محترم میاں محمد عبداللہ صاحب آف مرل

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12؍فروری 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍فروری 2013ء میں مکرم انور احمد مبشر صاحب نے اپنے دادا محترم میاں محمد عبداللہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم میاں محمد عبداللہ صاحب کی ولادت 1870ء میں ہوئی۔آپ نے1930ء میں خود احمدیت قبول کی اور پھر تبلیغ کے ذریعے اپنے گاؤں مرل ضلع سیالکوٹ میں احمدیت کو فروغ دیا۔ نظام وصیت میں بھی شامل ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے مجاہد بھی تھے۔
گاؤں کے لوگ آپ کو بابا ڈھونڈا کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ ایک ہمدرد، متوکّل، صابر اور خوش مزاج انسان تھے۔ غریب گھرانے سے تعلق تھا اور ہر چھوٹے اور بڑے سے انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند ایک متقی انسان تھے۔اپنے گاؤں سے جلسہ سالانہ کے لیے پیدل قادیان تشریف لے جاتے رہے۔ خلافت احمدیہ سے فدائیت کی حد تک احترام وا طاعت کا تعلق تھا۔
آپ ایک نڈر اور پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ شدید مخالفت ہوتی حتیٰ کہ گاؤںمیںان کا پانی بھی بند کردیا گیا۔ اس پر آپ قریبی چھپڑیوں سے پانی لانے لگے۔ اس پر مخالفین نے ان چھپڑیوں کے پانی کو بھی گندا کرنا شروع کردیا۔ آپ پھر بھی نہیں گھبرائے اور نہ دعوت الی اللہ ترک کی۔ مقامی لوگوں نے ان کا مسجد میں داخلہ بند کردیا تو آپ نے گاؤں کے ساتھ ہی جگہ خرید کر اپنی مسجد بنالی جو بابا کی مسجد کے نام سے مشہور ہوگئی۔آخر خداتعالیٰ نے آپ کی دعا ؤں اور کوششوں کو قبول کیا اور لوگوں نے احمدیت قبول کرنا شروع کردی۔ آج وہاں کی جماعت اٹھارہ گھروں پر مشتمل ہے۔
آپ قریبی دیہات میں جاکر بھی تبلیغ کرتے۔ ایک بار حالات کافی خراب تھے۔ دیگر نواحمدیوں نے آپ کو روکا لیکن آپ اکیلے ہی قریبی گاؤں ’’گڈگور‘‘ میں چلے گئے۔ جب تبلیغ شروع کی تو وہاں کے مُلّا کے بھڑکانے پر لوگوں نے بابا جی کو گوبر اور چھوٹے پتھروں سے مارمار کر زخمی کردیا۔ اس پر آپ کہنے لگے کہ کہاں برہان الدین جہلمی اور کہاں مَیں ناچیز۔ گاؤں میں احمدیوں کو اس فساد کا پتہ چلا تو وہ آپ کو لینے گئے۔ راستے میں ہی باباجی واپس آتے مل گئے جواپنی چھڑی پر قمیص لٹکائے واپس آرہے تھے۔لوگوں کے پوچھنے پر بتایا کہ آج تو دعوت الی اللہ کا بہت ہی مزہ آیا۔
ایک دفعہ باباجی کو ریاست جموں میں جانا پڑا تو رات پڑنے پر آپ ایک مسجد میں چلے گئے۔ دیکھا تو ایک پیر صاحب اپنے مریدوں کے درمیان بیٹھے خاطرمدارات کروارہے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ سب چور ہی چور ہیں۔یہ سن کر وہ پیر گھبرا گیااور الگ ہوکر بابا جی سے عاجزی سے کہنے لگا کہ آپ تو بہت پہنچے ہوئے ہیں، میرا بھید نہ کھولنا۔آپ کو کیسے پتہ چلا؟ پھر پیر نے رات بھر آپ کی بہت خدمت کی۔
1953ء میں جماعت کی مخالفت زوروں پر تھی تو مخالفین کہنے لگے کہ اب یہاں کوئی احمدی نہیں رہے گا۔ جماعت کے لوگ نومبائع تھے، وہ بھی گھبرا گئے۔پھر شور شرابا ہوا کہ مرل میں بھی جلوس آرہا ہے۔مخالفین کہہ رہے تھے کہ جلوس آنے سے پہلے پہلے احمدیت چھوڑ دو۔باباجی نے احمدیوں کو حوصلہ دیا کہ گھبراؤ نہیں یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پھر اکیلے پولیس سٹیشن چلے گئے اور وہاں سے پولیس لے کر آگئے۔ پولیس افسر نے لوگوں سے کہا کہ گاؤں کے احمدیوں کا اگر کچھ نقصان ہوا تو اس کے ذمہ دار تم لوگ ہوگے۔ چنانچہ پھر امن ہوگیا اور کوئی جلوس باہر سے آیا نہ مقامی لوگوں نے نکالا۔
باباجی یہ خواہش کیا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ کو چلتے پھرتے ہی دنیا سے اٹھالے۔خدا نے اُن کی یہ خواہش اس طرح پوری کی کہ اپنے گاؤں سے ٹھیک ٹھاک ایک احمدی دوست کو ملنے سیالکوٹ شہر گئے۔جاتے وقت گاؤں میں جس کو بھی ملتے یہی کہتے کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ لوگ یہ سن کر ہنس دیتے۔ بہرحال جب یہ اُس دوست کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توطبیعت خراب ہوگئی اور آپ 88سال کی عمر میں 8؍مئی 1958ء کو سیالکوٹ میں ہی وفات پاگئے۔ جسدخاکی گاؤں لایا گیا اور مقامی قبرستان میں امانتاً دفن کردیا گیا۔ قریباً چھ ماہ بعد نعش کو ربوہ لے جانے کے لیے نکالا گیا تو غیراحمدی کہنے لگے کہ بابا جی کا چہرہ تو دکھاؤ سنا ہے احمدیوں کے چہرے بگڑ جاتے ہیں۔جب لوگوں کے اصرار پر چہرہ دکھایا گیا تو بابا جی ایسے لگ رہے تھے جیسے ابھی سوئے ہوں۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں