محترم مولوی ایوب بٹ صاحب درویش قادیان

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم مولوی ایوب بٹ صاحب درویش کے خودنوشت حالات زندگی شامل اشاعت ہیں ۔
محترم محمد ایوب بٹ ابن مکرم غلام محی الدین صاحب قادیان میں 1924ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کُل تین بھائی اور تین بہنیں ہیں ۔ آپ کے والدین حضرت گولڑوی شریف والے بزرگ کے مرید تھے بلکہ کسی حد تک ان کے خلیفہ تھے۔1915ء کے بعد آپ کی والدہ نے اپنے نوبھائیوں میں سب سے چھوٹے بھائی مکرم سیّد ارشد علی صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں احمدیت قبول کرلی۔ جب یہ بات آپ کے والد کو معلوم ہوئی تو انہوں نے بہت سختی اور مارپیٹ بھی کی۔ قرآن مجید سے دلیل پیش کرنے پر ایک بار اتنا مارا کہ پسلیاں توڑ دیں ۔ اُن کے علاج کے دوران آپ کے والد صاحب نے غوروفکر شروع کیا اور پھر آپ کی والدہ محترمہ سے کہا کہ تم نے یہ غلط کیا کہ مجھ سے پوچھے بِنا ہی بیعت کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے بھی بیعت کرلی۔ بیعت کے بعد اُن کو اُن کے آریہ مالک نے نوکری سے نکال دیا تو وہ قادیان تشریف لے آئے۔
کچھ عرصہ بعد آپ کے والد محترم کام کے سلسلہ میں کراچی چلے گئے لیکن وہاں جاکر چھ ماہ تک بیمار رہے۔ یہ عرصہ آپ پر بہت گراں تھا۔
محترم مولوی ایوب بٹ صاحب نے ایام جوانی میں ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر آپ کی والدہ محترمہ نے یہ کی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سے دین کا کام لے گا اور اس کے بعد انہوں نے آپ کو خصوصیت سے قرآن شریف پڑھانا شروع کر دیا۔ 1939ء میں آپ نے اپنی زندگی وقف کردی تو آپ کو ایران جانے کاحکم ملا۔ آپ تحریر کرتے ہیں کہ جب خاکسار ایران گیا تو بارڈر پار کرنے کے بعد مجھے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا۔ مَیں حیران تھا کہ یہ انتظامات کس نے کئے ہیں اور کیوں کئے ہیں ؟ بہرحال وہاں ایک آدمی علی احمدی سے بات چیت ہوئی جس کا باپ شہر کا قاضی تھا۔ وہ مجھے ناشتہ پر اپنے گھر لے گیا۔ مَیں نے اس کو دوران گفتگو بتایا کہ میں بھی احمدی ہوں ۔ اس پر بہت خوش ہوا اور شام کو جشن رکھا۔ اس کے والد نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے احمدی ہیں؟ مَیں نے کہا قادیان کا۔ وہ سوچنے لگے کہ احمدی خاندان وہاں کیسے پہنچ گیا۔ پھر کہنے لگے کہ حضرت علیؓ کے بارہ میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ میں نے کہا کہ قرآن شریف میں تو حضرت علی کا نام کہیں نہیں پڑھا۔ اس نے کہا کیا آپ نے

اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا

نہیں پڑھا؟ مَیں نے اس آیت کے متعلق حضرت غلام رسول راجیکی صاحب ؓ کی تفسیر پڑھی تھی۔ مَیں نے کہا کہ آپ ولی سے کیا مراد لیتے ہیں ؟ کہنے لگے حاکم۔ مَیں نے کہا کیا کبھی حضرت علیؓ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حاکم ہوئے تھے؟ کہا نہیں ۔ اس پر میں نے کہا کہ میرا اور آپ کا عقیدہ برابر ہے۔
ایران میں پانچ سال خدمت کے بعد آپ کو کابل جانے کا ارشاد ملا تو آپ راستہ میں کوئٹہ پہنچے جہاں کے امیر جماعت کے ذریعہ پیغام ملا کہ فوراً لاہور پہنچیں ۔ لاہور میں حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات ہوئی تو حضورؓ نے پوچھا کہ کیا آپ نے والدین سے ملاقات کر لی ہے؟ جواب نفی میں ملنے پر حضورؓ نے فرمایا کہ والدین سے ملاقات کرلیں ۔ چنانچہ آپ ایک دن کے لئے جہلم گئے اور والدین سے ملاقات کرکے واپس لاہور پہنچے جہاں سے قادیان جانے والے آخری ٹرک کے ذریعہ قادیان بھجوادیئے گئے۔
قادیان آکر دو سال دیہاتی مبلغین کلاس میں تعلیم حاصل کی۔ 1950ء میں جھانسی (یوپی) بھجوائے گئے جہاں سنسکرت اور ہندی زبان بولنے والوں کی کثرت تھی اور آپ یہ زبان نہیں جانتے تھے۔ آپ وہاں ہر گھر اور دکان میں جاتے۔ قرآن مجید سادہ و تفسیر وغیرہ مفت پڑھانے کی پیشکش کرتے۔ یہاں آپ نے حکمت کی تعلیم بھی حاصل کرلی۔ اور جین مذہب کے سادھوؤں سے تعلق بڑھانے کے لئے جنگلوں میں جانے لگے۔ ان سادھوؤں میں کئی اچھے پڑھے لکھے بھی تھے جو عمر زیادہ ہونے پر دین کی راہ میں وقف کرکے جنگلوں میں آجاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ اُن کے ایک بزرگ کو بخار آگیا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ہمارے گورو جی بیمار ہیں کیا تمہارے پاس کوئی دوائی ہے؟ آپ نے کہا صبح دوں گا۔ رات آپ نے دعا کی تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ خواب میں آئے اور آپ کے دوائیوں کے بکس میں موجود ایک شیشی کا بتایا کہ اس میں سے دوائی دیں ۔ آپ نے خواب میں ہی بکس میں سے شیشی نکال لی۔ صبح جب بیدار ہوئے تو واقعہ میں وہ شیشی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ پھر آپ نے اس میں سے تین خوراکیں دے دیں اور اللہ نے اُن کو شفا عطا فرمائی۔
محترم مو لانا صا حب کو ہندوستان کے مختلف مقامات میں تبلیغ کا موقع ملا۔ خصوصاً گڑگاؤں میں ، پھر کشمیر کی جماعت ہاری پاری گام میں دس سال کام کیا۔ بعدہٗ دیو بند میں اور پھر پنجاب میں مالیر کوٹلہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ میدا ن تبلیغ میں ہی آپ نے ہومیوپیتھی میں M.D کی ڈگری کلکتہ سے حاصل کی۔ ایک لمبا عرصہ میدانِ تبلیغ میں رہ کر 1992ء میں قادیان تشریف لائے اور ریٹائر ہوئے۔ بعد ریٹائر منٹ اکثر آپ لنگر خانہ مسیح موعودؑ میں جاتے اور مہمانوں کو تبلیغ کرتے رہتے ہیں ۔ آپ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں ۔ خصوصاً آپ کو قرآن مجید سے عشق ہے اور ہر مسئلہ کاحل قرآن مجید کی آیات سے پیش کرنے کا آپ کو خاص ملکہ حاصل ہے۔
آپ کی شادی 1956ء میں بھدرواہ جموں کشمیر میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھ بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمود احمد بٹ صاحب کو بطور واقف زندگی افریقہ میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں