محترم مولوی محمد الدین صاحب مبلغ البانیہ

محترم مولوی محمد الدین صاحب ابن ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب اُس پہلی صف کے مجاہدین میں شامل تھے جنہوں نے 1935ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی اس تحریک پر لبیک کہا کہ احباب تین سال کیلئے اپنے خرچ پر نظام جماعت کے تحت دعوت الی اللہ کریں۔ آپ کا مختصر ذکرخیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍جون 1999ء میں مکرم مولوی منیرالدین احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپ کے لئے البانیہ کا ملک تجویز کیا گیا چنانچہ آپ 1936ء میں لٹریچر لے کر البانیہ کے دارالحکومت ترانہ پہنچے اور دعوت الی اللہ کا آغاز کیا۔ یہاں آپ نے تین ماہ تک ایک ہوٹل میں قیام کیا اور ایک خاندان کو حلقہ بگوش احمدیت کیا اور بہت سے افراد کو جماعت سے متعارف کروایا۔ جب کچھ مخالفت پیدا ہوگئی تو آپ (بلغراد) یوگوسلاویہ تشریف لے گئے۔ جب آپ نے حضورؓ کی خدمت میں اطلاع دی تو حضورؓ نے ارشاد فرمایا کہ البانیہ اور یوگوسلاویہ کے سرحدی علاقہ میں تبلیغ کریں۔
بلغراد میں مولوی صاحب کے ذریعے تیس نفوس احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ نے ’’کشتی نوح‘‘ اور ’’پیغام صلح‘‘ کا ترجمہ کرکے شائع بھی کیا اور اس کی قیمت مقرر کرنے کے بجائے کہا کہ لینے والا جو چاہے ادا کرے اور بے شک مفت بھی لے جائے۔ تاہم کسی نے بغیر قیمت نہ لیں۔ اس سے اس قدر رقم جمع ہوگئی کہ آپ نے ایک احمدی دوست شریف دوتسا صاحب کے مشورہ سے کسی کے ساتھ چائے کی دکان میں شراکت کرلی۔ اب آپ اکثر یہاں اپنے ملاقاتیوں کو بلاتے، تواضع بھی کرتے اور تبلیغ بھی کرتے۔ شریف دوتسا صاحب بلغراد میونسپل کمیٹی کے رُکن تھے اور ان کا بھائی فوج میں لیفٹیننٹ تھا۔
مولوی صاحب نے بلغراد میں خوب تبلیغ کی اور جلد ہی آپ بہت معروف ہوگئے۔ جب یہاں بھی مخالفت شروع ہوگئی تو آپ نے یہ جگہ بھی چھوڑ دینے کا پروگرام بنایا۔ خیال تھا کہ شراکت دار سے کچھ رقم مل جائے گی لیکن وہ اپنی دکان فروخت کرکے کہیں چلا گیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے اوورکوٹ کے علاوہ تمام اشیاء فروخت کردیں اور کسی ذریعہ سے یونان پہنچ گئے۔ وہاں بحری جہاز میں ایک کم قیمت ٹکٹ خرید کر اٹلی چلے گئے۔ یہاں مبلغ احمدیت مکرم ملک محمد شریف صاحب موجود تھے۔ جب اُن سے ملاقات ہوئی تو سفر کی کوفت دور ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد مکرم شریف دوتسا صاحب نے روم آکر آپ کو کچھ رقم پہنچائی جو انہوں نے آپ کے شراکت دار سے وصول کی تھی۔ اس پر مولوی صاحب نے حج کا ارادہ کرلیا تو اُسی سال حکومت اٹلی نے حاجیوں کیلئے یہ سہولت پہنچائی کہ انہیں بلاکرایہ مکہ مکرمہ پہنچایا جائے چنانچہ آپ حج سے تین ماہ قبل حجاز پہنچ گئے اور مکہ میں ایک معمولی مکان کرایہ پر لے لیا۔ ماہ رمضان اور اعتکاف کے ایام مسجد حرام میں گزارے۔ ایام حج میں شاہ سعود کی ہندوستانیوں کے ساتھ ملاقات میں ترجمانی کے فرائض ادا کئے تو شاہ نے آپ کو ایک جبہ عطا کیا۔ حج کے ایام کے بعد آپ نے باقاعدہ تبلیغی گفتگو شروع کردی۔ ساتھ ہی تکالیف بھی اٹھائیں۔ چنانچہ آپ واپس قادیان تشریف لے آئے۔ شادی کی، اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا جس کا نام حضورؓ نے جمال الدین رکھا۔
16؍نومبر 1942ء کو مولوی صاحب کو جماعت نے افریقہ کیلئے بھجوایا تو آپ بمبئی سے جس اٹالین جہاز ’’ٹلاوا‘‘ پر سوار ہوئے اُسے 21؍نومبر کو ایک جرمن آبدوز نے تارپیڈو سے حملہ کرکے غرق کردیا۔ بہت تھوڑے مسافر بچائے جاسکے لیکن آپ کا کچھ پتہ نہ چلا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 27؍دسمبر 1944ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی دعوت الی اللہ کی مساعی پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ مولوی محمدالدین صاحب اگرچہ انگریزی علوم سے ناواقف تھے اور ان کو تجربہ بھی نہ تھا مگر یورپ میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں