محترم میاں عبدالحیٔ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جولائی 2008ء میں مکرمہ ر۔ کوثر صاحبہ کے قلم سے محترم میاں عبدالحئی صاحب مبلغ انڈونیشیا کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم میاں صاحب 28؍فروری 1920ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ نے ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کو وقف کر دیا تھا۔ ان کی پیدائش سے پہلے ان کے تین بھائی چھوٹی عمر میں فوت ہوچکے تھے۔ جب یہ پیدا ہوئے تو ان کی خالہ ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پاس لے گئیں۔ حضورؓ نے دعا کی اور ان کا نام عبدالحیٔ رکھا۔
محترم میاں عبدالحئی صاحب نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی پھر قادیان آ گئے۔ ابھی میٹرک میں تھے جب ان کے والد وفات پا گئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ان کی والدہ نے وقف کے لئے حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورؓ نے جواباً فرمایا کہ دعا کریں۔ پھر محترم عبدالحئی صاحب جب بھی وقف کرنے کے لئے حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضورؓ نے ہر بار فرمایا کہ اپنی امّی سے کہو کہ ابھی دعا کریں۔ پھر ان کی والدہ نے یہ خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے دس بارہ پودے لگائے ہیں، ان میں سے میرا بھی ایک پودا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو اتار دو لیکن میں کہتی ہوں کہ میرا خدا سے وعدہ ہے میں نے اس پودے کو نہیں اتارنا۔ یہ خواب سن کر حضورؓ نے آپ کی والدہ سے فرمایا کہ یہ سب سے بڑا بیٹا ہے، خاوند کی وفات ہوچکی ہے، آپ کیا کریں گی۔ انہوں نے کہا بے شک مجھے جتنی بھی مشکلیں پیش آئیں، میں بھوکی مر جاؤں گی میں اپنے وعدے سے نہیں ٹلوں گی۔ اس پر حضورؓ نے وقف قبول فرمایا۔ اس کے بعد محترم میاں صاحب نے 1956ء میں منشی فاضل اور F.A. کا امتحان نمایاں پوزیشن سے پاس کیا۔
یکم مئی 1938ء کو آپ تحریک جدید کے ساتھ بطور واقف زندگی کارکن منسلک ہوئے۔ 1946ء میں سنگاپور تقرری ہوئی۔ وہاں چار سال رہنے کے بعد انڈونیشیا گئے اور وہاں سالہاسال خدمت دین کی۔ پھر دوبارہ 1980ء سے 1987ء تک انڈونیشیا رہے اور واپس آکر آخری سانس تک ربوہ میں خدمت بجا لاتے رہے۔ 19 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے حلقہ خاص میں تدفین ہوئی۔
آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ آپ کا مزاج نہایت میٹھا تھا۔ طبیعت میں بہت نرمی اور شفقت تھی۔ دوستوں کے ساتھ اچھی باتیں کرنے والے شخص تھے۔ نہایت پاکیزہ مزاج پایا تھا۔ آپ نے لمبا عرصہ مسلسل خدمات کیں اور کینسر کی حالت میں بھی خدمت دین اسی طرح انجام دیتے رہے کہ جیسے یہ آپ کی زندگی کا عزیز ترین مشغلہ ہو۔ بیماری میں جو خطوط آپ نے لکھے اُن میں بھی انہیں جذبات کا اظہار تھا۔
محترم میاں عبدالحیٔ صاحب نے انڈونیشین زبان میں قرآن کریم کے علاوہ حضورؑ اور خلفاء سلسلہ کی متعدد کتب کے تراجم پر کام کیا۔ میدان عمل میں آپ اکثر تبلیغی جلسے کرتے تھے جن کے ذریعے ہزاروں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوتے۔ ایک بار وسطی جاوا کے ایک گائوں کرچل کے تمام لوگوں نے ایسے ہی ایک جلسہ کے بعد اکٹھے بیعت کرلی۔ ایک بار جزیرہ بالی میں ایک مباحثہ کے دوران جب مخالفین شکست کھانے لگے تو وہاں موجود ایک فوجی نے غصہ میں آ کر بندوق نکال کر آپ کو مارنے کا ارادہ کیا۔ اس وقت احمدی عورتیں جرأت سے میاں صاحب کے آگے کھڑی ہو گئیں اور کہا کہ ہم کو پہلے ختم کرو پھر ان کو کچھ کہنا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں