محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29اکتوبر 2005ء میں مکرم پروفیسر حمید احمد صاحب کے قلم سے جماعت کے ایک بزرگ، مفتی سلسلہ اور جید عالم دین محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب کا ذکر خیر شائع ہوا ہے جو مضمون نگار کے سسر بھی تھے۔
محترم مولانا صاحب 27؍اپریل 2005ء کو تقریباً 94سال کی عمر میں برمنگھم (یوکے) میں وفات پاگئے۔ آپ نے جوانی میں ہی جماعت کے لئے زندگی وقف کردی اور پھر ساری عمر بڑے انہماک کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرتے رہے۔ اُس دَور میں جماعت مالی لحاظ سے کمزور تھی لیکن واقفین نے نامساعد حالات کے چیلنج کو انتہائی صبر اور حوصلہ سے قبول کیا۔ میرے خسر بھی اُنہی میں سے ایک تھے۔ بچوں کی تعلیم ختم ہونے تک میرے خسر اور خوش دامن نے بہت صبر اور کفایت شعاری سے زندگی گزاری۔ نیز مہمانوں کے ساتھ بہت عزت سے پیش آتے اور ان کی خاطر تواضع کرتے۔ میں بعض دفعہ گھبرا کر اپنی خوش دامن سے کہہ دیتا تھا کہ آپ مالی تنگی کے باوجود ہر مہمان کی اتنی زیادہ خاطر کیوں کرتے ہیں۔ وہ جواباً کہا کرتی تھیں کہ خدا تعالیٰ ہماری ضرورتیں پوری کرتا جارہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتا جائے گا۔
محترم مولانا صاحب کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور انگریزی زبان سے بہت دلچسپی تھی۔ آپ کی خواہش تھی کہ انگریزی ادب میں ایم اے کرکے پھر زندگی وقف کریں۔ اس خواہش کا اظہار جب آپ نے اپنے والد محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب حلال پوری سے کیا تو انہوں نے فکرمند ہوکر حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ سے درخواست کی کہ وہ آپ کو سمجھائیں کہ آپ دینی تعلیم حاصل کریں اور انگریزی کا خیال چھوڑ دیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے آپ کو بلاکر سمجھایا کہ جماعت کو دینی علماء کی بہت ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی خواہش ترک کردی اور قادیان میں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد چوٹی کے دیگر دو دینی اداروں میں بھی مزید تعلیم کی غرض سے تشریف لے گئے۔
آپ بہت ذہین اور فہیم تھے۔ یادداشت بہت عمدہ اور قابل اعتماد تھی۔ دماغ انتہائی منطقی اور زیرک تھا۔ بہت جلد ہر بات کی گہرائی تک پہنچ جاتے تھے اور پیچیدہ علمی اور مذہبی مسائل کو بہت جلد اور خوش اسلوبی سے عمدہ دلائل کے ساتھ حل کر دیتے تھے۔ لمبا عرصہ دارالقضاء اور دارالافتاء میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ آپ کے فیصلوں میں جدیدیت پائی جاتی تھی اور موجودہ دَور کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے۔
آپ بہت عابد بزرگ تھے۔ ہمیشہ باجماعت نماز کا اہتمام کرتے۔ اگر مہمان آجاتے یا موسم خراب ہوتا تو گھر میں جماعت کرواتے۔ تہجد بھی باقاعدگی سے پڑھتے۔ دوسروں کو اتنی شفقت سے نماز کی تلقین کرتے کہ سننے والا بہانے اور سستی کا ہتھیار پھینک دیتا اور نماز کے لئے مولوی صاحب کے ہمراہ ہوجاتا۔ طبیعت انتہائی سادہ اور لباس صاف اور باوقار تھا۔ لباس، گفتار، اخلاق اور کردار دینی شعار کے عین مطابق ہوتے۔ خلق اور عادات میں خلوص اور مومنانہ رنگ پایا جاتا تھا۔ غریب اور اَن پڑھ لوگوں سے بھی خوشی اور خلوص سے ملتے تھے۔ بے غرض مسرت کا اظہار اور دائمی مسکراہٹ ان کی شخصیت کا مستقل جزو تھا۔ طبیعت اور کردار میں دکھاوے کا کوئی عنصر موجود نہ تھا۔ طنزومزاح بھی لطیف تھا اور آنحضرتﷺ کی سنن کے عین مطابق ہوتا۔
مولوی صاحب خداتعالیٰ کے حقوق کی انتہائی حد تک بجا آوری کرتے۔ اسی طرح غرباء یتامیٰ اور مساکین کے حقوق کو بہت احسن طریقہ سے پورا کرتے تھے۔ مریض، معذور، نادان اور تنگ دست لوگوں کے ساتھ چھپ کر حسن سلوک کیا کرتے تھے۔ غریب اور نادار رشتہ داروں کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مجبور گھرانوں اور خاندانوں کے بچوں کے کامیاب رشتے کروانے کی خاطر اپنے پیسے، وقت اور آرام کو قربان کر دیتے تھے۔ اسی طرح مختلف خاندانوں میں صلح کروانے کے لئے بہترین ثالث کا رول اختیار کرتے۔
آپ بہت سخت جان تھے اور آرام طلبی کو پسند نہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان کے جائے نماز پر کوئی موٹا نرم کپڑا بچھا دیا تاکہ ان کے گھٹنوں کو آرام مل جائے۔ آپ نے وہ کپڑا ایک طرف کرکے فرمایا کہ عبادت کرتے وقت آرام طلبی اور سہل پسندی کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے۔
مولوی صاحب نے تنگی کے زمانہ میں مظفرگڑھ میں ایک بنجر زمین کو بہت مشکل سے قابل کاشت بنایا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس زمین کو فروخت کرکے چنیوٹ کے آس پاس نئی زمین اور پکی ہوئی فصل خریدی۔ لیکن زمیندار نے دھوکہ دیا اور مولوی صاحب کو بہت بڑا نقصان پہنچا دیا۔ جھگڑے اور مقدمہ بازی سے بچنے کے لئے ایک بہت بڑے مالی نقصان کو آپ نے انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کیا اور فیصلہ خدا تعالیٰ کے سپرد کردیا۔ میں نے اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے اتنے بے ضرر بزرگ شخص کو اتنا بڑا امتحان کیوں دیا ہے۔ مجھے اس وقت دنیوی اقتصادیات کا تو کچھ علم تھا لیکن روحانی اقتصادیات کا کچھ زیادہ شعور نہ تھا۔ اس بات کی سمجھ 30 سال کے بعد اس وقت آئی جب میں نے اپنے خسر کے تمام نقصان کا تخمینہ لگایا تو وہ ان کے بیٹے اور نواسے کی صرف ایک ماہ کی آمدنی کے برابر تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی چاروں بیٹیاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے خوشحال اور خوش و خرم ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں