محترم مولوی سید محمد حسین صاحب ذوقیؔ

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اکتوبر 1999ء میں مکرم میر احمد صادق صاحب اپنے والد محترم مولوی سید محمد حسین صاحب ذوقیؔ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ دراز قامت اور نہایت وجیہہ شکل و صورت کے مالک تھے۔ لباس میں شیروانی، پاجامہ اور ترکی ٹوپی استعمال کرتے، ہاتھ میں قیمتی چھڑی رکھتے۔ قریباً بیس سال کی عمر میں احمدیت قبول کی اور ساری عمر دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ آخری وقت میں بچوں کو یہی نصیحت کی کہ احمدیت کی حفاظت کی خاطر جان بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرنا اور اپنی ماں کی خدمت کرنا کہ اس میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی ہے۔
آپ آغاز جوانی میں رنگین مزاج اور عیش و طرب کے دلدادہ تھے۔ مذہب سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ ایک دوست کی تیمارداری کو گئے تو وہاں ایک اور صاحب سے ملاقات ہوئی جن کے بارہ میں دوست نے ناگواری سے بتایا کہ یہ قادیانی ہیں… یہ بھی کہا کہ فلاں حکیم بھی قادیانی ہیں لیکن مَیں اُن سے علاج اس لئے کرواتا ہوں کہ وہ مفت دوائیں دیتے ہیں۔ اور ایک رسالہ بھی دکھایا کہ یہ بھی انہوں نے دیا ہے۔ آپ نے رسالہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو دوست نے اُسے چھپاتے ہوئے کہا کہ اس سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ آپ کا اشتیاق بڑھا اور بڑی جدوجہد سے آخر کتاب لے کر گھر آگئے۔ رات کو پڑھنا شروع کیا۔ یہ ’’ایک چیلنج‘‘ نامی رسالہ تھا جسے محترم عبداللہ الہ دین صاحب آف سکندر آباد نے لکھا تھا۔ جوں جوں آپ پڑھتے گئے، حقیقت آپ پر کھلتی گئی اور آخر دل نے فیصلہ کرلیا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ چنانچہ احمدی دوستوں سے ملاقات کی اور بیعت کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مزید تحقیق کرو لیکن آپ کو بیعت کی ایسی جلدی تھی کہ ایک ہفتہ کے اندر 27؍رمضان المبارک 1328ہجری کو حضرت مولوی میر محمد سعید صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت قبول کرنے کی درخواست کی۔ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے براہ راست بیعت لینے کی اجازت تھی۔
قبول احمدیت کے بعد آپ کو شدید ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ دو بیویوں کو یکے بعد دیگرے چھوڑنا پڑا۔ والدہ ایک پیر کے بہکانے پر گھر چھوڑ کر اپنے بھائی کے گھر چلی گئیں۔ تاہم آپ کے چھوٹے بھائی نے بھی احمدیت قبول کرلی اور کچھ عرصہ بعد والدہ نے اِن کی نیکی کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے بھی بیعت کرلی اور واپس گھر آگئیں۔ اس کے بعد آپ کی ایک اَور شادی ہوئی۔ یہ شادی اتنی بابرکت ثابت ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے چودہ بچے عطا فرمائے جن میں سے دس نے لمبی عمریں پائیں۔ نیز مال و دولت کی فراوانی ہوئی۔ دوسری طرف غیراحمدی رشتہ دار جو متمول اور صاحب جائیداد تھے، قعرِ مذلّت میں جاگرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتیازی نشان ہے۔
محترم مولوی صاحب کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ آپ نے شہر کے امراء اور سجادہ نشینوں کو فرداً فرداً احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ جب حضرت مصلح موعودؓ حیدرآباد تشریف لے گئے تو آپ کو اپنی دو نظمیں حضورؓ کی موجودگی میں سنانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ کو بہت سی علمی خدمات کی توفیق ملی۔ ’’شاہنامہ احمدیت‘‘ آپ کی ہی تصنیف ہے۔ حضرت عرفانیؓ نے آپ کو متعدد بار ’’فردوسی احمدیت‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ آپ بڑے دعاگو، شب بیدار اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں