محترم پروفیسرڈاکٹر سیّد سلطان محمود شاہد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 15 جولائی 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ستمبر 2013ء میں شائع ہونے والے مضمون میں مکرم پروفیسر برہان احمد ناصر صاحب نے اپنے والد محترم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ قبل ازیں 30؍اپریل 2021ءکے شمارے کے اسی کالم میں مرحوم کا ذکرخیر ہوچکا ہے۔ اور یہ مضمون بھی اس ویب سائٹ کا حصہ ہے.

محترم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب

محترم پروفیسرڈاکٹر سیّد سلطان محمود شاہد صاحب کے والد محترم حضرت سید سردار احمد شاہ صاحبؓ نے 1900ء میں پندرہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ آپؓ کے والد محترم سیّد فرمان شاہ صاحب کی وفات حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے سے قبل ہوچکی تھی۔ آپؓ کے گاؤں شاہ مسکین میں احمدیت آپؓ کے چچا حضرت سیّد رمضان شاہ صاحب اور اُن کے بیٹوں کے ذریعے 1897ء میں آئی تھی۔ یہ گاؤں لاہور سے قریباً تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ قبول احمدیت سے قبل سادات خاندان کی نسبت سے اس خاندان کی گدّی تھی اور پیری مریدی کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر سال جولائی کے مہینے میں خاندان کے ایک بزرگ حضرت سیّد دیدار شاہ اور حضرت سیّد شاہ مسکین کے مزاروں پر عرس ہوا کرتا تھا۔احمدیت کے نفوذ کے بعد حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی تحریک پر شاہ مسکین کے سالانہ عرس کو سالانہ جلسہ سیرۃالنبیﷺ میں تبدیل کردیا گیا جو قریباً باقاعدگی سے 2009ء تک جاری رہا اور جس میں جماعت احمدیہ کے جیّد علماء تشریف لاکر خطاب کرتے رہے جن میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ بھی شامل تھے۔
حضرت سیّد سردار احمد شاہ صاحبؓ 1885ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور میٹرک تک تعلیم بھی لاہور میں حاصل کی۔ بعد ازاں محکمہ انہار میں ملازمت کرلی اور مختلف مقامات پر متعین رہے۔ 1940ء میں آپ نے ملازمت سے فراغت حاصل کرلی اور اپنے آبائی گاؤں شاہ مسکین میں رہائش پذیر ہوگئے جہاں آپ کی دو مربع زرعی اراضی تھی۔ آپؓ کی شادی اپنے چچا حضرت سیّد رمضان شاہ صاحبؓ کی بیٹی محترمہ سیّدہ زیب النساء سے ہوئی تھی۔ اُس وقت آپؓ کے دو بیٹے تھے جب آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کا وہ خطبہ سنا جس میں حضورؓ نے فرمایا کہ جس شخص کے تین بیٹے ہوں وہ کم از کم ایک بیٹا ضرور وقف کرے۔ آپؓ نے نیت کرلی کہ اگر خدا نے ایک اَور بیٹا عطا کیا تو اُسے وقف کردیں گے۔ اس طرح مکرم سلطان محمود شاہد صاحب کو پیدائش سے پہلے ہی آپؓ نے وقف کردیا تھا۔
محترم سلطان محمود شاہد صاحب 16؍اکتوبر 1923ء کو اپنے آبائی گاؤں شاہ مسکین میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد محترم کی جائے ملازمت تبدیل ہوتے رہنے کی وجہ سے آپ بھی مختلف مقامات پر تعلیم حاصل کرتے رہے۔میٹرک لاہور سے کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے بی ایس سی بھی کی۔ آپ والی بال ٹیم کے کیپٹن بھی رہے اور ایک بار قائداعظم کے ہاتھوں بھی انعام حاصل کیا۔بی ایس سی کے بعد آپ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے مزید تعلیم جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے 1946ء میں ایم ایس سی کیمسٹری کا امتحان پاس کرکے پھر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے تو آپ کا تقرّر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں بطور لیکچرار کردیا گیا۔قیامِ پاکستان کے بعد کالج کے ساتھ ہی پہلے لاہور اور 1954ء میں ربوہ منتقل ہوگئے۔ لاہور میں آپ سیکرٹری تبلیغ بھی رہے اور کئی جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کا انعقاد کروانے کی توفیق پائی۔
آپ کی شادی 1953ء میں مکرمہ ثریا جبین صاحبہ سے ہوئی جن کے والد مکرم میاں ولایت محمد صاحب (آف لاہور) زرعی کالج لائل پور میں ڈرافٹس مین تھے۔ لائل پور کی مسجد کا نقشہ بنانے سے لے کر اس کی تعمیر تک انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہ شادی بہت بابرکت ثابت ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بہت احترام اور بہت محبت دی۔ خاندان کے بہت سے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے آپ نے نہایت شفقت سے سالہاسال اپنے گھر میں رکھا۔ آپ کی اہلیہ کی وفات 1995ء میں ہوئی۔
محترم سلطان محمود شاہد صاحب 1956ء میں لندن چلے گئے اور 1958ء میں یونیورسٹی آف لندن سے آرگینک کیمسٹری میں Ph.D کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران آپ لندن میں قائد خدام الاحمدیہ بھی رہے۔ پھر ربوہ واپس آکر ٹی آئی کالج میں بطور پروفیسر 1963ء تک پڑھاتے رہے۔ 1963ء میں آپ دوبارہ لندن گئے اور لندن یونیورسٹی میں مزید ریسرچ کی اور رائل انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سوسائٹی کی فیلوشپ لی۔ پھر واپس ربوہ آکر تعلیم الاسلام کالج سے وابستہ رہے۔ سولہ سال تک کالج یونین کے انچارج رہے۔

کالج یونین کے اراکین 1979ء محترم شاہ صاحب کے ہمراہ

کچھ عرصہ نگران پرنسپل بھی رہے۔ آپ کی تصنیف کردہ درسی کتب نے بہت شہرت حاصل کی اور 1974ء تک وہ پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل رہیں۔ ٹی آئی کالج ربوہ کے علاوہ جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ میں سائنس بلاک کی تعمیر آپ کی زیرنگرانی ہوئی۔ 1979ء میں آپ کو گورڈن کالج راولپنڈی میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ بعدازاں گورنمنٹ ڈگری کالج ننکانہ صاحب کے پرنسپل مقرر ہوئے جہاں سے اکتوبر 1986ء میں ریٹائر ہوئے۔ وہاں کے اساتذہ کے ساتھ آپ کا بہت محبت کا سلوک رہا۔ اُن کو ربوہ بھی بلاتے اور بعض برملا کہتے کہ ہم تو آپ کو سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔
ربوہ کے تعلیمی اداروں کے سرکاری تحویل میں جانے کے بعد اُن کے مسائل کو دیکھتے ہوئے آپ نے ربوہ میں ناصر کنڈر گارٹن اور ناصر پبلک سکول جیسے ادارے بنائے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد الہدیٰ ماڈل کالج بنایا جسے 1998ء تک چلاتے رہے۔ اس طرح آپ کی تعلیمی خدمات نصف صدی کے لگ بھگ محیط ہیں۔
جب مَیں نے بطور لیکچرار ملازمت شروع کی تو آپ نے مجھے یہی نصیحت کی کہ ہمیشہ اپنے طلباء کا خیال رکھنا اور اُن کی عزت کرنا تو وہ تمہیں بہت عزت دیں گے۔اور کسی طالب علم کو کلاس سے نہ نکالنا اور نہ ہی کسی کو Detain ہونے دینا کیونکہ بچے ناسمجھی میں بعض اوقات غلطی کرجاتے ہیں۔
آپ اپنے بچوں کے بہترین دوست بھی تھے۔ ہر ملنے والے کو یہ نصیحت کرتے کہ وہ اپنی تعلیم کو انتہا درجے تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ بہت سے لوگوں نے اس نصیحت پر عمل بھی کیا۔ آپ کے چاروں بچوں نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مَیں نے اردو اور فارسی میں ایم اے کرلیا تو آپ کی حوصلہ افزائی سے پہلے ایم فِل تک تعلیم حاصل کی اور پھر جیوگرافی میں ایم ایس سی بھی کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں