، ہمدردی اور دوستی کرنے والا پایا۔ بچے آپ کی میز پر چڑھ جاتے اور آپ کی گود میں بلاتکلّف بیٹھ جاتے۔ آپ سادہ زندگی بسر کرتے، سادہ اور صاف ستھرا لباس پہنتے، تقریر بلند آواز سے ٹھہر ٹھہر کر کرتے۔ بہت مخلص، عبادت گزار، دعاگو اور خداترس انسان تھے۔
جب آپ کا تعین کیلیفورنیا میں ہوا تو آپ نے رسالہ ’’النور‘‘ جاری کیا جس کا بڑا مقصد احباب جماعت تک خلیفۂ وقت کے خطبات پہنچانا تھا۔ پہلے یہ صرف امریکہ کے مغربی ریجن کے احمدیوں کو بھیجا جاتا تھا، پھر مرکزی ہدایت پر سارے امریکہ میں بھجوانا شروع کیا گیا۔ اس کی مقبولیت کے ساتھ یہ ضرورت بھی محسوس کی گئی کہ خطبات کا انگریزی ترجمہ بھی جلد احمدیوں تک پہنچے چنانچہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ بھی آپ نے ہی جاری کیا۔ چونکہ آپ خود ٹائپنگ نہ جانتے تھے اس لئے ایک انگلی سے ایک ایک حرف دبا کر مضمون تیار کرتے۔ پھر بس اور ریل کا لمبا سفر کرکے ایک سستے ٹائپ سیٹنگ کرنے والے کے پاس مضمون لے جاتے اور مضمون سیٹ ہوجاتا تو دوبارہ وہاں لینے جاتے اور رات گئے ہمارے ہاں پہنچتے جہاں ان مضامین کو صفحہ بہ صفحہ سجایا جاتا۔ پھر آپ رسالوں کی کاپی لے کر پریس روانہ ہوتے۔
آپ کے پاس کار تھی نہ لائسنس۔ اکثر رسالہ طبع ہونے کے بعد اپنے ہاتھوں سے ڈبے اٹھاکر واپس مشن ہاؤس پہنچتے۔ اگر مَیں نے ان سے استفسار نہ کیا ہوتا تو مجھے بھی یہ علم نہ ہوتا کہ اتنا وزن آپ خود اٹھاکر اتنا لمبا سفر طے کرتے ہیں۔ رسالہ کی ترسیل بھی اکثر آپ کو تنہا ہی کرنا پڑتی، لیبل اور ٹکٹ چسپاں کرتے اور ڈاکخانہ لے جاکر پوسٹ کرآتے۔ ہر مہینے تین شمارے باقاعدہ شائع ہوتے یعنی پندرہ روزہ ’’النور‘‘ کے دو شمارے اور ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کا ایک پرچہ۔
آپ کو انگریزی میں بہت مہارت حاصل تھی، کئی بہت عمدہ مضامین لکھے اور تصانیف کیں۔ ایک دفعہ ایک دوست نے ان کا ایک مضمون دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ واقعی کلیم صاحب نے ہی لکھا ہے؟ کیونکہ معلوم نہیں ہوتا کہ کلیم صاحب جیسے سادہ مزاج شخص نے ایسے اعلیٰ پایہ کا مضمون لکھا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں